سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے حضر میں چار رکعتیں نماز، سفر میں دو رکعت اور خوف کی حالت میں ایک نماز فرض کی ہے۔
بان اللفظة التي ذكرتها في خبر ابن عباس لفظ عام مراده خاص، اراد ان فرض الصلاة في السفر ركعتين خلا المغرب بِأَنَّ اللَّفْظَةَ الَّتِي ذَكَرْتُهَا فِي خَبَرِ ابْنِ عَبَّاسٍ لَفْظٌ عَامٌّ مُرَادُهُ خَاصٌّ، أَرَادَ أَنْ فَرَضَ الصَّلَاةَ فِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ خَلَا الْمَغْرِبِ
کیونکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے الفاظ عام ہیں اور ان سے مراد خاص ہے، آپ کا مطلب یہ تھا کہ سفر میں مغرب کے سوا بقیہ نمازیں دو رکعت فرض ہیں
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ (ابتدائے اسلام میں) سفر اور حضر میں دو دو رکعتیں نماز فرض ہوئی تھی، پھر جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ میں اقامت اختیار کی تو حضر کی نماز میں دو دو رکعتوں کا اضافہ کر دیا گیا جبکہ نماز فجر کو لمبی قرا ت کی وجہ سے دو رکعتیں ہی رہنے دیا گیا اور نماز مغرب کو (تین رکعتیں رکھا گیا) کیونکہ وہ دن کے وتر ہیں۔
قد يبيح الشيء في كتابه بشرط، وقد يبيح ذلك الشيء على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم بغير ذلك الشرط الذي اباحه في الكتاب، إذ الله عز ذكره إنما اباح في كتابه قصر الصلاة إذا ضربوا في الارض عند الخوف من الكفار ان يفتنوا المسلمين، وقد اباح الله عز وجل على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم القصر وإن لم يخافوا ان يفتنهم الكفار، مع الدليل ان القصر في السفر إباحة لا حتم ان يقصروا الصلاة قَدْ يُبِيحُ الشَّيْءَ فِي كِتَابِهِ بِشَرْطٍ، وَقَدْ يُبِيحُ ذَلِكَ الشَّيْءَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِغَيْرِ ذَلِكَ الشَّرْطِ الَّذِي أَبَاحَهُ فِي الْكِتَابِ، إِذِ اللَّهُ عَزَّ ذِكْرُهُ إِنَّمَا أَبَاحَ فِي كِتَابِهِ قَصْرَ الصَّلَاةِ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ عِنْدَ الْخَوْفِ مِنَ الْكُفَّارِ أَنْ يَفْتِنُوا الْمُسْلِمِينَ، وَقَدْ أَبَاحَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَصْرَ وَإِنْ لَمْ يَخَافُوا أَنْ يَفْتِنَهُمُ الْكُفَّارُ، مَعَ الدَّلِيلِ أَنَّ الْقَصْرَ فِي السَّفَرِ إِبَاحَةٌ لَا حَتْمٌ أَنْ يَقْصُرُوا الصَّلَاةَ
یعلی بن امیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجہے لوگوں کے نماز قصر کرنے پر تعجب ہوتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا» [ سورة النساء: 101 ]”اور اگر تمہیں یہ ڈر ہو کہ کافر تمہیں فتنہ میں ڈال دیں گے تو تم پر قصر کرنے میں کوئی حرج و گناہ نہیں ہے۔“ اور اب تو یہ خوف ختم ہو چکا ہے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے بھی اس بات پر تعجب ہوا تھا جس پر تمہیں ہوا ہے، اسی لئے میں نے اس بات کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایک صدقہ ہے جسے الله تعالی نے تم پر بطور رحمت کیا ہے تو تم اس کا صدقہ قبول کرو .(اور اس رخصت سے فائدہ اٹھاؤ)“
لا انه عز ذكره بين عددها في الكتاب بوحي مثله مسطور بين الدفتين، وهذا من الجنس الذي اجمل الله فرضه في الكتاب وولى نبيه تبيانه عن الله بقول وفعل. قال الله: (وانزلنا إليك الذكر لتبين للناس ما نزل إليهم). لَا أَنَّهُ عَزَّ ذِكْرُهُ بَيَّنَ عَدَدَهَا فِي الْكِتَابِ بِوَحْيٍ مِثْلِهِ مَسْطُورٍ بَيْنَ الدَّفَّتَيْنِ، وَهَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَجْمَلَ اللَّهُ فَرْضَهُ فِي الْكِتَابِ وَوَلَّى نَبِيَّهُ تِبْيَانَهُ عَنِ اللَّهِ بِقَوْلٍ وَفِعْلٍ. قَالَ اللَّهُ: (وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ).
جناب امیہ بن عبداللہ بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ ہم حضر اور خوف کی نماز کا تذکرہ تو قرآن مجید میں نہیں پاتے۔ تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے بھتیجے، بیشک اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور ہم کچھ نہیں جانتے تھے، لہٰذا ہم (اب) اس طرح کرتے ہیں جس طرح ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اﷲ عنہم اجمعین کے ساتھ سفر کئے ہیں، یہ سب حضرات ظہر اور عصر کی نماز دو دو رکعت پڑھا کرتے تھے، ان سے پہلے اور بعد میں کوئی (نفل یا سنت) نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اگر میں نے ان نمازوں سے پہلے یا بعد میں (سفر کی حالت میں نفل یا سنتیں) پڑھنی ہوتیں تو میں یہ نمازیں پوری پڑھتا (اور قصر نہ کرتا)۔
قال ابو بكر: وفي خبر انس بن مالك" صلى النبي صلى الله عليه وسلم الظهر بالمدينة اربعا، والعصر بذي الحليفة ركعتين" دال على ان للآمن غير الخائف من ان يفتنه الكفار ان يقصر الصلاة.قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَفِي خَبَرِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ" صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعًا، وَالْعَصْرَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ" دَالٌ عَلَى أَنَّ لِلآمِنِ غَيْرِ الْخَائِفِ مِنْ أَنْ يَفْتِنَهُ الْكُفَّارُ أَنْ يَقْصُرَ الصَّلاةَ.
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر کی نماز چار رکعتیں پڑھی اور ذوالحلیفہ کے مقام پر عصر کی نماز دو رکعت پڑھی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امن و امان کی حالت میں کفار کے فتنے کے ڈر کے بغیر بھی نمازی (سفر میں) نماز قصر کر سکتا ہے۔