سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر پڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دایاں پہلو زخمی ہو گیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیمارداری کے لئے حاضر ہوئے تو نماز کا وقت ہوگیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر ہمیں نماز پڑھائی ـ
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بواسیر تھی تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے متعلق پوچھا کہ کس طرح ادا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھڑے ہو کر پڑھو، اگر کھڑے ہونے کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھ لو، اور اگر بیٹھنے کی قدرت نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو“ جناب محمد بن عیسٰی کی روایت میں ”ناصور“ کی بجائے ”بواسیر“ کے الفاظ ہیں ـ (معنی ایک ہی ہے)
سیدنا ابن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جب ان سے نماز خوف کے بارے میں سوال کیا گیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ امام اور لوگوں کی ایک جماعت کھڑی ہوگی تو امام اُنہیں ایک رکعت پڑھائے گا، جبکہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وہ امام اور دشمن کے درمیان صف آرا رہے گی۔ پھر جب امام کے ساتھ والی جماعت ایک رکعت اس کے ساتھ پڑھ لیگی، تو وہ سلام پھیرے بغیر ہی ان لوگوں کی جگہ لے لے گی جنھوں نے نماز نہیں پڑھی تھی اور یہ لوگ آگے آئیں گے جنہوں نے نماز نہیں پڑھی اور امام کے ساتھ ایک رکعت ادا کریں گے، پھر امام سلام پھیردے گا اور اس کی دو رکعتیں ہو چکی ہوں گی، پھر دونوں جماعتیں اپنی اپنی ایک رکعت پڑھ لیں گی (اور سلام پھیر دیں گی)۔ اگر خوف اس سے بھی شدید ہو تو وہ چلتے ہوئے کھڑے کھڑے اور سوار ہو کر قبلہ رخ ہو کر یا بغیر قبلہ رخ ہوئے نماز پڑھ لیں گے۔ نافع کہتے ہیں، میرا خیال ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہا نے (نماز کی یہ کیفیت و صورت) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے بیان کی ہے۔
نا محمد بن يحيى، نا إسحاق بن عيسى الطباع، اخبرنا مالك بهذا الإسناد سواء، وقال: قال نافع: إن ابن عمر روى ذلك عن رسول الله صلى الله عليه وسلمنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، نَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى الطَّبَّاعُ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ بِهَذَا الإِسْنَادِ سَوَاءً، وَقَالَ: قَالَ نَافِعٌ: إِنَّ ابْنَ عُمَرَ رَوَى ذَلِكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
امام صاحب اپنے استاد جناب محمد بن یحیٰ کی سند سے بیان کرتے ہیں کہ جناب نافع نے کہا، بیشک سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ کیفیت و صورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی بیان کرتے ہیں۔
سیدنا عبداﷲ بن انیس رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خالد بن سفیان بن نبیح الھذلی کی طرف بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لشکر جمع کر رہا ہے، اور وہ وادی عرنہ اور عرفات کے درمیان موجود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ ”جاؤ اور اسے قتل کر دو۔“ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، مجھے اس کی کوئی نشانی بتا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اس کو دیکھو گے تو تم پر کپکپکی طاری ہو جائے گی، تمہارے لئے اس کی کوئی اور نشانی اگر نہ بھی بیان کروں تو تمہیں کوئی نقصان نہیں۔“(یعنی اتنی ہی نشانی کافی ہے) کہتے ہیں کہ وہ لمبے قد اور لمبے بالوں والا آدمی تھا۔ کہتے ہیں کہ میں چل پڑا حتیٰ کہ جب میں اس کے قریب پہنچ گیا تو نماز عصر کا وقت ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا، مجھے خدشہ ہے کہ میرے اور اس کے درمیان کوئی ایسی چیز ہو جائے کہ میں اپنی نماز مؤخر کر بیٹھوں۔ لہٰذا میں نے چلتے چلتے اشارے کے ساتھ نماز پڑھ لی۔ پھر میں اُس تک پہنچ گیا۔ ﷲ کی قسم، اُسے دیکھتے ہی مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی، اور وہ اپنی عورتوں کے ساتھ چل رہا تھا تو میں بھی اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا، اُس نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے کہا کہ میں ایک عربی شخص ہوں، مجھے اطلاع ملی تھی کہ تم اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف لشکر جمع کر رہے ہو، تو میں اس سلسلے میں تمہارے پاس آیا ہوں۔ تو اُس نے کہا کہ بیشک میں اسی کام میں مشغول ہوں۔ کہتے ہیں کہ میں نے دل میں کہا، عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا۔ کہتے ہیں کہ میں کچھ دیر اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، حتیٰ کہ جب مجھے موقع مل گیا تو میں نے اُس پر تلوار کا وار کر کے اس کا کام تمام کر دیا، اور وہ ٹھنڈا ہو گیا، پھر میں مدینہ منوّرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے واقعہ کی روداد سنائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک عصاء عطا کیا۔ میں وہ عصاء لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلا تو میرے دوست احباب نے مجھے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں یہ کیا چیز عطا کی ہے؟ کہتے ہیں تو میں نے جواب دیا، یہ عصاء (لاٹھی) ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ تم اس کا کیا کرو گے؟ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں نہیں پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں یہ کیوں عطا کیا ہے اور تم اس کے ساتھ کیا کرو گے؟ جاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھ لو، کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوبارہ گیا اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عصا مجھے کس لئے عطا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ قیامت کے دن تمہارے اور میرے درمیان نشانی ہوگی، اور اس روز بہت کم لوگوں کے پاس عصا ہوں گے۔“ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس عصا کو اپنی تلوار کے ساتھ لٹکا لیا، کبھی وہ اس سے جدا نہیں ہوتے تھے، پھر اُنہوں نے ساری زندگی اسے اپنے سے الگ نہ کیا، پھر جب اُن کی وفات کا وقت قریب آیا تو اُنہوں نے ہمیں حُکم دیا کہ اسے میرے ساتھ ہی دفن کر دینا۔ اُن کے بیٹے نے کہا کہ اللہ کی قسم، میں نے ہی اسے اُن کے ساتھ کفن میں رکھا تھا۔
امام صاحب نے اپنے استاد احمد بن الازھر کے اصل نسخے سے یہ حدیث لکھ کر اپنی سند سے مفصل بیان کی ہے - امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے ”كتاب الصلاة“ کے آخر میں خوف کی صفات کے ابواب بیان کیے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے سورج غروب ہونے سے قبل عصر کی دو رکعت پا لیں یا سورج طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت پا لی تو اُس نے نماز پا لی - (لہٰذا وہ باقی نماز مکمّل کرلے)
زعم انه خرج من وقت الصلاة إلى غير وقت الصلاة، ففرق بين ما جمع النبي صلى الله عليه وسلم بينهما، وخالف النبي صلى الله عليه وسلم المصطفى بجهله، والنبي المصطفى الذي اخبر ان المدرك ركعة قبل طلوع الشمس مدرك الصلاة عالم بانه يخرج من وقت الصلاة إلى غير وقت صلاة فجعله مدركا للصلاة، كالمدرك ركعة او ركعتين من العصر قبل غروب الشمس، وإن كان يخرج من وقت إلى وقت صلاةزَعَمَ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ إِلَى غَيْرِ وَقْتِ الصَّلَاةِ، فَفَرَّقَ بَيْنَ مَا جَمَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، وَخَالَفَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُصْطَفَى بِجَهْلِهِ، وَالنَّبِيُّ الْمُصْطَفَى الَّذِي أَخْبَرَ أَنَّ الْمُدْرِكَ رَكْعَةً قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ مُدْرِكٌ الصَّلَاةَ عَالِمٌ بِأَنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ إِلَى غَيْرِ وَقْتِ صَلَاةٍ فَجَعَلَهُ مُدْرِكًا لِلصَّلَاةِ، كَالْمُدْرِكِ رَكْعَةً أَوْ رَكْعَتَيْنِ مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، وَإِنْ كَانَ يَخْرُجُ مِنْ وَقْتٍ إِلَى وَقْتِ صَلَاةٍ