إذ الله برافته ورحمته قد تجاوز لامة محمد عما حدثت به انفسها إِذِ اللَّهُ بِرَأْفَتِهِ وَرَحْمَتِهِ قَدْ تَجَاوَزَ لَأُمَّةِ مُحَمَّدٍ عَمَّا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا
کیونکہ اللہ تعالی نے اپنی شفقت و رحمت سے اُمت محمدیہ کی دل کی باتوں کو معاف فرما دیا ہے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے میری اُمّت کو ان کے دلوںکی باتیں (دل میں آنے والے خیالات وسوسے) معاف فرما دیے ہیں جب تک وہ انہیں زبان سے ادا نہ کرلیں یا ان کے مطابق عمل نہ کرلیں۔“
نا عبد الله بن هاشم ، نا عبد الرحمن ، عن شعبة ، عن ابي إسحاق ، عن حارثة بن مضرب ، عن علي ، قال: ما كان فينا فارس يوم بدر غير المقداد، ولقد رايتنا وما فينا إلا نائم" إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم تحت شجرة يصلي، ويبكي، حتى اصبح" . قال ابو بكر: قصة ابي بكر الصديق رضي الله تعالى عنه لما امره النبي صلى الله عليه وسلم بالصلاة بالناس، فقيل له: إنه رجل رقيق كثير البكاء حين يقرا القرآن، من هذا البابنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ ، نَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: مَا كَانَ فِينَا فَارِسٌ يَوْمَ بَدْرٍ غَيْرَ الْمِقْدَادِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُنَا وَمَا فِينَا إِلا نَائِمٌ" إِلا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ شَجَرَةٍ يُصَلِّي، وَيَبْكِي، حَتَّى أَصْبَحَ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قِصَّةُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِي اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ لَمَّا أَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّلاةِ بِالنَّاسِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ رَجُلٌ رَقِيقٌ كَثِيرُ الْبُكَاءِ حِينَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، مِنْ هَذَا الْبَابِ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر والے دن ہم میں صرف سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ شہسوار تھے (ان کے پاس گھوڑا تھا) اور میں نے اپنے ساتھیوں کو دیکھا کہ سب سوئے ہوئے تھے، سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے نماز پڑھ رہے تھے اور خوب گریہ زاری کر رہے تھے حتیٰ کہ صبح ہو گئی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ (اس کی دلیل) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قصّہ بھی ہے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں لوگوں کو نماز پڑھانے کا حُکم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ (اے اﷲ کے رسول) بیشک وہ بہت نرم دل اور قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے بہت زیادہ رونے والے شخص ہیں (لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور صحابی کو نماز پڑھانے کا حُکم دے دیں)“
جناب مطرف اپنے والد گرامی (عبداللہ بن شخیر) سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے سے ہنڈیا کے اُبلنے اور جوش مارنے جیسی آواز آرہی تھی۔
سیدنا عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک روز سورج کو گرہن لگ گیا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو دیر تک سر نہ اُٹھایا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھونکیں مارنا اور رونا شروع کر دیا، آگے حدیث ذکر کی۔ حضرت عبداللہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے بعد) کھڑے ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، اور فرمایا: ”مجھے آگ دکھائی گئی تو میں نے پھونکیں مارنا شروع کر دیا، مجھے ڈر لگا کہ کہیں یہ تمہیں اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ایسی قدر و منزلت حاصل تھی جو لوگوں میں سے کسی اور کو حاصل نہ تھی۔ بیشک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کی حالت میں ہونے کی وجہ سے) کھانس کر مجھے جواب دیتے تو میں اپنے گھر والوں کے پاس چلا جاتا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں راویوں نے عبد بن نجی سے اختلاف بیان کیا ہے۔ لہٰذا مجھے یاد نہیں کہ شرجیل بن مدرک کے سوا کسی راوی نے عبد بن نجی کے باپ کا واسطہ بیان کیا ہو۔ (یعنی بقیہ راوی عبداللہ بن نجی کو براہ راست سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا شاگرد بیان کرتے ہیں۔)
ورواه عمارة بن القعقاع، ومغيرة بن مقسم جميعا، عن الحارث العكلي، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير، عن عبد الله بن نجي، عن علي. وقال جرير: عن المغيرة، عن الحارث، وعمارة، عن الحارث: يسبح، وقال: ابو بكر بن عياش، عن المغيرة: يتنحنح.وَرَوَاهُ عُمَارَةُ بْنُ الْقَعْقَاعِ، وَمُغِيرَةُ بْنُ مِقْسَمٍ جَمِيعًا، عَنِ الْحَارِثِ الْعُكْلِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ، عَنْ عَلِيٍّ. وَقَالَ جَرِيرٌ: عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنِ الْحَارِثِ، وَعُمَارَةَ، عَنِ الْحَارِثِ: يُسَبِّحُ، وَقَالَ: أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ: يَتَنَحْنَحُ.
امام صاحب اپنے ایک اور استاد کی سند بیان کرتے ہیں جس میں عبداللہ بن نجی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درمیان واسطہ نہیں ہے بلکہ عبداللہ بن نجی براہ راست سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں - جناب جریر کہتے ہیں کہ مغیرہ اور عمارہ، حارث سے رویت کرتے ہیں ”سُبْحَانَ اللَٰه“ کہنے کے الفاظ روایت کرتے ہیں - جبکہ ابوبکر بن عیاش مغیرہ سے ”کھنکارنے“ کے الفاظ روایت کرتا ہے۔
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتے پھر ”اللهُ أَكْبَرُ“ کہتے، اور اپنی چادر لپیٹ لیتے، پھر اپنے دونوں ہاتھ اپنے کپڑے کے اندر کر لیتے، پھر اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کے ساتھ پکڑ لیتے۔ پھر باقی حدیث بیان کی - امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ علقمہ بن وائل ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے - شاید کہ عبدالوارث یا ان کے نیچے کسی راوی کو ان کے نام میں شک ہوا ہو (تو اس نے وائل بن علقمہ کہہ دیا ہے۔) جبکہ ہمام بن یحٰیی نے روایت کی تو اس نے بھی اپنی سند میں عبدالجبار بن وائل کا استاد علقمہ بن وائل یہ بیان کیا ہے - نیز ان کے آزاد کردہ ایک غلام کو بھی ان کے ساتھ ملایا ہے - (گویا پہلی سند میں عبدالجبار بن وائل کا استاد وائل بن علقمہ بیان کرنا غلط ہے)۔