سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جبکہ وہ پست آواز کے ساتھ نماز (تہجد) پڑھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قریب سے بھی گزرے تو وہ بلند آواز سے نماز پڑھ رہے تھے ـ پھر جب وہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اکٹھے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اے ابوبکر میں تیرے پاس سے گزرا تھا اور تم نماز پڑھ رہے تھے اور قراءت آہستہ آواز سے کر رہے تھے اُنہوں نے عرض کی کہ میں جس ذات کے ساتھ مناجات کر رہا تھا میں نے اسے سنا لیا ہے۔ اور اے عمر میں تیرے پاس سے گزرا تو تم بہت بلند آواز سے قراءت کر رہے تھے - اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، مجھے اس سے ثواب کی امید ہے، میں سونے والے کو جگانا چاہتا تھا اور اس پر اجر و ثواب کی امید رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو فرمایا: ”تم اپنی آواز کچھ بلند کرلو۔“ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تم اپنی آواز کچھ آہستہ کرلو۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے اس آیت «وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا» [ سوره الاسراء: 110 ] کا شان نزول کتاب الامامته میں بیان کیا ہے۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اعتکاف کیا تو صحابہ کرام کو بلند آواز سے قرأت کرتے ہوئے سنا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قبہ نما خیمے میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ہٹایا اور فرمایا: ”آگاہ رہو، بیشک تم سب اپنے رب کی مناجات کر رہے ہو، لہٰذا ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچاؤ، اور نہ ایک دوسرے پر بلند آواز سے قراءت کرو۔ جناب محمد بن یحییٰ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ”یا نماز میں (بلند قراءت نہ کرو۔)“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کر تی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسلسل نفلی) روزے رکھتے حتیٰ کہ ہم کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناغہ نہیں کرنا چاہتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مسلسل) ناغہ کرتے حتیٰ کہ ہم کہنے لگتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھنا نہیں چاہتے - اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات سورہ بنی اسرائیل اور سورہ الزمر کی تلاوت کیا کرتے تھے۔“
بعض من لم يتبحر العلم انه خلاف بعض اخبار عائشة في عدد صلاة النبي صلى الله عليه وسلم بالليلبَعْضُ مَنْ لَمْ يَتَبَحَّرِ الْعِلْمَ أَنَّهُ خِلَافُ بَعْضِ أَخْبَارِ عَائِشَةَ فِي عَدَدِ صَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ
حضرت ابوسلمہ بن عبد الرحمان بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان المبارک میں نماز کی کیفیت کے متعلق پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک اور دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ ادا نہیں کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات ادا کرتے، ان کی خوبصورتی اور طوالت کے متعلق مت پوچھو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات ادا کرتے، ان کی خوبصورتی اور طوالت کے متعلق مت پوچھو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات ادا کرتے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ، بیشک میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا۔“
إخاله يسبق إلى قلب بعض من لم يتبحر العلم انه يضاد الخبرين اللذين ذكرتهما قبل في البابين المتقدمين إِخَالُهُ يَسْبِقُ إِلَى قَلْبِ بَعْضِ مَنْ لَمْ يَتَبَحَّرِ الْعِلْمَ أَنَّهُ يُضَادُّ الْخَبَرَيْنِ اللَّذَيْنِ ذَكَرْتُهُمَا قَبْلُ فِي الْبَابَيْنِ الْمُتَقَدِّمَيْنِ
میرا خیال ہے کہ تبحر علمی سے محروم شخص کے دل میں یہ بات آئے گی کہ یہ روایت گذشتہ دو ابواب میں مذکورہ روایات کے خلاف ہے