ابن عیینہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے پوچھا، کیا تم نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا جو کہ مسجد سے تیر لیکرگز رہا تھا۔ ”ان کی پیکانوں کو پکڑ لو۔“ عمرو بن دینار نے کہا کہ ہاں (میں نے یہ حدیث سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔) یہ حدیث مخزومی کی ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو حُکم دیا، جو کہ مسجد میں تیر تقسیم کررہا تھا کہ وہ تیروں کے پیکان پکڑ کر مسجد سے گزرے۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص ہماری مسجد یا ہمارے بازار میں سے تیرلیکر گزرے تو اُسے چاہیے کہ وہ ان کے پھل اپنے ہاتھ میں پکڑلے، تاکہ کسی مسلمان کو ان سے تکلیف نہ پہنچے۔“ یا فرمایا کہ ”ان کے پھلوں کو پکڑلے۔“
وفي هذا ما دل على ان المسجد لمن سبق إليه، ليس احد احق بموضع من المسجد من غيره قال الله عز وجل: وان المساجد لله (الجن: 18). وَفِي هَذَا مَا دَلَّ عَلَى أَنَّ الْمَسْجِدَ لِمَنْ سَبَقَ إِلَيْهِ، لَيْسَ أَحَدٌ أَحَقَّ بِمَوْضِعٍ مِنَ الْمَسْجِدِ مِنْ غَيْرِهِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ (الْجِنِّ: 18).
اور اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ مسجد پر اسی کا حق ہے جو اس میں پہلے آتا ہے۔ کسی شخص کو مسجد کے کسی حصّے پر دوسرے کی نسبت زیادہ حق حاصل نہیں ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: «وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ» [ سورة الجن: 18 ]”بیشک مساجد اللہ کے لئے ہیں“
سیدنا عبدالرحمٰن بن شبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز میں) کوّے کی طرح ٹھونگیں مارنے، درندے کی طرح (بازو) پھیلانے اور مسجد میں کسی آدمی کو اس طرح اپنے لئے مخصوص جگہ یا مقام مقرر کرنے سے منع فرمایا ہے جس طرح اُونٹ اپنے بیٹھنے کے لئے جگہ مخصوص کرتا ہے۔
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کی ایک قوم کے پاس تشریف لائے جبکہ وہ مسجد بنا رہے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں حُکم دیا: ”اسے کشادہ بناؤ تم اسے (اپنی تعداد سے) بھر دوگے۔“
حضرت ابوقلابہ جرمی بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ زاویہ مقام کی طرف جارہے تھے تو ہم ایک مسجد کے پاس سے گزرے جبکہ صبح کی نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اگر ہم اس مسجد میں نماز پڑھ لیں (تو بہتر ہے) کیونکہ کچھ لوگ تو دوسری مسجد میں نماز پڑھتے ہیں۔ اُنہوں نے پوچھا کہ کونسی مسجد؟ تو ہم نے ایک مسجد کا ذکر کیا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں پر ایک وقت آئے گا کہ وہ مساجد پر فخر کا اظہار کریں گے۔ وہ اسے آباد نہیں کریں گے مگر بہت تھوڑا۔ یا فرمایا کہ ”وہ اسے بہت کم آباد کریں گے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ”زاويہ“ بصرہ سے دو فرسخ کے فاصلے پر ایک محل ہے (جہاں پر سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی زمین اور گھر تھا۔)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ لوگ مساجد کے بارے میں فخر و مباہات کا اظہار کریں گے ـ“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہیں ہوگی حتّیٰ کہ لوگ مساجد (کی تعمیر و تزئین) میں فخر و مباہات کرنے لگیں۔“
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مسجد نبوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اینٹوں سے بنی ہوئی تھی، اس کی چھت کھجور کی ٹہنیوں سے ڈالی گئی تھی اور اس کے ستون کھجور کی لکڑی کے تھے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (اپنے عہد میں) اس میں کچھ اضافہ نہیں کیا۔ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس میں اضافہ (کرکے اسے کشادہ اور وسیع) کیا۔ اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کی بنیادوں پر اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے تعمیر کیا اور اس کے ستون لکڑی سے دوبارہ بنوائے پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس میں تبدیلی کی اور کافی اضافہ کیا۔ اُنہوں نے اس کی دیواریں منقّش پتھروں اور چونے سے بنوائیں، اور اس کے ستون بھی منقّش پتھروں سے تعمیر کرائے، اور اس کی چھت ساگوان کی عمدہ لکڑی سے ڈالی۔ محمد بن یحییٰ کی روایت میں الفاظ اس طرح ہیں کہ ”اور اس کے ستون کھجور کی لکڑی کے بنوائے۔ اور اُنہوں نے چونے کا ذ کر نہیں کیا۔