صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
نماز میں جائز گفتگو، دعا، ذکر اور رب عزوجل سے مانگنے اور اس سے مشابہ اور اس جیسے ابواب کا مجموعہ۔
545. (312) بَابُ الْأَمْرِ بِالتَّسْبِيحِ لِلرِّجَالِ، وَالتَّصْفِيقِ لِلنِّسَاءِ عِنْدَ النَّائِبَةِ تَنُوبُهُمْ فِي الصَّلَاةِ
545. نماز میں کوئی مسئلہ پیش آئے تو مردوں کو «‏‏‏‏سُبْحَانَ اللَٰه» ‏‏‏‏ اور عورتوں کو تالی بجانے کا حُکم کا بیان
حدیث نمبر: 854
Save to word اعراب
نا عبد الجبار بن العلاء ، حدثنا سفيان ، قال: سمعت ابا حازم ، يقول: حدثنا سهل بن سعد الساعدي صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ح حدثنا علي بن خشرم ، اخبرنا ابن عيينة ، عن ابي حازم ، سمعه من سهل بن سعد الساعدي ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من نابه في صلاته شيء، فليقل: سبحان الله، إنما هذا للنساء" يعني التصفيق هذا حديث علي بن خشرم واما عبد الجبار فحدثنا بالحديث بطوله في خروج النبي صلى الله عليه وسلم إلى بني عمرو بن عوف، وقال في آخره، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما لكم حين نابكم شيء في صلاتكم صفقتم، إنما هذا للنساء، من نابه في صلاته شيء فليقل: سبحان الله"، قال ابو بكر: التصفيق والتصفيح واحدنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ السَّاعِدِيُّ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، سَمِعَهُ مِنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ نَابَهُ فِي صَلاتِهِ شَيْءٌ، فَلْيَقُلْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّمَا هَذَا لِلنِّسَاءِ" يَعْنِي التَّصْفِيقَ هَذَا حَدِيثُ عَلِيِّ بْنِ خَشْرَمٍ وَأَمَّا عَبْدُ الْجَبَّارِ فَحَدَّثَنَا بِالْحَدِيثِ بِطُولِهِ فِي خُرُوجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَقَالَ فِي آخِرِهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا لَكُمْ حِينَ نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي صَلاتِكُمْ صَفَّقْتُمْ، إِنَّمَا هَذَا لِلنِّسَاءِ، مَنْ نَابَهُ فِي صَلاتِهِ شَيْءٌ فَلْيَقُلْ: سُبْحَانَ اللَّهِ"، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: التَّصْفِيقُ وَالتَّصْفِيحُ وَاحِدٌ
سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو اپنی نماز میں کوئی چیز پیش آجائے تو اُسے چاہیے کہ «‏‏‏‏سُبْحَانَ اللَٰه» ‏‏‏‏ کہے، اور تالی بجانا تو عورتوں کے لئے ہے۔ یہ علی بن خشرم کی روایت ہے۔ جبکہ عبدالجبار نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بنو عمرو بن عوف کے ہاں تشریف لے جانے کے متعلق مکمّل حدیث بیان کی اور اس کے آخر میں یہ الفاظ بیان کئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا کہ جب تمہیں نماز میں کوئی چیز پیش آتی ہے تو تم تالیاں بجانے لگتے ہو؟ تالی بجانا تو عورتوں کا کام ہے، جسے نماز میں کوئی چیز پیش آئے تو «‏‏‏‏سُبْحَانَ اللَٰه» ‏‏‏‏ کہنا چاہیے۔ امام ابوبکر رحمه الله کہتے ہیں کہ تصفیق اور تصفیح دونوں کا معنی ایک ہی ہے (یعنی بجانا)۔

تخریج الحدیث:
546. (313) بَابُ نَسْخِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ، وَحَظْرِهِ بَعْدَمَا كَانَ مُبَاحًا
546. نمازمیں کلام کے منسوخ ہونے اور اس کے جائز ہونے کے بعد ممنوع ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 855
Save to word اعراب
نا يوسف بن موسى القطان ، حدثنا محمد بن فضيل ، انا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: كنا نسلم على النبي صلى الله عليه وسلم وهو في الصلاة، فيرد علينا، فلما رجعنا من عند النجاشي سلمنا عليه فلم يرد علينا، فقلنا: يا رسول الله، كنا نسلم عليك في الصلاة وترد علينا، فقال صلى الله عليه وسلم:" إن في الصلاة لشغلا" نَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، أنا الأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلاةِ، فَيَرُدُّ عَلَيْنَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ سَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَيْكَ فِي الصَّلاةِ وَتَرُدُّ عَلَيْنَا، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ فِي الصَّلاةِ لَشُغْلا"
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا کرتے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کا جواب دیتے، چنانچہ جب ہم (ہجرت حبشہ کے بعد) نجاشی کے پاس سے واپس آئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز کی حالت میں) سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سلام کا جواب نہ دیا۔ ہم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں سلام کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کیا جواب دیا کرتے تھے ـ (اب کیوں نہیں دیا؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز میں مشغولیت ہوتی ہے ـ

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 856
Save to word اعراب
حدثنا بندار ، حدثنا يحيى بن سعيد ، ويزيد بن هارون ، قالا: اخبرنا إسماعيل ، ح ونا ابو هاشم زياد بن ايوب ، حدثنا هشيم ، عن إسماعيل بن ابي خالد ، عن الحارث بن شبيل ، عن ابي عمرو الشيباني ، عن زيد بن ارقم ، قال: " كان يكلم الرجل إلى جنبه في الصلاة، حتى نزلت، وقوموا لله قانتين سورة البقرة آية 238 زاد في حديث هشيم: فامرنا بالسكوت، ونهينا عن الكلام" حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالا: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ح وَنا أَبُو هَاشِمٍ زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ شُبَيْلٍ ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: " كَانَ يُكَلِّمُ الرَّجُلُ إِلَى جَنْبِهِ فِي الصَّلاةِ، حَتَّى نَزَلَتْ، وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ سورة البقرة آية 238 زَادَ فِي حَدِيثِ هُشَيْمٍ: فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ، وَنُهِينَا عَنِ الْكَلامِ"
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آدمی نماز میں اپنے پہلو میں کھڑے شخص سے بات کر لیتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہو گئی «‏‏‏‏وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ» ‏‏‏‏ [ سورة البقرة: 238 ] اور اللہ کے لئے عاجزی کرنے والے بن کر کھڑے ہو، جناب ہثیم کی روایت میں یہ اضافہ ہے تو ہمیں خاموش رہنے کا حُکم دے دیا گیا اور گفتگو کرنے سے منع کر دیا گیا۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 857
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن حكيم ، حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد ، بمثل حديث بندار، غير انه قال:" كان يكلم الرجل صاحبه في الصلاة بالحاجة، على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، حتى نزلت وقوموا لله قانتين سورة البقرة آية 238، فامرنا بالسكوت"حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، بِمِثْلِ حَدِيثِ بُنْدَارٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ:" كَانَ يُكَلِّمُ الرَّجُلُ صَاحِبَهُ فِي الصَّلاةِ بِالْحَاجَةِ، عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى نَزَلَتْ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ سورة البقرة آية 238، فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ"
جناب اسماعیل بن ابی خالد نے بندار کی سابقہ حدیث کی طرح روایت کی ہے مگر انہوں نے یہ الفاظ بیان کئے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کوئی شخص اپنے ساتھی سے نماز میں ضروری بات کر لیتا تھا۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہو گئی «‏‏‏‏وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ» ‏‏‏‏ [ سورة البقرة: 238 ] اور اللہ کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو۔ تو ہمیں خاموشی اختیار کرنے کا حُکم دے دیا گیا۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 858
Save to word اعراب
حدثنا ابو موسى نا يحيى بن حماد ، نا ابو عوانة ، عن سليمان ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: كنا نسلم على النبي صلى الله عليه وسلم، وهو يصلي بمثله، وقال: فرد علينا، فقال:" إن في الصلاة لشغلا" قلت لإبراهيم: كيف تسلم انت؟ قال: ارد في نفسيحَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى نا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، نَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يُصَلِّي بِمِثْلِهِ، وَقَالَ: فَرَدَّ عَلَيْنَا، فَقَالَ:" إِنَّ فِي الصَّلاةِ لَشُغْلا" قُلْتُ لإِبْرَاهِيمَ: كَيْفَ تُسَلِّمُ أَنْتَ؟ قَالَ: أَرُدُّ فِي نَفْسِي
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں سلام کیا کرتے تھے۔ گزشتہ حدیث کے مثل بیان کیا۔ اور فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سلام کا جواب دیا (بعد میں حُکم تبدیل ہوگیا) اور فرمایا: بیشک نماز میں مشغولیت ہوتی ہے۔ (اس لئے سلام کا جواب نماز کی حالت میں کلام کے ساتھ نہ دیا کرو) میں نے ابراہیم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے سلام کرتے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ میں اپنے دل میں جواب دے دیتا ہوں۔

تخریج الحدیث:
547. (305) بَابُ ذِكْرِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ جَهْلًا مِنَ الْمُتَكَلِّمِ
547. نماز میں ناواقفیت کی بنا پر گفتگو کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: Q859
Save to word اعراب
والدليل على ان الكلام لا يقطع الصلاة إذا لم يعلم المتكلم ان الكلام في الصلاة محظور غير مباح وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْكَلَامَ لَا يَقْطَعُ الصَّلَاةَ إِذَا لَمْ يَعْلَمِ الْمُتَكَلِّمُ أَنَّ الْكَلَامَ فِي الصَّلَاةِ مَحْظُورٌ غَيْرُ مُبَاحٍ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ اگر گفتگو کرنے والے کو معلوم نہ ہو کہ نماز میں گفتگو کرنا منع ہے تو اس کی گفتگو سے نماز نہیں ٹوٹتی

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 859
Save to word اعراب
نا بندار ، نا يحيى ، حدثنا الحجاج وهو الصواف ، عن يحيى بن ابي كثير ، ح وحدثنا ابو هاشم زياد بن ايوب ، نا إسماعيل بن علية، حدثني الحجاج بن ابي عثمان ، حدثني يحيى بن ابي كثير ، ح وحدثنا محمد بن هشام ، حدثنا إسماعيل ، حدثني الحجاج ، عن يحيى بن ابي كثير ، ح وحدثنا محمد بن عبد الله بن ميمون ، حدثنا الوليد يعني ابن مسلم ، عن الاوزاعي ، عن يحيى ، وحدثنا يونس بن عبد الاعلى ، اخبرنا بشر يعني ابن بكر ، عن الاوزاعي ، حدثني يحيى ، عن هلال بن ابي ميمونة ، حدثني عطاء بن يسار ، حدثنا معاوية بن الحكم السلمي ، ح وحدثنا زياد بن ايوب ، ثناه بشر يعني ابن إسماعيل الحلبي ، عن الاوزاعي ، عن يحيى بن ابي كثير ، حدثني هلال بن ابي ميمونة ، حدثني عطاء بن يسار ، حدثني معاوية بن الحكم السلمي ، قال: قلت: يا رسول الله، إنا كنا حديث عهد بجاهلية، فجاء الله بالإسلام، وإن رجالا منا يتطيرون، قال:" ذلك شيء يجدونه في صدورهم، فلا يصدنهم" قال: يا رسول الله، رجال ياتون الكهنة، قال:" فلا تاتوهم" قال: يا رسول الله رجال منا يخطون، قال:" كان نبي من الانبياء يخط فمن وافق خطه فذاك" قال: وبينما انا اصلي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ عطس رجل من القوم، فقلت له: يرحمك الله، فحدقني القوم بابصارهم، فقلت: واثكل امياه، ما لكم تنظرون إلي، قال: فضرب القوم بايديهم على افخاذهم، فلما رايتهم يصمتونني لكني سكت، فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم دعاني، فبابي هو وامي، ما رايت معلما قط قبله ولا بعده احسن تعليما منه، والله ما ضربني، ولا كهرني، ولا شتمني، ولكن قال:" إن صلاتنا هذه لا يصلح فيها شيء من كلام الناس، إنما هي التكبير، والتسبيح، وتلاوة القرآن" هذا لفظ حديث ميسرة، قال بندار: بينما انا اصلي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهكذا قال الباقون. وقال بندار: فلما رايتهم يصمتوني، لكني سكت. قال ابو بكر: خرجت في التصنيف الكبير حديث الباقين في عقب حديث بندار بمثله، ولم اخرج الفاظهمنَا بُنْدَارٌ ، نَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ وَهُوَ الصَّوَّافُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو هَاشِمٍ زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ ، نَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنِي الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنِي الْحَجَّاجُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ ، عَنْ يَحْيَى ، وَحَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ بَكْرٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى ، عَنْ هِلالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ ، حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ الْحَكَمِ السُّلَمِيُّ ، ح وَحَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ ، ثناهُ بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ الْحَلَبِيَّ ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي هِلالُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ ، حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ الْحَكَمِ السُّلَمِيُّ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا حَدِيثَ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ، فَجَاءَ اللَّهُ بِالإِسْلامِ، وَإِنَّ رِجَالا مِنَّا يَتَطَيَّرُونَ، قَالَ:" ذَلِكَ شَيْءٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ، فَلا يَصُدَّنَّهُمْ" قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رِجَالٌ يَأْتُونَ الْكَهَنَةَ، قَالَ:" فَلا تَأْتُوهُمْ" قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ رِجَالٌ مِنَّا يَخُطُّونَ، قَالَ:" كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ" قَالَ: وَبَيَّنَما أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ لَهُ: يَرْحَمُكُ اللَّهُ، فَحَدَّقَنِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُكْلَ أُمِّيَاهُ، مَا لَكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ، قَالَ: فَضَرَبَ الْقَوْمُ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يَصْمُتُونَنِي لَكِنِّي سَكَتُّ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانِي، فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي، مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَطُّ قَبْلَهُ وَلا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ، وَاللَّهِ مَا ضَرَبَنِي، وَلا كَهَرَنِي، وَلا شَتَمَنِي، وَلَكِنْ قَالَ:" إِنَّ صَلاتَنَا هَذِهِ لا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هِيَ التَّكْبِيرُ، وَالتَّسْبِيحُ، وَتِلاوَةُ الْقُرْآنِ" هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ مَيْسَرَةَ، قَالَ بُنْدَارٌ: بَيْنَمَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَكَذَا قَالَ الْبَاقُونَ. وَقَالَ بُنْدَارٌ: فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يَصْمُتُونِي، لَكِنِّي سَكَتُّ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَرَّجْتُ فِي التَّصْنِيفِ الْكَبِيرِ حَدِيثَ الْبَاقِينَ فِي عَقِبِ حَدِيثِ بُنْدَارٍ بِمِثْلِهِ، وَلَمْ أُخَرِّجْ أَلْفَاظَهُمْ
سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، ہم نئے نئے جاہلیت سے نکلے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ اسلام کی نعمت لے آئے، اور بیشک ہم میں کچھ لوگ بدشگونی لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ چیز ہے جسے وہ اپنے دلوں میں پاتے ہیں تو یہ اُن کو (ان کے کاموں سے) ہرگز نہ روکے۔ انہوں نے عرض کی کہ اللہ کے رسول، کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اُن کے پاس مت جاؤ۔ وہ کہنے لگے کہ اے اﷲ کے رسول، ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں لگاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ایک نبی لکیریں لگاتے تھے تو جس کی لکیر اُن کی لکیروں کے موافق ہوجائیں تو وہ درست ہے (اس میں کوئی حرج نہیں) سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس اثنا میں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ لوگوں میں سے ایک شخص نے چھینک ماری تو میں نے اسے کہا «‏‏‏‏يَرحَمُكَ الله» ‏‏‏‏ اللہ تجھ پر رحم فرمائے تو لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا تو میں نے کہا کہ ہائے میری ماں مجھے روئے (یعنی میں مر جاؤں) تم مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟ وہ کہتے ہیں تو لوگوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے شروع کر دیے، تو جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرارہے ہیں تو میں خاموش ہوگیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا۔ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر تعلیم دینے والا معلم نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مجھے مارا، نہ جھڑکا اور نہ برا بھلا کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک ہماری اس نماز میں لوگوں کی بات چیت درست نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو تکبیر، تسبیح اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا نام ہے۔ یہ میسرہ کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ جناب بندار کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ اس دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا۔ اسی طرح دیگر راویوں نے بیان کیا ہے ـ اور بندار کہتے ہیں کہ پھر جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا ـ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے التصنیف الکبیر میں باقی راویوں کی حدیث بھی بندار کی روایت کے مثل بیان کر دی ہے مگر میں نے ان کے الفاظ بیان نہیں کیے۔

تخریج الحدیث:
548. (315) بَابُ ذِكْرِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ وَالْمُصَلِّي غَيْرُ عَالِمٍ أَنَّهُ قَدْ بَقِيَ عَلَيْهِ بَعْضُ صَلَاتِهِ،
548. نماز میں بات چیت کرنے کا بیان جبکہ نمازی کو یہ علم نہ ہو کہ اس کی کچھ نماز ابھی باقی ہے۔
حدیث نمبر: Q860
Save to word اعراب
والدليل على ان الكلام والمصلي هذه صفته غير مفسد للصلاة وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْكَلَامَ وَالْمُصَلِّي هَذِهِ صِفَتُهُ غَيْرُ مُفْسِدٍ لِلصَّلَاةِ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ جس نمازی کا یہ حال ہو اس کی بات چیت نماز کو فاسد نہیں کرتی

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 860
Save to word اعراب
نا محمد بن بشار ، حدثنا عبد الوهاب يعني ابن عبد المجيد الثقفي ، نا ايوب ، عن محمد ، عن ابي هريرة ، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إحدى صلاتي العشي واكبر ظني انها الظهر ركعتين، فاتى خشبة في قبلة المسجد، فوضع عليها يديه إحداهما على الاخرى، وخرج سرعان الناس، فقالوا: قصرت الصلاة، وفي القوم ابو بكر، وعمر، فهابا ان يكلماه، ورجل قصير اليدين او طويلهما يقال له: ذو اليدين، فقال: اقصرت الصلاة او نسيت؟ فقال:" لم تقصر، ولم انس"، فقال: بل نسيت، فقال:" صدق ذو اليدين؟" قال: نعم، فصلى ركعتين، ثم سلم، ثم كبر، وسجد مثل سجوده او اطول، ثم رفع" وذكر بندار الحديث، قال ابو بكر: قد خرجت هذا الباب بتمامه في كتاب السهو في الصلاةنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْمَجِيدِ الثَّقَفِيَّ ، نَا أَيُّوبُ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَى صَلاتَيِ الْعَشِيِّ وَأَكْبَرُ ظَنِّي أَنَّهَا الظُّهْرُ رَكْعَتَيْنِ، فَأَتَى خَشَبَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ، فَوَضَعَ عَلَيْهَا يَدَيْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى، وَخَرَجَ سَرَعَانُ النَّاسِ، فَقَالُوا: قَصُرَتِ الصَّلاةُ، وَفِي الْقَوْمِ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، فَهَابَا أَنْ يُكَلِّمَاهُ، وَرَجُلٌ قَصِيرُ الْيَدَيْنِ أَوْ طَوِيلُهُمَا يُقَالُ لَهُ: ذُو الْيَدَيْنِ، فَقَالَ: أَقَصُرَتِ الصَّلاةُ أَوْ نَسِيتَ؟ فَقَالَ:" لَمْ تَقْصُرْ، وَلَمْ أَنَسَ"، فَقَالَ: بَلْ نَسِيتَ، فَقَالَ:" صَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ؟" قَالَ: نَعَمْ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ كَبَّرَ، وَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ رَفَعَ" وَذَكَرَ بُنْدَارٌ الْحَدِيثَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ خَرَّجْتُ هَذَا الْبَابَ بِتَمَامِهِ فِي كِتَابِ السَّهْوِ فِي الصَّلاةِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شام کی دو نمازوں یعنی ظہر یا عصر میں سے ایک نماز دو رکعت پڑھائی، میرا غالب گمان ہے کہ وہ ظہر کی نماز تھی ـ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے قبلے میں موجود لکڑی کے پاس آئے اور اپنے دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر ٹکا کر اس پر رکھ دیئے۔ اور جلد باز لوگ مسجد سے نکل گئے۔ اور یہ کہتے گئے کہ نماز کم ہوگئی ہے۔ جبکہ لوگوں میں سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے مگر وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرتے ہوئے ڈرے۔ ایک شخص جس کے ہاتھ چھوٹے یا لمبے ہونے کی وجہ سے اُسے ذو الیدین (دو ہاتھوں والا) کہا جاتا تھا، اُس نے کہا کہ (اے اللہ کے رسول) کیا نماز کم ہوگئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ نماز کم ہوئی ہے اور نہ میں بھولا ہوں۔ تو اُس نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کیا ذوالیدین سچ کہہ رہا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بقیہ) دو رکعت ادا کیں پھر سلام پھیرا اور تکبیر کہی اور اپنے سجدے کی مثل یا اس سے طویل سجدہ کیا پھر سجدے سے سر اُٹھایا۔ (پھر دوسرا سجدہ کیا) بندار نے مکمّل حدیث بیان کی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے یہ مکمّل باب كتاب السهو فى الصلاة میں بیان کر دیا ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
549. (316) بَابُ ذِكْرِ مَا خَصَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
549. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خصوصیت کا بیان جس کے ساتھ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مختص کیا ہے اور اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے درمیان فرق و امتیاز کر دیا ہے
حدیث نمبر: Q861
Save to word اعراب
وابان به بينه وبين امته من ان اوجب على الناس إجابته وإن كانوا في الصلاة، إذا دعاهم لما يحييهم وَأَبَانَ بِهِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أُمَّتِهِ مِنْ أَنْ أَوْجَبَ عَلَى النَّاسِ إِجَابَتَهُ وَإِنْ كَانُوا فِي الصَّلَاةِ، إِذَا دَعَاهُمْ لِمَا يُحْيِيهِمْ
وہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو حیات بخش امور کے لیے بلائیں تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار پر لبیک کہنا واجب ہے اگرچہ وہ نماز پڑھ رہے ہوں

تخریج الحدیث:

Previous    1    2    3    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.