بان اللفظة التي ذكرتها في خبر ابن عباس لفظ عام مراده خاص، اراد ان فرض الصلاة في السفر ركعتين خلا المغرب بِأَنَّ اللَّفْظَةَ الَّتِي ذَكَرْتُهَا فِي خَبَرِ ابْنِ عَبَّاسٍ لَفْظٌ عَامٌّ مُرَادُهُ خَاصٌّ، أَرَادَ أَنْ فَرَضَ الصَّلَاةَ فِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ خَلَا الْمَغْرِبِ
کیونکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے الفاظ عام ہیں اور ان سے مراد خاص ہے، آپ کا مطلب یہ تھا کہ سفر میں مغرب کے سوا بقیہ نمازیں دو رکعت فرض ہیں
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ (ابتدائے اسلام میں) سفر اور حضر میں دو دو رکعتیں نماز فرض ہوئی تھی، پھر جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ میں اقامت اختیار کی تو حضر کی نماز میں دو دو رکعتوں کا اضافہ کر دیا گیا جبکہ نماز فجر کو لمبی قرا ت کی وجہ سے دو رکعتیں ہی رہنے دیا گیا اور نماز مغرب کو (تین رکعتیں رکھا گیا) کیونکہ وہ دن کے وتر ہیں۔