إذا كلم المصلي وفي الخبر ما دل على الرخصة في إصغاء المصلي إلى مكلمه واستماعه لكلامه في الصلاة إِذَا كَلَّمَ الْمُصَلِّي وَفِي الْخَبَرِ مَا دَلَّ عَلَى الرُّخْصَةِ فِي إِصْغَاءِ الْمُصَلِّي إِلَى مُكَلِّمِهِ وَاسْتِمَاعِهِ لَكَلَامِهِ فِي الصَّلَاةِ
اور حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ نمازی کو اپنے ساتھ کلام کرنے والے کی گفتگو کو پوری توجہ اور دھیان سے سننے کی رخصت ہے
سیدنا جابر رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بنو مسطلق کے پاس (کسی کام سے) بھیجا۔ چنانچہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گدھے پر سوار نماز پڑھ رہے تھے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کرتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا لمبا قیام کیا۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی چیز پکڑنے کے لئے اپنا دست مبارک بڑھایا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا: ” ہر وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ مجھے اس موقع پر دکھائی گئی ہے ـ حتیٰ کہ مجھے جہنّم بھی دکھائی گئی اور اس میں سے ایک چنگاری میری طرف آئی یہاں تک کہ وہ میری اس جگہ تک آگئی تو میں ڈر گیا کہ کہیں یہ تمہیں اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔“
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی چیز پکڑ رہے ہوں، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ بڑھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا دشمن ابلیس آگ کا ایک شعلہ لے کر آیا تھا تاکہ اسے میرے چہرے پر ماردے تو میں نے کہا کہ میں تجھ سے ﷲ کی پناہ میں آتا ہوں، مگر وہ پیچھے نہ ہٹا، تین بار میں نے یہ دعا پڑھی۔ پھر میں نے اُسے پکڑنے کا ارادہ کر لیا۔ اور اگر ہمارے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح کے وقت بندھا ہوا ہوتا، اور اہل مدینہ کے بچّے اُس سے کھیلتے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی، اس دوران کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا پھر پیچھے کر لیا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز میں ایک ایسا کام کیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قبل کسی نماز میں نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک میں نے جنّت دیکھی، وہ مجھے دکھائی گئی، میں نے اس میں دیکھا کہ اس کے پھل اور میوے قریب اور جُھکے ہوئے ہیں، اور اس کا دانہ کدو جیسا (موٹا تازہ) ہے، چنانچہ میں نے ان میووں میں سے لینا چاہا تو جنّت کو حُکم دیا گیا کہ پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی - پھر مجھے جہنّم دکھائی گئی میرے اور تمہارے درمیان حتیٰ کہ میں نے اپنا سایہ اور تمھارا سایہ دیکھا، میں نے تمھاری طرف اشارہ کیا کہ پیچھے ہو جاؤ تو میری طرف وحی کی گئی کہ میں انہیں (صحابہ کو) ثابت قدم رکھوں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسلمان ہیں اور وہ بھی اسلام قبول کر چکے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اور انہوں نے بھی ہجرت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کیا تو انہوں نے بھی جہاد میں شرکت کی ہے، تو میں نے تم پر نبوت کے سوا اپنی کوئی فضیلت نہ پائی۔“
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث لکھوا چکا ہوں کہ جب تمہیں نماز میں کوئی چیز درپیش ہو تو مردوں کو «سُبْحَانَ اللَٰه» کہنا چاہیے اور عورتوں کو تالی بجانی چاہیے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «سُبْحَانَ اللَٰه» کہنا مردوں کے لئے اور تالی بجانا عورتوں کے لئے ہے۔“
سیدنا معیقیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد میں (سجدہ کرتے وقت) کنکریوں کو درست کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اگر تم نے ضرور ہی کرنا ہے تو ایک بار درست کرلو۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں کنکریوں کو درست کرنے کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک بار کرلو۔ اور اگر تم انہیں درست نہ کرو تو یہ تمہارے لئے ایسی سو اونٹنیوں سے بہتر ہے جو ساری سیاہ آنکھوں والی ہوں۔ (یعنی جوان اور موٹی تازی)“