جناب عبد اللہ بن شقیق سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو کافی دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے، لہٰذا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تو رکوع بھی کھڑے ہوکر کرتے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھتے تو رکوع بھی بیٹھ کر کرتے۔
حدثنا محمد بن العلاء بن كريب ، حدثنا ابو خالد ، حدثنا حميد ، عن عبد الله بن شقيق ، عن عائشة ، انه سالها عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا، فقالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يصلي ليلا طويلا قائما، فإذا صلى قاعدا ركع قاعدا، وإذا صلى قائما ركع قائما" . فقال ابو خالد: فحدثت به هشام بن عروة، فقال: كذب حميد وكذب عبد الله بن شقيق، حدثني ابي، عن عائشة، قالت: ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعدا قط حتى دخل في السن، فكان يقرا السور فإذا بقي منها آيات قام فقراهن، ثم ركع، هكذا قال ابو بكر: السور. قال ابو بكر: قد انكر هشام بن عروة خبر عبد الله بن شقيق، إذ ظاهره كان عنده خلاف خبره عن ابيه، عن عائشة، وهو عندي غير مخالف لخبره ؛ لان في رواية خالد، عن عبد الله بن شقيق، عن عائشة: فإذا قرا وهو قائم ركع وسجد وهو قائم، وإذا قرا وهو قاعد ركع وسجد وهو قاعد، فعلى هذه اللفظة هذا الخبر ليس بخلاف خبر عروة وعمرة، عن عائشة ؛ لان هذه اللفظة التي ذكرها خالد دالة على انه كان إذا كان جميع القراءة قاعدا ركع قاعدا، وإذا كان جميع القراءة قائما ركع قائما، ولم يذكر عبد الله بن شقيق صفة صلاته إذا كان بعض القراءة قائما، وبعضها قاعدا، وإنما ذكره عروة، وابو سلمة، وعمرة، عن عائشة إذا كانت القراءة في الحالتين جميعا بعضها قائما وبعضها قاعدا، فذكر انه كان يركع وهو قائم إذا كانت قراءته في الحالتين كلتيهما، ولم يذكر عروة، ولا ابو سلمة، ولا عمرة كيف كان النبي صلى الله عليه وسلم يفتتح هذه الصلاة التي يقرا فيها قائما وقاعدا ويركع قائما، وذكر ابن سيرين، عن عبد الله بن شقيق، عن عائشة ما دل على انه كان يفتتحها قائماحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ بْنِ كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهُ سَأَلَهَا عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا، فَقَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصَلِّي لَيْلا طَوِيلا قَائِمًا، فَإِذَا صَلَّى قَاعِدًا رَكَعَ قَاعِدًا، وَإِذَا صَلَّى قَائِمًا رَكَعَ قَائِمًا" . فَقَالَ أَبُو خَالِدٍ: فَحَدَّثْتُ بِهِ هِشَامَ بْنَ عُرْوَةَ، فَقَالَ: كَذَبَ حُمَيْدٌ وَكَذَبَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدًا قَطُّ حَتَّى دَخَلَ فِي السِّنِّ، فَكَانَ يُقْرَأُ السُّوَرَ فَإِذَا بَقِيَ مِنْهَا آيَاتٌ قَامَ فَقَرَأَهُنَّ، ثُمَّ رَكَعَ، هَكَذَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ: السُّوَرُ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ أَنْكَرَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ خَبَرَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، إِذْ ظَاهِرُهُ كَانَ عِنْدَهُ خِلافَ خَبَرِهِ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَهُوَ عِنْدِي غَيْرُ مُخَالِفٍ لِخَبَرِهِ ؛ لأَنَّ فِي رِوَايَةِ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ: فَإِذَا قَرَأَ وَهُوَ قَائِمٌ رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَائِمٌ، وَإِذَا قَرَأَ وَهُوَ قَاعِدٌ رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَاعِدٌ، فَعَلَى هَذِهِ اللَّفْظَةِ هَذَا الْخَبَرُ لَيْسَ بِخِلافِ خَبَرِ عُرْوَةَ وَعَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ؛ لأَنَّ هَذِهِ اللَّفْظَةِ الَّتِي ذَكَرَهَا خَالِدٌ دَالَّةٌ عَلَى أَنَّهُ كَانَ إِذَا كَانَ جَمِيعُ الْقِرَاءَةِ قَاعِدًا رَكَعَ قَاعِدًا، وَإِذَا كَانَ جَمِيعُ الْقِرَاءَةِ قَائِمًا رَكَعَ قَائِمًا، وَلَمْ يَذْكُرْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ صِفَةَ صَلاتِهِ إِذَا كَانَ بَعْضُ الْقِرَاءَةِ قَائِمًا، وَبَعْضُهَا قَاعِدًا، وَإِنَّمَا ذَكَرَهُ عُرْوَةُ، وَأَبُو سَلَمَةَ، وَعَمْرَةُ، عَنْ عَائِشَةَ إِذَا كَانَتِ الْقِرَاءَةُ فِي الْحَالَتَيْنِ جَمِيعًا بَعْضُهَا قَائِمًا وَبَعْضُهَا قَاعِدًا، فَذَكَرَ أَنَّهُ كَانَ يَرْكَعُ وَهُوَ قَائِمٌ إِذَا كَانَتْ قِرَاءَتُهُ فِي الْحَالَتَيْنِ كِلْتَيْهِمَا، وَلَمْ يَذْكُرْ عُرْوَةُ، وَلا أَبُو سَلَمَةَ، وَلا عَمْرَةُ كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ هَذِهِ الصَّلاةَ الَّتِي يَقْرَأُ فِيهَا قَائِمًا وَقَاعِدًا وَيَرْكَعُ قَائِمًا، وَذَكَرَ ابْنُ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ مَا دَلَّ عَلَى أَنَّهُ كَانَ يَفْتَتِحُهَا قَائِمًا
جناب عبداللہ بن شقیق سے مروی ہے کہ اُنہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دیر تک کھڑے ہوکر نماز پڑھتے تھے، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھتے تو رکوع بھی بیٹھے بیٹھے کر لیتے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تو رکوع بھی کھڑے ہو کر کرتے۔ ابوخالد بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ہشام بن عروہ کو بیان کی تو اُنہوں نے کہا کہ حمید کو غلطی لگی ہے، اور عبداللہ بن شقیق نے بھی درست نہیں کہا، مجھے میرے والد (سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ) نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بیٹھ کر نماز نہیں پڑھی حتیٰ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورتوں کی تلاوت (بیٹھ کر) کرتے، اور جب اُن کی کچھ آیات باقی رہ جاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر اُن کی تلاوت کرتے اور رکوع کرتے۔ ابوبکر رحمه الله نے اسی طرح کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ”سورتیں“ پڑھتے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ جناب ہشام بن عروہ نے عبداللہ بن شقیق کی روایت کا انکار کیا ہے، کیونکہ اُن کے نزدیک عبداللہ کی خبرکا ظاہری مفہوم ان کی روایت کے خلاف ہے جبکہ میرے نزدیک وہ ان کی حدیث کے خلاف نہیں ہے۔ کیونکہ خالد کی عبداللہ کے واسطے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر قراءت کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجدہ بھی کھڑے ہوکر کرتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر تلاوت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی بیٹھ کرکرتے۔ ان الفاظ کے لحاظ سے یہ حدیث سیدنا عروہ اور عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے خلاف نہیں ہے۔ کیونکہ خالد کی روایت کے یہ الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ساری قراءت بیٹھ کر کرتے تو رکوع بھی بیٹھ کر کرتے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری قراءت کھڑے ہوکر ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع بھی کھڑے ہوکر کرتے، اور جناب عبدﷲ بن شقیق نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی وہ کیفیت بیان نہیں کی جس میں کچھ قراءت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر کی اور کچھ قراءت کھڑے ہو کر کی۔ بلاشبہ یہ کیفیت حضرت عروہ، ابوسلمہ اور عمرہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت دونوں طرح ہوتی، کچھ قراءت کھڑے ہو کر اور کچھ بیٹھ کر پھر انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر رکوع کرتے تھے۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت دونوں طریقوں سے ہوتی تھی۔ لیکن حضرت عردہ، ابوسلمہ اور عمرہ نے یہ بیان نہیں کیا کہ جس نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر اور کھڑے ہو کر (دونوں طریقوں سے) قراءت کرتے تھے اور رکوع بھی کھڑے ہوکر کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کی ابتداء کیسے کرتے تھے، (کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر) جبکہ ابن سیرین نے عبداللہ بن شقیق کے واسطے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو روایت بیان کی ہے، اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ اس نماز کی ابتدا کھڑے ہوکر کر تے تھے۔
جناب ابن سیرین، عبداللہ بن شقیق کے واسطے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نفل نماز) کھڑے ہوکر اور بیٹھ کر بھی پڑھا کرتے تھے۔ تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر نماز کی ابتدا کرتے تو رکوع بھی کھڑے ہوکر کرتے، نماز کی ابتدا بیٹھ کر کرتے تو رکوع بھی بیٹھ کر کرتے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ روایت گزشتہ تمام روایات کو کھول کر بیان کرتی ہے۔ چنانچہ اس روایت کے مطابق جب نمازی، نماز کی ابتدا کھڑے ہوکر کرے، پھر بیٹھ جائے اور قراءت کرے تو اُس کے لئے مناسب اور لائق بات یہ ہے کہ وہ کھڑے ہو کر کچھ قراءت کرے اور پھر کھڑے کھڑے رکوع کرلے۔ اور جب وہ اپنی نماز کی ابتداء بیٹھ کر کرے اور ساری قراءت بیٹھ کر کرے تو پھر اسے رکوع بھی بیٹھ کر کرنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی اتباع اور پیروی کرتے ہوئے۔
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” لیٹ کر نماز پڑھنے والے کا اجر و ثواب بیٹھ کر نماز پڑھنے والے سے آدھا ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں یہ بات بیان کر چکا ہوں کہ عرب نائم (سونے والا) کا اطلاق لیٹنے والے شخص پر بھی کرتے ہیں اور اس سونے والے پر بھی کرتے ہیں جس کی عقل و شعور نیند کی وجہ سے زائل ہو چکی ہو۔ بیشک مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ ”سونے والے کی نماز“ میں مراد لیٹنے والا ہے نہ کہ جس کی عقل و شعور نیند کی وجہ سے ختم ہو چکی ہو۔ کیونکہ نیند کی وجہ سے جس شخص کی عقل ختم ہو چکی ہو وہ اس حالت میں نماز کو نہیں سمجھتا (تو پھر اسے ادا کیسے کرے گا۔)
خلاف ما يتوهمه العامة إذ العامة إنما تامر المصلي مضطجعا ان يصلي مستلقيا على قفاه، والنبي صلى الله عليه وسلم امر المصلي مضطجعا ان يصلي على جنبخِلَافَ مَا يَتَوَهَّمُهُ الْعَامَّةُ إِذِ الْعَامَّةُ إِنَّمَا تَأْمُرُ الْمُصَلِّي مُضْطَجِعًا أَنْ يُصَلِّيَ مُسْتَلْقِيًا عَلَى قَفَاهُ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ الْمُصَلِّي مُضْطَجِعًا أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى جَنْبٍ
عوام کے خیال کے برخلاف، کیونکہ عوام لیٹ کر نماز پڑھنے والے پر چت لیٹ کر نماز پڑھنے کا حُکم دیتے ہیں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیٹ کر نماز پڑھنے والے کو پہلو کے بل لیٹ کر نماز پڑھںے کا حُکم دیا ہے
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بواسیر تھی تو میں نے نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کی کیفیت کے متعلق پو چھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اگر تمہیں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھ لو، اگر تمہیں اس کے بھی استطاعت نہ ہو تو پہلو کے بل (لیٹ کر) پڑھ لو) امام ابن مبارک رحمه الله کی روایت میں ”بواسیر“ کے لفظ آئے ہیں (معنی دونوں کے ایک ہیں۔)“