صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
نماز چاشت اور اس میں جو مسنون چیزیں ہیں ان کے ابواب کا مجموعہ
778. (545) بَابُ صَلَاةِ الضُّحَى عِنْدَ الْقُدُومِ مِنَ السَّفَرِ
778. سفر سے واپسی پر نماز چاشت پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1229
Save to word اعراب
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف سفر سے واپسی پر ہی نماز چاشت ادا کیا کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 1230
Save to word اعراب
حدثنا يعقوب الدورقي ، حدثنا معتمر ، عن خالد ، عن عبد الله وهو ابن شقيق ، عن عائشة ، قالت: ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي الضحى قط إلا ان يقدم من سفر فيصلي ركعتين" . قال ابو بكر: خبر ابن عمر من الجنس الذي اعلمت في غير موضع من كتبنا ان المخبر والشاهد الذي يجب قبول خبره وشهادته من يخبر برؤية الشيء وسماعه وكونه، لا من ينفي الشيء، وإنما يقول العلماء: لم يفعل فلان كذا، ولم يكن كذا على المسامحة والمساهلة في الكلام، وإنما يريدون ان فلانا لم يفعل كذا علمي، وإن كذا لم يكن علمي، وابن عمر إنما اراد ان النبي صلى الله عليه وسلم لم يكن يصلي الضحى إلا ان يقدم من غيبة اي لم اره صلى، ولم يخبرني ثقة انه كان يصلي الضحى إلا ان يقدم من غيبة وهكذا خبر عائشة، رواه كهمس بن الحسن، والجريري جميعا، عن عبد الله بن شقيق ، قال: قلت لعائشة : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي الضحى؟ قالت:" لا إلا ان يجيء من مغيبه" . حدثناه الدورقي ، حدثنا عثمان بن عمر ، نا كهمس ، ح وحدثنا سلم بن جنادة ، حدثنا وكيع ، عن كهمس ، ح وحدثنا بندار ، حدثنا سالم بن نوح ، نا الجريري ، ح وحدثنا يعقوب الدورقي ، حدثنا ابن علية ، عن الجريري . قال ابو بكر: فهذه اللفظة التي في خبر كهمس، والجريري من الجنس الذي اعلمت انها تكلمت بها على المسامحة والمساهلة، وإنما معناها ما قالوا في خبر خالد الحذاء: ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي، والدليل على صحة ما تاولت ان النبي صلى الله عليه وسلم قد صلى صلاة الضحى في غير اليوم الذي كان يقدم فيه من الغيبة، ساذكر هذه الاخبار في موضعها من هذا الكتاب إن شاء الله، فالخبر الذي يجب قبوله، ويحكم به هو خبر من اعلم ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى الضحى لا خبر من، قال: إنه لم يصلحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ ابْنُ شَقِيقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي الضُّحَى قَطُّ إِلا أَنْ يَقْدَمَ مِنْ سَفَرٍ فَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَبَرُ ابْنُ عُمَرَ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا أَنَّ الْمُخْبِرَ وَالشَّاهِدَ الَّذِي يَجِبُ قَبُولُ خَبَرِهِ وَشَهَادَتِهِ مَنْ يُخْبِرُ بِرُؤْيَةِ الشَّيْءِ وَسَمَاعِهِ وَكَوْنِهِ، لا مَنْ يَنْفِي الشَّيْءَ، وَإِنَّمَا يَقُولُ الْعُلَمَاءُ: لَمْ يَفْعَلْ فُلانٌ كَذَا، وَلَمْ يَكُنْ كَذَا عَلَى الْمُسَامَحَةِ وَالْمُسَاهَلَةِ فِي الْكَلامِ، وَإِنَّمَا يُرِيدُونَ أَنَّ فُلانًا لَمْ يَفْعَلْ كَذَا عِلْمِي، وَإِنَّ كَذَا لَمْ يَكُنْ عِلْمِي، وَابْنُ عُمَرَ إِنَّمَا أَرَادَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يُصَلِّي الضُّحَى إِلا أَنْ يَقْدَمَ مِنْ غَيْبَةٍ أَيْ لَمْ أَرَهُ صَلَّى، وَلَمْ يُخْبِرْنِي ثِقَةٌ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي الضُّحَى إِلا أَنْ يَقْدَمَ مِنْ غَيْبَةٍ وَهَكَذَا خَبَرُ عَائِشَةَ، رَوَاهُ كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ، وَالْجُرَيْرِيُّ جَمِيعًا، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى؟ قَالَتْ:" لا إِلا أَنْ يَجِيءَ مِنْ مَغِيبِهِ" . حَدَّثَنَاهُ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، نَا كَهْمَسٌ ، ح وَحَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ كَهْمَسٍ ، ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ ، نَا الْجُرَيْرِيُّ ، ح وَحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَهَذِهِ اللَّفْظَةُ الَّتِي فِي خَبَرِ كَهْمَسٍ، وَالْجُرَيْرِيِّ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ أَنَّهَا تَكَلَّمَتْ بِهَا عَلَى الْمُسَامَحَةِ وَالْمُسَاهَلَةِ، وَإِنَّمَا مَعْنَاهَا مَا قَالُوا فِي خَبَرِ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، وَالدَّلِيلُ عَلَى صِحَّةِ مَا تَأَوَّلَتْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّى صَلاةَ الضُّحَى فِي غَيْرِ الْيَوْمِ الَّذِي كَانَ يَقْدَمُ فِيهِ مِنَ الْغَيْبَةِ، سَأَذْكُرُ هَذِهِ الأَخْبَارَ فِي مَوْضِعَهَا مِنْ هَذَا الْكِتَابِ إِنَّ شَاءَ اللَّهُ، فَالْخَبَرُ الَّذِي يَجِبُ قَبُولُهُ، وَيُحْكَمُ بِهِ هُوَ خَبَرُ مَنْ أَعْلَمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الضُّحَى لا خَبَرُ مَنْ، قَالَ: إِنَّهُ لَمْ يُصَلِّ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی نماز چاشت پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا، مگر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس تشریف لاتے تو دو رکعات ادا فرماتے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت اسی جنس اور قسم سے تعلق رکھتی ہے جسے میں اپنی کتابوں میں کئی جگہ بیان کرچکا ہوں کہ وہ مخبر اور شاہد جس کی خبر اور شہادت قبول کرنا واجب ہے کہ وہ، وہ ہے جو کسی چیز کو دیکھنے، اُسے سننے یا اُس کے واقع ہونے کی خبر و شہادت دیتا ہے، اس سے مراد وہ مخبر یا شاہد نہیں جو کسی چیز کی نفی کرتا ہے (کہ وہ واقع نہیں ہوئی) بیشک علمائے کرام کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص نے یہ کام نہیں کیا، اور یہ کام اس طرح نہیں ہوا، وہ یہ بات چشم پوشی کرتے اور تساہل برتتے ہوئے کہہ دیتے ہیں - اور بلاشبہ ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ میرے علم کے مطابق فلاں شخص نے یہ کام نہیں کیا اور میرے علم کے مطابق فلاں کام نہیں ہوا۔ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف سفر سے واپسی ہی پر نماز چاشت پڑھتے تھے تو اس سے اُن کی مراد یہ ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا اور نہ مجھے کسی ثقہ آدمی نے بتایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپسی کے علاوہ بھی نماز چاشت پڑھتے تھے۔ اور اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے۔ اس روایت کو کہمس بن حسن اور جریری نے عبداللہ بن شقیق سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز چاشت پڑھتے تھے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ نہیں الّا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے (واپس) تشریف لاتے (تو ادا کرتے) امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ کہمس اور جریری کی روایت کے یہ الفاظ اسی طرح ہیں جسے میں نے بیان کیا ہے کہ سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات تسامح اور تساہل کرتے ہوئے فرمائی ہے۔ اور ان الفاظ کا معنی وہی ہے جیسا کہ خالد الحذا کی روایت میں ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا اور ان کی اس تاویل کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر سے واپسی کے دن کے علاوہ دن میں بھی نماز چاشت ادا کی ہے۔ میں عنقریب یہ روایات اس کتاب میں ان کے مقام پر بیان کروں گا۔ ان شاء اللہ۔ لہٰذا وہ روایت جسے قبول کرنا اور اس کے مطابق فیصلہ کرنا واجب ہے وہ اس شخص کی روایت ہے جس نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز چاشت ادا کی ہے۔ نہ کہ اس شخص کی روایت جو کہ کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہیں پڑھی۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
779. (546) بَابُ صَلَاةِ الضُّحَى فِي الْجَمَاعَةِ
779. نمازِ چاشت با جماعت ادا کرنے کا بیان،
حدیث نمبر: Q1231
Save to word اعراب
وفيه بيان ان النبي صلى الله عليه وسلم قد صلى الضحى في غير اليوم الذي كان يقدم فيه من الغيبة وَفِيهِ بَيَانُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّى الضُّحَى فِي غَيْرِ الْيَوْمِ الَّذِي كَانَ يَقْدَمُ فِيهِ مِنَ الْغَيْبَةِ
اور اس میں اس بات کا بیان موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر سے واپسی کے دن کے علاوہ دنوں میں بھی نمازِ چاشت ادا کی ہے۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1231
Save to word اعراب
حدثنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، ومحمد بن يحيى ، قالا: حدثنا عثمان بن عمر ، اخبرنا يونس ، عن الزهري ، عن محمود بن الربيع ، عن عتبان بن مالك ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " صلى في بيته سبحة الضحى، فقاموا وراءه فصلوا في بيته" . قال ابو بكر: في بيته يعني بيت عتبان بن مالكحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، قَالا: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى فِي بَيْتِهِ سُبْحَةَ الضُّحَى، فَقَامُوا وَرَاءَهُ فَصَلَّوْا فِي بَيْتِهِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي بَيْتِهِ يَعْنِي بَيْتَ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ
سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے گھر میں نماز چاشت پڑھی تو صحابہ کرام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے، سب نے اُن کے گھر میں نماز چاشت ادا کی۔ اما م ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اُن کے گھر سے مراد سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کا گھر ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
780. (547) بَابُ صَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الضُّحَى
780. چاشت کے وقت بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا بیان،
حدیث نمبر: Q1232
Save to word اعراب
وهذا من الباب الذي اعلمت ان الحكم للمخبر الذي يخبر بكون الشيء، لا من ينفي الشيء وَهَذَا مِنَ الْبَابِ الَّذِي أَعْلَمْتُ أَنَّ الْحُكْمَ لِلْمُخْبِرِ الَّذِي يُخْبِرُ بِكَوْنِ الشَّيْءِ، لَا مَنْ يَنْفِي الشَّيْءَ
اور یہ اس بات کے متعلق ہے جس کے بارے میں میں بیان کرچکا ہوں کہ حُکم اس خبر دینے والے کی خبر کے مطابق لگایا جائے گا جو کسی چیز کے ہونے کی خبر دیتا ہے نہ کہ اس کی خبر کے مطابق جو کسی چیز کی نفی کررہا ہو

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1232
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله المخرمي ، حدثنا ابو عامر ، عن شعبة ، ح وحدثنا بندار ، حدثنا هشام بن عبد الملك ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، عن علي ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم " يصلي الضحى" . قال المخرمي: هكذا حدثنا به مختصرا، قال ابو بكر: هذا الخبر عندي مختصر من حديث عاصم بن ضمرة: سالنا عليا عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم قد امليته قبل قال في الخبر: إذا كانت الشمس من ههنا كهيئتها من ههنا عند العصر صلى ركعتين، فهذه صلاة الضحىحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُخَرِّمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصَلِّي الضُّحَى" . قَالَ الْمُخَرِّمِيُّ: هَكَذَا حَدَّثَنَا بِهِ مُخْتَصَرًا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا الْخَبَرُ عِنْدِي مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثِ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ: سَأَلْنَا عَلِيًّا عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمْلَيْتُهُ قَبْلُ قَالَ فِي الْخَبَرِ: إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ مِنْ هَهُنَا كَهَيْئَتِهَا مِنْ هَهُنَا عِنْدَ الْعَصْرِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَهَذِهِ صَلاةُ الضُّحَى
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز چاشت پڑھا کرتے تھے۔ جناب مخرمی کہتے ہیں کہ ہمیں (ہمارے استاد نے) اس طرح مختصر روایت بیان کی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ روایت عاصم بن ضمرہ کی روایت کا اختصار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، میں یہ روایت اس سے پہلے لکھوا چکا ہوں۔ اس روایت میں ہے کہ جب سورج مشرقی جانب اتنا بلند ہوتا جتنا عصر کے وقت مغربی جانب بلند ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات ادا فرماتے اور یہی چاشت کی نماز ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن
781. (548) بَابُ صَلَاةِ الضُّحَى فِي السَّفَرِ
781. سفر میں نماز چاشت پڑھنے کا بیان،
حدیث نمبر: Q1233
Save to word اعراب
وهو من الجنس الذي اعلمت ان النبي صلى الله عليه وسلم قد صلى الضحى في غير اليوم الذي كان يقدم فيه من غيبة. وَهُوَ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّى الضُّحَى فِي غَيْرِ الْيَوْمِ الَّذِي كَانَ يَقْدَمُ فِيهِ مِنْ غَيْبَةٍ.
اور یہ اسی جنس سے تعلق رکھتا ہے جو میں نے بیان کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر سے واپسی کے دن کے علاوہ دنوں میں بھی نماز چاشت ادا فرمائی ہے

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1233
Save to word اعراب
حدثنا بندار ، نا محمد بن جعفر ، نا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، قال: ما اخبرني احد انه راى النبي صلى الله عليه وسلم يصلي الضحى إلا ام هانئ، فإنها حدثت: ان النبي صلى الله عليه وسلم" دخل عليها يوم فتح مكة، فاغتسل وصلى ثمان ركعات ما رايته صلى صلاة اخف منها، غير انه كان يتم الركوع والسجود" حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، نَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ: مَا أَخْبَرَنِي أَحَدٌ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى إِلا أُمُّ هَانِئٍ، فَإِنَّهَا حَدَّثَتْ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" دَخَلَ عَلَيْهَا يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ، فَاغْتَسَلَ وَصَلَّى ثَمَانِ رَكَعَاتٍ مَا رَأَيْتُهُ صَلَّى صَلاةً أَخَفَّ مِنْهَا، غَيْرَ أَنَّهُ كَانَ يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ"
جناب عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں کہ مجھے سیدہ اُم ہانی رضی اﷲ عنہا کے سوا کسی نے بیان نہیں کیا کہ اُس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز چاشت پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ بیشک اُنہوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ والے دن اُن کے پاس تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا اور آٹھ رکعات ادا کیں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نماز سے زیادہ ہلکی نماز پڑھتے نہیں دیکھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجود مکمّل کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
782. (549) بَابُ ذِكْرِ الْبَيَانِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَلِّمُ مِنْ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ مِنَ الثَّمَانِ رَكَعَاتِ اللَّاتِي صَلَّاهُنَّ صَلَاةَ الضُّحَى
782. اس بات کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی جو آٹھ رکعات ادا فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے تھے
حدیث نمبر: 1234
Save to word اعراب
سیدہ اُم ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دن چاشت کی آٹھ رکعات ادا کیں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرتے تھے۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن
783. (550) بَابُ التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الْقِيَامِ وَالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ فِي صَلَاةِ الضُّحَى
783. نماز چاشت میں قیام، رکوع اور سجدہ برابر مقدار میں کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1235
Save to word اعراب
نا احمد بن عبد الرحمن بن وهب بن مسلم ، حدثنا عمي ، اخبرني يونس ، عن الزهري ، حدثني عبيد الله بن عبد الله بن الحارث بن نوفل ، ان اباه عبد الله بن الحارث قال: سالت وحرصت على ان اجد احدا من الناس يخبرني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سبح سبحة الضحى، فلم اجد احدا يخبرني عن ذلك إلا ام هانئ بنت ابي طالب اخبرتني: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" اتى بعدما النهار يوم الفتح فامر بثوب فستر عليه فاغتسل، ثم قام فركع ثمان ركعات، لا ادري اقيامه فيها اطول ام ركوعه ام سجوده، كل ذلك متقارب" قالت: فلم اره سبحها قبل ولا بعد" نَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَهْبِ بْنِ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا عَمِّي ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، أَنَّ أَبَاهُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ قَالَ: سَأَلْتُ وَحَرَصْتُ عَلَى أَنْ أَجِدَ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ يُخْبِرُنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبَّحَ سُبْحَةَ الضُّحَى، فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا يُخْبِرُنِي عَنْ ذَلِكَ إِلا أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرْتِنِي: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَتَى بَعْدَمَا النَّهَارُ يَوْمَ الْفَتْحِ فَأَمَرَ بِثَوْبٍ فَسُتِرَ عَلَيْهِ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ، لا أَدْرِي أَقِيَامُهُ فِيهَا أَطْوَلُ أَمْ رُكُوعُهُ أَمْ سُجُودُهُ، كُلُّ ذَلِكَ مُتَقَارِبٌ" قَالَتْ: فَلَمْ أَرَهُ سَبَّحَهَا قَبْلُ وَلا بَعْدُ"
جناب عبداللہ بن حارث بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا اور میری شدید خواہش تھی کہ مجھے کوئی ایسا شخص مل جائے جو مجھے یہ بیان کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز چاشت پڑھی ہے، لیکن مجھے سیدہ اُم ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی شخص نہ مل سکا۔ اُنہوں مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ والے دن سورج بلند ہونے کے بعد (اُن کے گھر) تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑا لانے کا حُکم دیا، چنانچہ ایک چادر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پردہ کر دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر آٹھ رکعات ادا فرمائیں، مجھے معلوم نہیں کہ ان رکعات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام زیادہ طویل تھا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدے، یہ تمام چیزیں قریب قریب تھیں، فرماتی ہیں کہ پھر میں نے اس سے پہلے اور بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز چاشت پڑھتے نہیں دیکھا۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم

Previous    1    2    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.