سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو وہ اپنے آگے سے کسی کو ہر گز نہ گزرنے دے، پھر اگر وہ (رُکنے سے) انکار کر دے (اور زبردستی آگے سے گزرنے کی کوشش کرے) تو اُس کے ساتھ اُسے لڑنا چاہیے کیونکہ وہ شیطان ہے۔“
والبيان ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما امر المصلي إلى سترة، بمنع المار بين يديه، واباح له مقاتلته إذا صلى إلى سترة، لا إذا صلى إلى غير سترة وَالْبَيَانِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَمَرَ الْمُصَلِّي إِلَى سُتْرَةٍ، بِمَنْعِ الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَأَبَاحَ لَهُ مُقَاتَلَتَهُ إِذَا صَلَّى إِلَى سُتْرَةٍ، لَا إِذَا صَلَّى إِلَى غَيْرِ سُتْرَةٍ
حضرت عبد الرحمٰن بن ابی سعید اپنے والد گرامی سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک ستون کو سُترہ بنا کر نماز پڑھ رہے تھے تو بنو اُمیہ کے ایک شخص نے اُن کے آگے سے گزرنے کی کوشش کی تو اُنہوں نے اُسے منع کیا، اُس نے دوبارہ گزرنے کی کوشش کی تو اُنہوں نے اُس کے سینے پر تھپڑ مارا، اور وہ بنی اُمیہ کا ایک فرد تھا، اُس نے یہ واقعہ مروان (گورنر) کو بتا دیا۔ مروان سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے ملے تو کہا کہ آپ نے اپنے بھتیجے کو کس وجہ سے مارا ہے؟ تو اُنہوں نے جواب میں فرمایا کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جب تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کو سُترہ بنا کر نماز پڑھ رہا ہو تو کوئی شخص اُس کے آگے سے گزرنے کی کوشش کرے تو اُسے اُس شخص کو روکنا چاہیے، پھر اگر وہ رکنے سے انکار کرے تو اُسے اُسکے ساتھ لڑائی کرنی چاہیے کیونکہ وہ شیطان ہے۔“ بیشک میں نے (ایک) شیطان ہی کو مارا ہے۔
والإيضاح ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما اباح للمصلي مقاتلة المار بين يديه بعد منعه عن المرور مرتين، لا في الابتداء إذا اراد المرور بين يديه وَالْإِيضَاحِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَبَاحَ لِلْمُصَلِّي مَقَاتَلَةَ الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيْهِ بَعْدَ مَنْعِهِ عَنِ الْمُرُورِ مَرَّتَيْنِ، لَا فِي الِابْتِدَاءِ إِذَا أَرَادَ الْمُرُورَ بَيْنَ يَدَيْهِ
جناب ابوصالح بیان کرتے ہیں کہ اس اثنا میں کہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ جمعہ والے دن نماز پڑھ رہے تھے۔ کہ پھر سلیمان بن مغیرہ کی حدیث جیسی حدیث بیان کی جو دوسرے باب میں آگے آرہی ہے۔ مگر اس میں یہ اضافہ ہے کہ بیشک میں نے اُسے روکنے کی کوشش کی تھی مگر اُس نے رُکنے سے انکار کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان دنوں مروان مدینہ منوّرہ کا گورنر تھا، لہٰذا اُس نے گورنر سے شکایت کر دی۔ پھر مروان نے (ملاقات ہونے پر) اس بات کا تذکرہ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے کیا تو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔ ”جب تم میں سے کسی شخص کے آگے سے کوئی چیز گزرے جبکہ وہ نماز پڑھ رہا ہو تو اُسے اُس چیز کو دوبار منع کرنا چاہیے، پھر اگر وہ رُکنے سے انکار کردے (اور زبردستی گزرنے کی کوشش کرے) تو اُسے اُس کے ساتھ لڑائی کرنی چاہیے، بلاشبہ وہ شیطان ہے۔“
حضرت ابوصالح بیان کرتے ہیں کہ اس دوران کہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ جمعہ کے روز کسی چیز کو لوگوں سے سُترہ بناکر نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک بنو ابی معیط کا ایک نوجوان آپ کے پاس آیا اور اُس نے آپ کے سامنے سے گزرنے کی کوشش کی تو آپ نے اُس کے سینے میں دھکا دیا۔ اُس نے (اِدھر اُدھر راستہ) دیکھا مگر اُسے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کے سامنے کے سوا کوئی راستہ نہ ملا چنانچہ اُس نے دوبارہ گزرنے کی کوشش کی، تو اُنہوں نے پہلی مرتبہ سے زیادہ زور کے ساتھ اُسے دھکا دیا۔ راوی نے کہا کہ پھر وہ شخص کھڑا ہوگیا۔ اُس نے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کو بُرا بھلا کہا اور (مسجد سے) نکل گیا اور اُس نے مروان کے پاس جا کر سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے پہنچنے والی تکلیف کی شکایت کر دی ـ راوی کہتے ہیں کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ بھی مروان کے پاس تشریف لائے تو اُس نے کہا کہ آپ کے اور آپ کے بھتیجے کے درمیان کیا معاملہ ہوا ہے کہ آپ کی شکایت کررہا ہے؟ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی شخص اُس کے سامنے سے گزرنے کی کوشش کرے تو اُسے چاہیے کہ وہ اُس کو سینے میں دھکا دے، پھر اگر وہ رُکنے سے انکار کر دے تو اُس کے ساتھ لڑائی کرے، بلاشبہ وہ شیطان ہے۔“
اي فإنما هو شيطان مع الذي يريد المرور بين يديه لا ان المار من بني آدم شيطان، وإن كان اسم الشيطان قد يقع على عصاة بني آدم. قال الله عز وجل: (شياطين الإنس والجن يوحي بعضهم إلى بعض زخرف القول غرورا.) أَيْ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ مَعَ الَّذِي يُرِيدُ الْمُرُورَ بَيْنَ يَدَيْهِ لَا أَنَّ الْمَارَّ مِنْ بَنِي آدَمَ شَيْطَانٌ، وَإِنْ كَانَ اسْمُ الشَّيْطَانِ قَدْ يَقَعُ عَلَى عُصَاةِ بَنِي آدَمَ. قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: (شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا.)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مراد ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والے کے ساتھ شیطان ہے، یہ مطلب نہیں کہ گزرنے والا انسان شیطان ہے، اگرچہ شیطان کا لفظ نافرمان انسانوں پر بھی بول دیا جاتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے، «وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورً» [ سورة الأنعام: 112 ]”اسی طرح ہم نے انسانوں اور جنوں میں سے شیطان، ہر نبی کے دشمن بنائے، ان میں ہر ایک دوسرے کے کان میں چکنی چپڑِی باتیں ڈالتا رہتا ہے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ضرور سُترہ رکھ کر نماز پڑھا کرو، اور اپنے آگے سے کسی کو مت گزرنے دو، پھر اگر وہ (رُکنے سے) انکار کر دے تو تم اُس کے ساتھ لڑائی کرو، بیشک اس کے ساتھ ایک ساتھی (شیطان) ہے۔“
جناب ایاس بن عامر بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نفل پڑھا کرتے تھے جبکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قبلہ کے درمیان لیٹی ہوتیں ـ“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں ”يسبح من الليل“ سے ان کی مراد نفل نماز ہے ـ