حدثنا يعقوب الدورقي ، حدثنا معتمر ، عن خالد ، عن عبد الله وهو ابن شقيق ، عن عائشة ، قالت: ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي الضحى قط إلا ان يقدم من سفر فيصلي ركعتين" . قال ابو بكر: خبر ابن عمر من الجنس الذي اعلمت في غير موضع من كتبنا ان المخبر والشاهد الذي يجب قبول خبره وشهادته من يخبر برؤية الشيء وسماعه وكونه، لا من ينفي الشيء، وإنما يقول العلماء: لم يفعل فلان كذا، ولم يكن كذا على المسامحة والمساهلة في الكلام، وإنما يريدون ان فلانا لم يفعل كذا علمي، وإن كذا لم يكن علمي، وابن عمر إنما اراد ان النبي صلى الله عليه وسلم لم يكن يصلي الضحى إلا ان يقدم من غيبة اي لم اره صلى، ولم يخبرني ثقة انه كان يصلي الضحى إلا ان يقدم من غيبة وهكذا خبر عائشة، رواه كهمس بن الحسن، والجريري جميعا، عن عبد الله بن شقيق ، قال: قلت لعائشة : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي الضحى؟ قالت:" لا إلا ان يجيء من مغيبه" . حدثناه الدورقي ، حدثنا عثمان بن عمر ، نا كهمس ، ح وحدثنا سلم بن جنادة ، حدثنا وكيع ، عن كهمس ، ح وحدثنا بندار ، حدثنا سالم بن نوح ، نا الجريري ، ح وحدثنا يعقوب الدورقي ، حدثنا ابن علية ، عن الجريري . قال ابو بكر: فهذه اللفظة التي في خبر كهمس، والجريري من الجنس الذي اعلمت انها تكلمت بها على المسامحة والمساهلة، وإنما معناها ما قالوا في خبر خالد الحذاء: ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي، والدليل على صحة ما تاولت ان النبي صلى الله عليه وسلم قد صلى صلاة الضحى في غير اليوم الذي كان يقدم فيه من الغيبة، ساذكر هذه الاخبار في موضعها من هذا الكتاب إن شاء الله، فالخبر الذي يجب قبوله، ويحكم به هو خبر من اعلم ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى الضحى لا خبر من، قال: إنه لم يصلحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ ابْنُ شَقِيقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي الضُّحَى قَطُّ إِلا أَنْ يَقْدَمَ مِنْ سَفَرٍ فَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَبَرُ ابْنُ عُمَرَ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا أَنَّ الْمُخْبِرَ وَالشَّاهِدَ الَّذِي يَجِبُ قَبُولُ خَبَرِهِ وَشَهَادَتِهِ مَنْ يُخْبِرُ بِرُؤْيَةِ الشَّيْءِ وَسَمَاعِهِ وَكَوْنِهِ، لا مَنْ يَنْفِي الشَّيْءَ، وَإِنَّمَا يَقُولُ الْعُلَمَاءُ: لَمْ يَفْعَلْ فُلانٌ كَذَا، وَلَمْ يَكُنْ كَذَا عَلَى الْمُسَامَحَةِ وَالْمُسَاهَلَةِ فِي الْكَلامِ، وَإِنَّمَا يُرِيدُونَ أَنَّ فُلانًا لَمْ يَفْعَلْ كَذَا عِلْمِي، وَإِنَّ كَذَا لَمْ يَكُنْ عِلْمِي، وَابْنُ عُمَرَ إِنَّمَا أَرَادَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يُصَلِّي الضُّحَى إِلا أَنْ يَقْدَمَ مِنْ غَيْبَةٍ أَيْ لَمْ أَرَهُ صَلَّى، وَلَمْ يُخْبِرْنِي ثِقَةٌ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي الضُّحَى إِلا أَنْ يَقْدَمَ مِنْ غَيْبَةٍ وَهَكَذَا خَبَرُ عَائِشَةَ، رَوَاهُ كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ، وَالْجُرَيْرِيُّ جَمِيعًا، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى؟ قَالَتْ:" لا إِلا أَنْ يَجِيءَ مِنْ مَغِيبِهِ" . حَدَّثَنَاهُ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، نَا كَهْمَسٌ ، ح وَحَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ كَهْمَسٍ ، ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ ، نَا الْجُرَيْرِيُّ ، ح وَحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَهَذِهِ اللَّفْظَةُ الَّتِي فِي خَبَرِ كَهْمَسٍ، وَالْجُرَيْرِيِّ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ أَنَّهَا تَكَلَّمَتْ بِهَا عَلَى الْمُسَامَحَةِ وَالْمُسَاهَلَةِ، وَإِنَّمَا مَعْنَاهَا مَا قَالُوا فِي خَبَرِ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، وَالدَّلِيلُ عَلَى صِحَّةِ مَا تَأَوَّلَتْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّى صَلاةَ الضُّحَى فِي غَيْرِ الْيَوْمِ الَّذِي كَانَ يَقْدَمُ فِيهِ مِنَ الْغَيْبَةِ، سَأَذْكُرُ هَذِهِ الأَخْبَارَ فِي مَوْضِعَهَا مِنْ هَذَا الْكِتَابِ إِنَّ شَاءَ اللَّهُ، فَالْخَبَرُ الَّذِي يَجِبُ قَبُولُهُ، وَيُحْكَمُ بِهِ هُوَ خَبَرُ مَنْ أَعْلَمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الضُّحَى لا خَبَرُ مَنْ، قَالَ: إِنَّهُ لَمْ يُصَلِّ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی نماز چاشت پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا، مگر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس تشریف لاتے تو دو رکعات ادا فرماتے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت اسی جنس اور قسم سے تعلق رکھتی ہے جسے میں اپنی کتابوں میں کئی جگہ بیان کرچکا ہوں کہ وہ مخبر اور شاہد جس کی خبر اور شہادت قبول کرنا واجب ہے کہ وہ، وہ ہے جو کسی چیز کو دیکھنے، اُسے سننے یا اُس کے واقع ہونے کی خبر و شہادت دیتا ہے، اس سے مراد وہ مخبر یا شاہد نہیں جو کسی چیز کی نفی کرتا ہے (کہ وہ واقع نہیں ہوئی) بیشک علمائے کرام کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص نے یہ کام نہیں کیا، اور یہ کام اس طرح نہیں ہوا، وہ یہ بات چشم پوشی کرتے اور تساہل برتتے ہوئے کہہ دیتے ہیں - اور بلاشبہ ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ میرے علم کے مطابق فلاں شخص نے یہ کام نہیں کیا اور میرے علم کے مطابق فلاں کام نہیں ہوا۔ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف سفر سے واپسی ہی پر نماز چاشت پڑھتے تھے تو اس سے اُن کی مراد یہ ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا اور نہ مجھے کسی ثقہ آدمی نے بتایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپسی کے علاوہ بھی نماز چاشت پڑھتے تھے۔ اور اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے۔ اس روایت کو کہمس بن حسن اور جریری نے عبداللہ بن شقیق سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز چاشت پڑھتے تھے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ نہیں الّا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے (واپس) تشریف لاتے (تو ادا کرتے) امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ کہمس اور جریری کی روایت کے یہ الفاظ اسی طرح ہیں جسے میں نے بیان کیا ہے کہ سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات تسامح اور تساہل کرتے ہوئے فرمائی ہے۔ اور ان الفاظ کا معنی وہی ہے جیسا کہ خالد الحذا کی روایت میں ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا اور ان کی اس تاویل کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر سے واپسی کے دن کے علاوہ دن میں بھی نماز چاشت ادا کی ہے۔ میں عنقریب یہ روایات اس کتاب میں ان کے مقام پر بیان کروں گا۔ ان شاء اللہ۔ لہٰذا وہ روایت جسے قبول کرنا اور اس کے مطابق فیصلہ کرنا واجب ہے وہ اس شخص کی روایت ہے جس نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز چاشت ادا کی ہے۔ نہ کہ اس شخص کی روایت جو کہ کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہیں پڑھی۔
وفيه بيان ان النبي صلى الله عليه وسلم قد صلى الضحى في غير اليوم الذي كان يقدم فيه من الغيبة وَفِيهِ بَيَانُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّى الضُّحَى فِي غَيْرِ الْيَوْمِ الَّذِي كَانَ يَقْدَمُ فِيهِ مِنَ الْغَيْبَةِ
اور اس میں اس بات کا بیان موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر سے واپسی کے دن کے علاوہ دنوں میں بھی نمازِ چاشت ادا کی ہے۔
سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے گھر میں نماز چاشت پڑھی تو صحابہ کرام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے، سب نے اُن کے گھر میں نماز چاشت ادا کی۔ اما م ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اُن کے گھر سے مراد سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کا گھر ہے۔
وهذا من الباب الذي اعلمت ان الحكم للمخبر الذي يخبر بكون الشيء، لا من ينفي الشيء وَهَذَا مِنَ الْبَابِ الَّذِي أَعْلَمْتُ أَنَّ الْحُكْمَ لِلْمُخْبِرِ الَّذِي يُخْبِرُ بِكَوْنِ الشَّيْءِ، لَا مَنْ يَنْفِي الشَّيْءَ
اور یہ اس بات کے متعلق ہے جس کے بارے میں میں بیان کرچکا ہوں کہ حُکم اس خبر دینے والے کی خبر کے مطابق لگایا جائے گا جو کسی چیز کے ہونے کی خبر دیتا ہے نہ کہ اس کی خبر کے مطابق جو کسی چیز کی نفی کررہا ہو
حدثنا محمد بن عبد الله المخرمي ، حدثنا ابو عامر ، عن شعبة ، ح وحدثنا بندار ، حدثنا هشام بن عبد الملك ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، عن علي ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم " يصلي الضحى" . قال المخرمي: هكذا حدثنا به مختصرا، قال ابو بكر: هذا الخبر عندي مختصر من حديث عاصم بن ضمرة: سالنا عليا عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم قد امليته قبل قال في الخبر: إذا كانت الشمس من ههنا كهيئتها من ههنا عند العصر صلى ركعتين، فهذه صلاة الضحىحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُخَرِّمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصَلِّي الضُّحَى" . قَالَ الْمُخَرِّمِيُّ: هَكَذَا حَدَّثَنَا بِهِ مُخْتَصَرًا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا الْخَبَرُ عِنْدِي مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثِ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ: سَأَلْنَا عَلِيًّا عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمْلَيْتُهُ قَبْلُ قَالَ فِي الْخَبَرِ: إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ مِنْ هَهُنَا كَهَيْئَتِهَا مِنْ هَهُنَا عِنْدَ الْعَصْرِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَهَذِهِ صَلاةُ الضُّحَى
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز چاشت پڑھا کرتے تھے۔ جناب مخرمی کہتے ہیں کہ ہمیں (ہمارے استاد نے) اس طرح مختصر روایت بیان کی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ روایت عاصم بن ضمرہ کی روایت کا اختصار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، میں یہ روایت اس سے پہلے لکھوا چکا ہوں۔ اس روایت میں ہے کہ جب سورج مشرقی جانب اتنا بلند ہوتا جتنا عصر کے وقت مغربی جانب بلند ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات ادا فرماتے اور یہی چاشت کی نماز ہے۔
وهو من الجنس الذي اعلمت ان النبي صلى الله عليه وسلم قد صلى الضحى في غير اليوم الذي كان يقدم فيه من غيبة. وَهُوَ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّى الضُّحَى فِي غَيْرِ الْيَوْمِ الَّذِي كَانَ يَقْدَمُ فِيهِ مِنْ غَيْبَةٍ.
اور یہ اسی جنس سے تعلق رکھتا ہے جو میں نے بیان کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر سے واپسی کے دن کے علاوہ دنوں میں بھی نماز چاشت ادا فرمائی ہے
جناب عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں کہ مجھے سیدہ اُم ہانی رضی اﷲ عنہا کے سوا کسی نے بیان نہیں کیا کہ اُس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز چاشت پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ بیشک اُنہوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ والے دن اُن کے پاس تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا اور آٹھ رکعات ادا کیں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نماز سے زیادہ ہلکی نماز پڑھتے نہیں دیکھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجود مکمّل کرتے تھے۔
سیدہ اُم ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دن چاشت کی آٹھ رکعات ادا کیں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرتے تھے۔
جناب عبداللہ بن حارث بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا اور میری شدید خواہش تھی کہ مجھے کوئی ایسا شخص مل جائے جو مجھے یہ بیان کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز چاشت پڑھی ہے، لیکن مجھے سیدہ اُم ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی شخص نہ مل سکا۔ اُنہوں مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ والے دن سورج بلند ہونے کے بعد (اُن کے گھر) تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑا لانے کا حُکم دیا، چنانچہ ایک چادر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پردہ کر دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر آٹھ رکعات ادا فرمائیں، مجھے معلوم نہیں کہ ان رکعات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام زیادہ طویل تھا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدے، یہ تمام چیزیں قریب قریب تھیں، فرماتی ہیں کہ پھر میں نے اس سے پہلے اور بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز چاشت پڑھتے نہیں دیکھا۔