سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو اپنی نماز میں کوئی چیز پیش آجائے تو اُسے چاہیے کہ «سُبْحَانَ اللَٰه» کہے، اور تالی بجانا تو عورتوں کے لئے ہے۔“ یہ علی بن خشرم کی روایت ہے۔ جبکہ عبدالجبار نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بنو عمرو بن عوف کے ہاں تشریف لے جانے کے متعلق مکمّل حدیث بیان کی اور اس کے آخر میں یہ الفاظ بیان کئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کیا ہوا کہ جب تمہیں نماز میں کوئی چیز پیش آتی ہے تو تم تالیاں بجانے لگتے ہو؟ تالی بجانا تو عورتوں کا کام ہے، جسے نماز میں کوئی چیز پیش آئے تو «سُبْحَانَ اللَٰه» کہنا چاہیے۔ امام ابوبکر رحمه الله کہتے ہیں کہ تصفیق اور تصفیح دونوں کا معنی ایک ہی ہے (یعنی بجانا)۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا کرتے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کا جواب دیتے، چنانچہ جب ہم (ہجرت حبشہ کے بعد) نجاشی کے پاس سے واپس آئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز کی حالت میں) سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سلام کا جواب نہ دیا۔ ہم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں سلام کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کیا جواب دیا کرتے تھے ـ (اب کیوں نہیں دیا؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز میں مشغولیت ہوتی ہے ـ“
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آدمی نماز میں اپنے پہلو میں کھڑے شخص سے بات کر لیتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہو گئی «وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ» [ سورة البقرة: 238 ]”اور اللہ کے لئے عاجزی کرنے والے بن کر کھڑے ہو“، جناب ہثیم کی روایت میں یہ اضافہ ہے تو ہمیں خاموش رہنے کا حُکم دے دیا گیا اور گفتگو کرنے سے منع کر دیا گیا۔
حدثنا يحيى بن حكيم ، حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد ، بمثل حديث بندار، غير انه قال:" كان يكلم الرجل صاحبه في الصلاة بالحاجة، على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، حتى نزلت وقوموا لله قانتين سورة البقرة آية 238، فامرنا بالسكوت"حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، بِمِثْلِ حَدِيثِ بُنْدَارٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ:" كَانَ يُكَلِّمُ الرَّجُلُ صَاحِبَهُ فِي الصَّلاةِ بِالْحَاجَةِ، عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى نَزَلَتْ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ سورة البقرة آية 238، فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ"
جناب اسماعیل بن ابی خالد نے بندار کی سابقہ حدیث کی طرح روایت کی ہے مگر انہوں نے یہ الفاظ بیان کئے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کوئی شخص اپنے ساتھی سے نماز میں ضروری بات کر لیتا تھا۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہو گئی «وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ» [ سورة البقرة: 238 ]”اور اللہ کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو۔“ تو ہمیں خاموشی اختیار کرنے کا حُکم دے دیا گیا۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں سلام کیا کرتے تھے۔ گزشتہ حدیث کے مثل بیان کیا۔ اور فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سلام کا جواب دیا (بعد میں حُکم تبدیل ہوگیا) اور فرمایا: ” بیشک نماز میں مشغولیت ہوتی ہے۔“(اس لئے سلام کا جواب نماز کی حالت میں کلام کے ساتھ نہ دیا کرو) میں نے ابراہیم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے سلام کرتے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ میں اپنے دل میں جواب دے دیتا ہوں۔
والدليل على ان الكلام لا يقطع الصلاة إذا لم يعلم المتكلم ان الكلام في الصلاة محظور غير مباح وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْكَلَامَ لَا يَقْطَعُ الصَّلَاةَ إِذَا لَمْ يَعْلَمِ الْمُتَكَلِّمُ أَنَّ الْكَلَامَ فِي الصَّلَاةِ مَحْظُورٌ غَيْرُ مُبَاحٍ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ اگر گفتگو کرنے والے کو معلوم نہ ہو کہ نماز میں گفتگو کرنا منع ہے تو اس کی گفتگو سے نماز نہیں ٹوٹتی
سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، ہم نئے نئے جاہلیت سے نکلے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ اسلام کی نعمت لے آئے، اور بیشک ہم میں کچھ لوگ بدشگونی لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ چیز ہے جسے وہ اپنے دلوں میں پاتے ہیں تو یہ اُن کو (ان کے کاموں سے) ہرگز نہ روکے۔“ انہوں نے عرض کی کہ اللہ کے رسول، کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اُن کے پاس مت جاؤ۔“ وہ کہنے لگے کہ اے اﷲ کے رسول، ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں لگاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ایک نبی لکیریں لگاتے تھے تو جس کی لکیر اُن کی لکیروں کے موافق ہوجائیں تو وہ درست ہے (اس میں کوئی حرج نہیں) سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس اثنا میں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ لوگوں میں سے ایک شخص نے چھینک ماری تو میں نے اسے کہا «يَرحَمُكَ الله» ”اللہ تجھ پر رحم فرمائے“ تو لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا تو میں نے کہا کہ ہائے میری ماں مجھے روئے (یعنی میں مر جاؤں) تم مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟ وہ کہتے ہیں تو لوگوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے شروع کر دیے، تو جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرارہے ہیں تو میں خاموش ہوگیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا۔ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر تعلیم دینے والا معلم نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مجھے مارا، نہ جھڑکا اور نہ برا بھلا کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک ہماری اس نماز میں لوگوں کی بات چیت درست نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو تکبیر، تسبیح اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا نام ہے۔“ یہ میسرہ کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ جناب بندار کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ اس دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا۔ اسی طرح دیگر راویوں نے بیان کیا ہے ـ اور بندار کہتے ہیں کہ پھر جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا ـ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے ”التصنیف الکبیر“ میں باقی راویوں کی حدیث بھی بندار کی روایت کے مثل بیان کر دی ہے مگر میں نے ان کے الفاظ بیان نہیں کیے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شام کی دو نمازوں یعنی ظہر یا عصر میں سے ایک نماز دو رکعت پڑھائی، میرا غالب گمان ہے کہ وہ ظہر کی نماز تھی ـ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے قبلے میں موجود لکڑی کے پاس آئے اور اپنے دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر ٹکا کر اس پر رکھ دیئے۔ اور جلد باز لوگ مسجد سے نکل گئے۔ اور یہ کہتے گئے کہ نماز کم ہوگئی ہے۔ جبکہ لوگوں میں سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے مگر وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرتے ہوئے ڈرے۔ ایک شخص جس کے ہاتھ چھوٹے یا لمبے ہونے کی وجہ سے اُسے ذو الیدین (دو ہاتھوں والا) کہا جاتا تھا، اُس نے کہا کہ (اے اللہ کے رسول) کیا نماز کم ہوگئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ نماز کم ہوئی ہے اور نہ میں بھولا ہوں۔“ تو اُس نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”کیا ذوالیدین سچ کہہ رہا ہے؟“ اُنہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بقیہ) دو رکعت ادا کیں پھر سلام پھیرا اور تکبیر کہی اور اپنے سجدے کی مثل یا اس سے طویل سجدہ کیا پھر سجدے سے سر اُٹھایا۔ (پھر دوسرا سجدہ کیا) بندار نے مکمّل حدیث بیان کی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے یہ مکمّل باب ”كتاب السهو فى الصلاة“ میں بیان کر دیا ہے۔
549. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خصوصیت کا بیان جس کے ساتھ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مختص کیا ہے اور اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے درمیان فرق و امتیاز کر دیا ہے
وابان به بينه وبين امته من ان اوجب على الناس إجابته وإن كانوا في الصلاة، إذا دعاهم لما يحييهم وَأَبَانَ بِهِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أُمَّتِهِ مِنْ أَنْ أَوْجَبَ عَلَى النَّاسِ إِجَابَتَهُ وَإِنْ كَانُوا فِي الصَّلَاةِ، إِذَا دَعَاهُمْ لِمَا يُحْيِيهِمْ
وہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو حیات بخش امور کے لیے بلائیں تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار پر لبیک کہنا واجب ہے اگرچہ وہ نماز پڑھ رہے ہوں