خبر عائشة إذ النبي صلى الله عليه وسلم إنما اراد ان مرور الكلب والمراة والحمار يقطع صلاة المصلي لا ثوي الكلب ولا ربضه ولا ربض الحمار، ولا اضطجاع المراة يقطع صلاة المصلي، وعائشة إنما اخبرت انها كانت تضطجع بين يدي النبي صلى الله عليه وسلم وهو يصلي، لا انها مرت بين يديهخَبَرِ عَائِشَةَ إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَادَ أَنَّ مُرُورَ الْكَلْبِ وَالْمَرْأَةِ وَالْحِمَارِ يَقْطَعُ صَلَاةَ الْمُصَلِّي لَا ثُوِيَّ الْكَلْبِ وَلَا رَبْضَهُ وَلَا رَبْضَ الْحِمَارِ، وَلَا اضْطِجَاعَ الْمَرْأَةِ يَقْطَعُ صَلَاةَ الْمُصَلِّي، وَعَائِشَةُ إِنَّمَا أَخْبَرَتْ أَنَّهَا كَانَتْ تَضْطَجِعُ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، لَا أَنَّهَا مَرَّتْ بَيْنَ يَدَيْهِ
جناب عبداللہ بن صامت رحمه الله سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گدھے، عورت اور سیاہ کُتّے (کے نمازی کے آگے) سے گزرنے کی وجہ سے نماز لوٹائی جائے گی۔ میں نے پوچھا کہ سیاہ کُتّے کا زرد یا سرخ کُتّے سے فرق ہے؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی پوچھا تھا جیسے تم نے مجھ سے پوچھا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”سیاہ کُتّا شیطان ہے۔“
536. اس بات کی دلیل کا بیان کہ وہ عورت جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ کُتّے اور گدھے کے ساتھ ملا کر بیان کیا ہے کہ ان کے نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد حائضہ عورت ہے پاک و طاہر عورت مراد نہیں ہے۔
وهذا من الفاظ المفسر كما فسر خبر ابي هريرة وعبد الله بن مغفل في ذكر الكلب في خبر ابي ذر، فاجمل ذكر الكلب في خبر ابي هريرة وعبد الله بن مغفل فقال: يقطع الصلاة الكلب والحمار والمراة. وبين في خبر ابي ذر ان الكلب الذي يقطع الصلاة هو الاسود دون غيره، وكذلك بين في خبر ابن عباس ان المراة الحائض هي التي تقطع الصلاة دون غيرهاوَهَذَا مِنْ أَلْفَاظِ الْمُفَسِّرِ كَمَا فَسَّرَ خَبَرَ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ فِي ذِكْرِ الْكَلْبِ فِي خَبَرِ أَبِي ذَرٍّ، فَأَجْمَلَ ذِكْرَ الْكَلْبِ فِي خَبَرِ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ فَقَالَ: يَقْطَعُ الصَّلَاةَ الْكَلْبُ وَالْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ. وَبَيَّنَ فِي خَبَرِ أَبِي ذَرٍّ أَنَّ الْكَلْبَ الَّذِي يَقْطَعُ الصَّلَاةَ هُوَ الْأَسْوَدُ دُونَ غَيْرِهِ، وَكَذَلِكَ بَيَّنَ فِي خَبَرِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ الْمَرْأَةَ الْحَائِضَ هِيَ الَّتِي تَقْطَعُ الصَّلَاةَ دُونَ غَيْرِهَا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کُتّا اور حائضہ عورت نماز توڑ دیتی ہے۔“
قد يحسب بعض اهل العلم انه خلاف خبر النبي صلى الله عليه وسلم: يقطع الصلاة الحمار والكلب والمراة قَدْ يَحْسِبُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ خِلَافُ خَبَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقْطَعُ الصَّلَاةَ الْحِمَارُ وَالْكَلْبُ وَالْمَرْأَةُ
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے خلاف ہے کہ ”گدھا، کُتّا اور عورت نماز کو کاٹ دیتے ہیں۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں اور فضل رضی اللہ عنہما ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے جبکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے تو ہم کچھ صفوں کے آگے سے گزرگئے، پھر ہم اس سے اُترے اور اُسے چرنے کے لئے چھوڑ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کچھ نہ کہا۔ جناب عبدالجبار کی روایت میں ہے ”تو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا ـ“ جناب مخزومی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ”تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ نہ کہا۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس روایت کو امام معمر اور مالک نے اس طرح روایت کیا کہ ”آپ لوگوں کو منیٰ میں نماز پڑھا رہے تھے۔“
ثناه ابو موسى، حدثني عبد الاعلى، ثنا معمر، ح وثنا يونس بن عبد الاعلى، اخبرنا ابن وهب، ان مالكا حدثه، ح وحدثنا يعقوب الدورقي، ثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن مالك، في خبر معمر " ومرت الاتان بين يدي الناس، فلم يقطع عليهم الصلاة" وفي عبد الرحمن، عن مالك:" وانا على حمار فتركته بين الصف، ودخلت في الصلاة، فلم يعب علي". قال ابو بكر: وليس في هذا الخبر ان النبي صلى الله عليه وسلم راى الاتان تمر، ولا ترتع بين يدي الصفوف، ولا ان النبي صلى الله عليه وسلم اعلم بذلك فلم يامر من مرت الاتان بين يديه بإعادة الصلاة، والخبر ثابت صحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم ان" الكلب الاسود، والمراة الحائض، والحمار، يقطع الصلاة" وما لم يثبت خبر عن النبي صلى الله عليه وسلم بضد ذلك لم يجز القول والفتيا بخلاف ما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلمثناهُ أَبُو موسى، حَدَّثَنِي عَبْدُ الأَعْلَى، ثنا مَعْمَرٌ، ح وَثنا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَنَّ مَالِكًا حَدَّثَهُ، ح وَحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مَالِكٍ، فِي خَبَرِ مَعْمَرٍ " وَمَرَّتِ الأَتَانُ بَيْنَ يَدَيِ النَّاسِ، فَلَمْ يَقْطَعْ عَلَيْهِمُ الصَّلاةَ" وَفِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مَالِكٍ:" وَأَنَا عَلَى حِمَارٍ فَتَرَكْتُهُ بَيْنَ الصَّفِّ، وَدَخَلْتُ فِي الصَّلاةِ، فَلَمْ يَعِبْ عَلَيَّ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَلَيْسَ فِي هَذَا الْخَبَرِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى الأَتَانَ تَمُرُّ، وَلا تَرْتَعُ بَيْنَ يَدَيِ الصُّفُوفِ، وَلا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُعْلِمَ بِذَلِكَ فَلَمْ يَأْمُرْ مَنْ مَرَّتِ الأَتَانُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِعَادَةِ الصَّلاةِ، وَالْخَبَرُ ثَابِتٌ صَحِيحٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ" الْكَلْبَ الأَسْوَدَ، وَالْمَرْأَةَ الْحَائِضَ، وَالْحِمَارَ، يَقْطَعُ الصَّلاةَ" وَمَا لَمْ يَثْبُتْ خَبَرٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضِدِّ ذَلِكَ لَمْ يَجُزِ الْقَوْلُ وَالْفُتْيَا بِخِلافِ مَا ثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
جناب معمر رحمه الله کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ”اور گدھی لوگوں کے آگے سے گزر گئی لیکن اُس نے اُن کی نماز کو توڑا نہیں۔ اور امام مالک رحمه الله کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میں ایک گدھے پر سوار تھا تو میں نے اُسے صفوں کے درمیان چھوڑ دیا اور میں خود نماز میں شریک ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (اس کام کی وجہ سے) ڈانٹا نہیں۔ امام ابوبکر رحمه اﷲ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بیان نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھی کو صفوں کے آگے سے گزرتے یا چرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور نہ یہ ذکر ہوا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تھا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن افراد کو نماز لوٹانے کا حُکم نہیں دیا جن کے آگے سے گدھی گزری تھی - اور یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور صحیح ہے کہ سیاہ کُتّا، حائضہ عورت اور گدھا نماز کو کاٹ دیتے ہیں۔ لہٰذا جب تک اس کے برعکس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث ثابت نہ ہو جائے اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت حدیث کے خلاف فتویٰ دینا اور رائے اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں اور بنو ہاشم کا ایک لڑکا ایک گدھے یا دو گدھوں پر سوار ہو کر آئے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے گزر گیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے (تو ہمارے گزرنے سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہ توڑی، اور بنو عبدالمطلب کی دو بچّیاں آئیں تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں کہ پکڑلیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن دونوں کو الگ الگ کر دیا لیکن نماز نہ توڑی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے گدھا گزرا تھا۔ بلکہ اُنہوں نے تو صرف یہ کہا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے گزر گیا۔ اور یہ لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما گدھے سے اُترنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرے تھے کیونکہ اُنہوں نے فرمایا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرگیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔
جناب عبید اللہ بن موسیٰ کی امام شعبہ سے روایت میں یہ الفاظ ہیں، تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے گزر گئے پھر ہم گدھے سے اترے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شامل ہو گئے۔ عبید اللہ بن موسیٰ کو محمد بن جعفر پر ترجیح دینا ناممکن ہے۔ خصوصاً امام شعبہ کی حدیث میں، اگرچہ محمد بن جعفر، امام شعبہ کی حدیث میں عبیداللہ بن موسیٰ جیسے متعدد راویوں کی بھی مخالفت کرے تو بھی محمد بن جعفر کو اُن پر ترجیح ہوگی۔ یہی روایت منصور بن معتمر نے اپنی سند سے صہیب سے بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر تھے تو ہم نے اُن چیزوں کا تذکرہ کیا جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے - حاضرین نے کہا کہ گدھے اور عورت (کے نمازی کے آگے سے گزرنے) سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں اور بنو عبدالمطلب کا ایک لڑکا گدھے پر اکھٹے سوار ہو کر آئے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ایک کھلی جگہ میں نماز پڑھا رہے تھے، تو ہم نے گدھے کو اُن کے آگے چھوڑ دیا، پھر ہم آئے اور اُن کے سامنے سے (نماز میں) داخل ہو گئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پرواہ نہ کی۔ اور (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے تو بنو عبدالمطلب کی دو بچّیاں لڑتی ہوئی آئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن دونوں کو پکڑا اور ایک بچّی کو دوسری سے کھینچ کر چھڑا دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی۔
امام ابوبکر رحمه الله عليه فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا ظاہر بھی عبید اللہ بن عبداللہ کی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی طرح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے سامنے سے گدھا گزرا ہے نہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے۔ اور اس حدیث میں یہ بھی ذکر نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تھا۔ لیکن اگر حدیث میں اس بات کا ذکر ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہو گیا تھا کہ گدھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ مقتدیوں کے آگے سے گزرا ہے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سُترہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقتدیوں کے لئے کافی تھا ـ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید گاہ میں نماز پڑھاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم برچھی کو سُترہ بناتے تھے۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سُترہ مقتدیوں کے لئے سُترہ نہ بنتا تو پھر ہر نمازی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح برچھی کے ساتھ سُترہ بنانا پڑتا۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سُترے کے لئے برچھی کا اُٹھایا جانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقتدیوں کو (علیحدہ) سُترہ بنانے کا حُکم نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ امام کا سُترہ ہی مقتدیوں کا سُترہ ہوتا ہے۔