وكذلك خبر حارثة بن وهب" صلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم ركعتين اكثر ما كنا وآمنه"، وخبر ابي حنظلة، عن ابن عمر، قلت: إنا آمنون، قال: كذلك سن النبي صلى الله عليه وسلم، يدل على ان لغير الخائف قصر الصلاة في السفروَكَذَلِكَ خَبَرُ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ" صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ أَكْثَرَ مَا كُنَّا وَآمَنُهُ"، وَخَبَرُ أَبِي حَنْظَلَةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قُلْتُ: إِنَّا آمِنُونَ، قَالَ: كَذَلِكَ سَنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَدُلُّ عَلَى أَنَّ لِغَيْرِ الْخَائِفِ قَصْرَ الصَّلاةِ فِي السَّفَرِ
اور اسی طرح حضرت حارثہ بن وہب کی یہ حدیث بھی اس مسئلہ کی دلیل ہے کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں (سفرمیں) پڑھائیں حالانکہ ہم کثیر تعداد میں اور نہایت امن و امان میں تھے۔ اور ابوحنظلہ کی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت میں ہے کہ میں نے کہا، ”بیشک ہم امن و امان کی حالت میں ہیں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح طریقہ سکھایا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سفر میں کسی خوف کے بغیر بھی نمازی نماز قصر کر سکتا ہے۔
إذ الله عز وجل يحب إتيان رخصه التي رخصها لعباده المؤمنين إِذِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ إِتْيَانَ رُخَصِهِ الَّتِي رَخَّصَهَا لِعِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ
کیونکہ اللہ تعالیٰ ان رخصتوں پر عمل پیرا ہونے کو پسند فرماتے ہیں، جو رخصتیں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو عطافرمائی ہیں
سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” بیشک اﷲ تعالیٰ رخصت پر عمل کئے جانے کو پسند کرتے ہیں جس طرح کہ گناہ و نافرمانی کرنے کو ناپسند کرتے ہیں۔“
جناب موسیٰ رحمه الله سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ”مکّہ مکرّمہ میں نماز کیسے ادا کروں جبکہ میں نے جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھی ہو؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے مطابق دو رکعتیں پڑھو۔ بندار کہتے ہیں کہ میں نے قتادہ کو سنا، وہ حضرت موسیٰ بن سلمہ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا۔
قال ابو بكر: هذا الخبر عندي دال على ان المسافر إذا صلى مع الإمام فعليه إتمام الصلاة لرواية ليث بن ابي سليم، عن طاوس، عن ابن عباس الذي، حدثنا ابو كريب ، حدثنا حفص بن غياث ، عن ليث ، عن طاوس : عن ابن عباس في المسافر يصلي خلف المقيم. قال: يصلي بصلاته. ولسنا نحتج برواية ليث بن ابي سليم، إلا ان خبر قتادة، عن موسى بن سلمة دال على خلاف رواية سليمان التيمي، عن طاوس في المسافر يصلي خلف المقيم، قال: إن شاء سلم في ركعتين، وإن شاء ذهبقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا الْخَبَرُ عِنْدِي دَالٌ عَلَى أَنَّ الْمُسَافِرَ إِذَا صَلَّى مَعَ الإِمَامِ فَعَلَيْهِ إِتْمَامُ الصَّلاةِ لِرِوَايَةِ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ الَّذِي، حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ طَاوُسٍ : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمُسَافِرِ يُصَلِّي خَلْفَ الْمُقِيمِ. قَالَ: يُصَلِّي بِصَلاتِهِ. وَلَسْنَا نَحْتَجُّ بِرِوَايَةِ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ، إِلا أَنَّ خَبَرَ قَتَادَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَلَمَةَ دَالٌ عَلَى خِلافِ رِوَايَةِ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ طَاوُسٍ فِي الْمُسَافِرِ يُصَلِّي خَلْفَ الْمُقِيمِ، قَالَ: إِنْ شَاءَ سَلَّمَ فِي رَكْعَتَيْنِ، وَإِنْ شَاءَ ذَهَبَ
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ جب مسافر (مقیم) امام کے ساتھ نماز پڑھے تو اُسے مکمل نماز پڑھنی چاہیے۔ جناب طاؤس نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس مسافر کے بارے میں پوچھا جو مقیم امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو اُنہوں نے فرمایا کہ اُسے امام ہی کی طرح نماز پڑھنی چاہیے۔ (یعنی اگرامام قصر کرے تو وہ بھی قصر کرے، اگر امام مکمّل نماز پڑھے تو وہ بھی مکمّل نماز پڑھے) ہم لیث بن ابی سلیم کی روایت سے دلیل نہیں لیتے مگر جناب قتادہ کی موسٰی بن سلمہ سے روایت، سلیمان التیمی کی طاؤس سے روایت کر دہ حدیث کے خلاف دلیل ہے کہ وہ مسافر جو مقیم امام کے پیچھے نماز پڑھے تو وہ اگر چاہے تو دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دے اور اگر چاہے تو مکمل ادا کر لے۔
قال: ثنا قال: ثنا بندار، نا يحيى، عن شعبة، عن سليمان التيمي، عن طاوسقَالَ: ثنا قَالَ: ثنا بُنْدَارٌ، نَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ طَاوُسٍ
امام صاحب، بندرا کی سند سے سلیمان التیمی کی طا ؤس سے روایت بیان کرتے ہیں۔ (جس کے الفاظ اور ذکر ہوئے ہیں۔)
امام شعبی روایت کرے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جب مکّہ مکرّمہ میں ہوتے تو دو دو رکعتیں نماز پڑھتے ہاں اگر امام کے ساتھ نماز پڑھتے تو پھر امام کی طرح مکمّل نماز پڑھتے، (یعنی) اگر وہ باجماعت امام کے ساتھ نماز پڑھتے تو امام جیسی نماز پڑھتے۔
615. جب مسافر کسی شہر میں اپنی حاجت و ضرورت کی وجہ سے پندرہ دن سے زائد غیر معینہ مدت تک بغیر پختہ ارادہ کیے اقامت پذیر رہے تو اُس کے لئے نماز قصر کرنا جائز ہے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُنیس دن تک اقامت پذیر رہے اور نماز دو رکعتیں پڑھتے رہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لہٰذا ہم بھی اُنیس دن تک سفر میں دو رکعتیں (نماز قصر) پڑھتے ہیں، اور اگر ہم اس سے زیادہ دن مقیم ہوں تو پھر چار رکعتیں (مکمّل نماز) پڑھتے ہیں۔
جناب یحییٰ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز قصر کرنے کے بارے میں سوال کیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منوّرہ سے لیکر مکّہ مکرّمہ تک سفر کیا (اس دوران) ہم دو دو رکعت پڑھتے رہے حتیٰ کہ ہم واپس (مدینہ منورہ) آگئے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ مکرّمہ میں قیام کیا تھا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ میں دس دن ٹھہرے تھے۔ یہ دورقی کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ جناب احمد بن عبدہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دو رکعت پڑھاتے رہے۔ جناب احمد اور عمرو بن علی نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا تو کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ دونوں نے یہ نہیں کہا کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں کوئی ایسی حدیث یاد نہیں کہ جس میں یہ ذکر ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سفر میں معین مدت تک اقامت کا پختہ ارادہ کیا ہو، سوائے اس ایک سفر کے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے لئے مکّہ مکرّمہ آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ حج کا پختہ ارادہ لیکر تشریف لائے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ 4 ذوالحجہ کی صبح کو پہنچے تھے۔
كذلك حدثنا بندار ، نا محمد بن بكر ، اخبرنا ابن جريج ، عن عطاء ، قال: قال جابر بن عبد الله : " قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم صبح رابعة مضت من ذي الحجة" ، قال ابو بكر:" فقدمها صلى الله عليه وسلم صبح رابعة مضت من ذي الحجة، فاقام بمكة اربعة ايام، خلا الوقت الذي كان سائرا فيه من البدء الرابع، إلى ان قدمها وبعض يوم الخامس مزمعا على هذه الإقامة عند قدومه مكة، فاقام باقي الرابع والخامس والسادس والسابع والثامن إلى مضي بعض النهار، وهو يوم التروية، ثم خرج من مكة يوم التروية فصلى الظهر بمنىكَذَلِكَ حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، قَالَ: قَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ : " قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُبْحَ رَابِعَةٍ مَضَتْ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ:" فَقَدِمَهَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُبْحَ رَابِعَةٍ مَضَتْ مِنْ ذِي الْحِجَّةَ، فَأَقَامَ بِمَكَّةَ أَرْبَعَةَ أَيَّامٍ، خَلا الْوَقْتِ الَّذِي كَانَ سَائِرًا فِيهِ مِنَ الْبَدْءِ الرَّابِعِ، إِلَى أَنْ قَدِمَهَا وَبَعْضُ يَوْمِ الْخَامِسِ مُزْمِعًا عَلَى هَذِهِ الإِقَامَةِ عِنْدَ قُدُومِهِ مَكَّةَ، فَأَقَامَ بَاقِي الرَّابِعِ وَالْخَامِسَ وَالسَّادِسَ وَالسَّابِعَ وَالثَّامِنَ إِلَى مُضِيِّ بَعْضِ النَّهَارِ، وَهُوَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ، ثُمَّ خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ فَصَلَّى الظُّهْرَ بِمِنًى
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 4 ذوالحجہ صبح کے وقت مکّہ مکرّمہ تشریف لائے -“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم 4 ذوالحجہ کی صبح کو مکّہ مکرّمہ تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ مکرّمہ میں چار دن قیام کیا، سوائے اس وقت کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 4 ذوالحجہ کو مکّہ مکرّمہ پہنچنے کے لئے چلتے ہوئے گزارا اور پانچ تاریخ کا کچھ حصّہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ مکرّمہ پہنچ کر اقامت کا پختہ ارادہ کیا - چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار تاریخ کا بقیہ دن، پانچ، چھ، سات اور الترویہ، آٹھ تاریخ کا کچھ حصّہ قیام کیا - پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الترویہ (آٹھ تاریخ) کو مکّہ مکرّمہ سے روانہ ہو گئے اور ظہر کی نماز منیٰ میں پڑھی۔