ضد قول من زعم انه لا يؤذن في السفر للصلاة إلا للفجر خاصة قال ابو بكر: خبر ابي ذر: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فاراد المؤذن ان يؤذن فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «ابرد» ضِدَّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ لَا يُؤَذَّنُ فِي السَّفَرِ لِلصَّلَاةِ إِلَّا لِلْفَجْرِ خَاصَّةً قَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَبَرُ أَبِي ذَرٍّ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَرَادَ الْمُؤَذِّنُ أَنْ يُؤَذِّنُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبْرِدْ»
اس شخص کے قول کے برعکس جس کا دعویٰ ہے کہ سفر میں صرف نماز فجر کے لئے اذان دی جائے گی۔ ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو مؤذّن نے اذان کہنے کا ارادہ کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھنڈا کرو۔“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو مؤذن نے اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھنڈا کرو“ پھر اُس نے اذان دینی چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(نماز کو) ٹھنڈا کرو“ شعبہ کہتے ہیں، حتیٰ کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہوگیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک گرمی کی شدت جہنّم کی بھاپ سے ہے تو نماز (ظہر) کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو۔“
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور ایک اور آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رخصت کیا تو فرمایا: ”جب تم دونوں سفر کرو اور نماز کا وقت ہو جائے تو اذان کہنا اور اقامت کہنا اور تم دونوں میں جو بڑا ہو اُسے تمہاری امامت کروانی چاہیے۔“ خالد حذاء کہتے ہیں کہ ہم دونوں قرآن مجید کی قرأت میں برابر تھے۔
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرا چچازاد بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ تو (الوداع کرتے وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم دونوں سفر کرو تو اذان دو اور تکبیر کہو اور تم دونوں میں بڑا تمہاری امامت کروائے۔“
والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما امر ان يؤذن احدهما لا كليهماوَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَمَرَ أَنْ يُؤَذِّنَ أَحَدُهُمَا لَا كِلَيْهِمَا
اور اس بات کی دلیل کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے کسی ایک کو اذان دینے کا حکم دیا تھا، دونوں کو بیک وقت اذان دینے کا حکم نہیں دیا تھا۔
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ ہم، ہم عمر نوجوان تھے۔ ہم (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) بیس راتیں رہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت رحمدل اور نرم مزاج تھے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ ہم اپنے گھر والوں کی خواہش یا اُن سے ملاقات کا اشتیاق کر رہے ہیں تو ہم سے پوچھا کہ ”ہم کن کو اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں؟“ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے گھر والوں کے پاس چلے جاؤ اُن کے ساتھ رہو اور اُنہیں (دین کی) تعلیم دو اور (اچھے کاموں کا) حُکم دو۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چیزیں بیان فرمائیں (جن میں سے کچھ مجھے یاد ہیں اور کچھ یاد نہیں) اور فرمایا: ”نماز اسی طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، پھر جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں کوئی ایک تمہارے لئے اذان کہے اور تم میں سے بڑا تمہاری امامت کروائے۔“ عبدالوھاب بن عبدالمجید نے بندار کی روایت کی طرح بیان کیا ہے اور بعض اوقات بعض الفاظ میں ان کی مخالفت کی ہے۔
وإن كان المرء وحده ليس معه جماعة ولا واحد طلبا لفضيلة الاذان ضد قول من سئل عن الاذان في السفر فقال: لمن يؤذن؟ فتوهم ان الاذان لا يؤذن إلا لاجتماع الناس إلى الصلاة جماعة، والاذان وإن كان الاعم انه يؤذن لاجتماع الناس إلى الصلاة جماعة فقد يؤذن ايضا طلبا لفضيلة الاذان، الا ترى النبي صلى الله عليه وسلم قد امر مالك بن الحويرث وابن عمه إذا كانا في السفر بالاذان والإقامة، وإمامة اكبرهما اصغرهما، ولا جماعة معهم تجتمع لاذانهما وإقامتهما. قال ابو بكر: وفي خبر ابي سعيد: إذا كنت في البوادي فارفع صوتك بالنداء، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لا يسمع صوته شجر ولا مدر ولا حجر ولا جن ولا إنس إلا شهد له» فالمؤذن في البوادي وإن كان وحده إذا اذن طلبا لهذه الفضيلة كان خيرا واحسن وافضل من ان يصلي بلا اذان ولا إقامة. وكذلك النبي صلى الله عليه وسلم قد اعلم ان المؤذن يغفر له مدى صوته ويشهد له كل رطب ويابس. والمؤذن في البوادي والاسفار وإن لم يكن هناك من يصلي معه صلاة جماعة، كانت له هذه الفضيلة لاذانه بالصلاة إذ النبي صلى الله عليه وسلم لم يخص مؤذنا في مدينة ولا في قرية دون مؤذن في سفر وبادية، ولا مؤذنا يؤذن لاجتماع الناس إليه للصلاة جماعة دون مؤذن لصلاة يصلي منفرداوَإِنْ كَانَ الْمَرْءُ وَحْدَهُ لَيْسَ مَعَهُ جَمَاعَةٌ وَلَا وَاحِدٌ طَلَبًا لِفَضِيلَةِ الْأَذَانِ ضِدَّ قَوْلِ مَنْ سُئِلَ عَنِ الْأَذَانِ فِي السَّفَرِ فَقَالَ: لِمَنْ يُؤَذِّنُ؟ فَتَوَهَّمَ أَنَّ الْأَذَانَ لَا يُؤَذَّنُ إِلَّا لِاجْتِمَاعِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ جَمَاعَةً، وَالْأَذَانُ وَإِنْ كَانَ الْأَعَمُّ أَنَّهُ يُؤَذَّنَ لِاجْتِمَاعِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ جَمَاعَةً فَقَدْ يُؤَذَّنُ أَيْضًا طَلَبًا لِفَضِيلَةِ الْأَذَانِ، أَلَا تَرَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ وَابْنَ عَمِّهِ إِذَا كَانَا فِي السَّفَرِ بِالْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ، وَإِمَامَةِ أَكْبَرِهِمَا أَصْغَرَهُمَا، وَلَا جَمَاعَةَ مَعَهُمْ تَجْتَمِعُ لِأَذَانِهِمَا وَإِقَامَتِهِمَا. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَفِي خَبَرِ أَبِي سَعِيدٍ: إِذَا كُنْتَ فِي الْبَوَادِي فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا يَسْمَعُ صَوْتَهُ شَجَرٌ وَلَا مَدَرٌ وَلَا حَجَرٌ وَلَا جِنٌّ وَلَا إِنْسٌ إِلَّا شَهِدَ لَهُ» فَالْمُؤَذِّنُ فِي الْبَوَادِي وَإِنْ كَانَ وَحْدَهُ إِذَا أَذَّنَ طَلَبًا لِهَذِهِ الْفَضِيلَةِ كَانَ خَيْرًا وَأَحْسَنَ وَأَفْضَلَ مِنْ أَنْ يُصَلِّي بِلَا أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ. وَكَذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْلَمَ أَنَّ الْمُؤَذِّنَ يُغْفَرُ لَهُ مَدَى صَوْتِهِ وَيَشْهَدُ لَهُ كُلُّ رَطْبٍ وَيَابِسٍ. وَالْمُؤَذِّنُ فِي الْبَوَادِي وَالْأَسْفَارِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ هُنَاكَ مَنْ يُصَلِّي مَعَهُ صَلَاةَ جَمَاعَةٍ، كَانَتْ لَهُ هَذِهِ الْفَضِيلَةُ لِأَذَانِهِ بِالصَّلَاةِ إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَخُصَّ مُؤَذِّنًا فِي مَدِينَةٍ وَلَا فِي قَرْيَةٍ دُونَ مُؤَذِّنٍ فِي سَفَرٍ وَبَادِيَةٍ، وَلَا مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ لِاجْتِمَاعِ النَّاسِ إِلَيْهِ لِلصَّلَاةِ جَمَاعَةً دُونَ مُؤَذِّنٍ لِصَلَاةٍ يُصَلِّي مُنْفَرِدًا
اگرچہ تنہا آدمی ہی ہو، اس کے ساتھ لوگوں کی جماعت ہو نہ ہی کوئی آدمی ہی ہو-اس شخص کے قول کے برعکس جس سے سفر میں اذان دینے کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا: کس کے لیے اذان دی جائے گی؟اسے یہ وہم ہوا کہ اذان صرف لوگوں کو نماز باجماعت کے لیے جمع کرنے کے لیے دی جاتی ہے-اگرچہ اذان کا عام مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے جمع کرنے کے لیے دی جاتی ہے لیکن کبھی اذان کی فضیلت واجر حاصل کرنے کے لیے بھی اذان دی جاتی ہے کیا آپ دیکھتے نہیں کہ نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو اور ان کے چچازاد کو حکم دیا تھا کہ جب وہ دونوں سفر میں ہوں تو اذان کہیں اور اقامت کہیں،اور ان میں سے بڑا چھوٹے کی امامت کروائے حالانکہ ان کے ساتھ کوئی جماعت نہیں جو اُن کی اذان اور اقامت کے لیے جمع ہوں-“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:”جب تم جنگلوں میں ہو تو اذان بلند آواز سے کہو کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:”جو بھی درخت،ڈھیلے،پتھر،جن اور انسان اس کی آوازیں سنیں گئ وہ اس کے لیے گواہی دیں گے-لہذا اذان کی فضیلت و اجر کو حاصل کرنے کے لیے اگر موذن جنگل میں اذان دے،اگرچہ وہ اکیلا ہو تو یہ بغیراذان و تکبیر کہے نماز پڑھنے سے بہتر،اچھا اور افضل ہے،اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ کہ مؤذن کے گناہ وہاں تک بخش دیے جاتے ہیں جہاں تک اس کی آواز پہنچتی ہے- اور اس کے لیے ہر خشک وتر چیز گواہی دے گی-چنانچہ جنگلوں اور سفر میں اذان دینے والے کو یہ فضیلت نماز کے لیے اذان دینے کی وجہ سے حاصل ہوجائے گی اگرچہ وہاں اس کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے کوئی شخص نہ ہو-کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر اور جنگل کے مؤذن کو چھوڑ کر ایسے مؤذن کی تخصیص نہیں کی ہے جو لوگوں کو نماز باجماعت کے لیے جمع کرنے کے لیے اذان دیتا ہے-(بلکہ یہ فضیلت ہر مؤذن کو حاصل ہے)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کوسنا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفرمیں تھے، وہ کہہ رہا تھا «اللہُ أَکبَرُ، اللہُ أَکبَرُ» ”اللہ سب سے بڑاہے، اللہ سب سے بڑا ہے“ تو اللہ تعالیٰ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(یہ شخص) فطرت پر ہے۔“ اُس نے کہا کہ «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگ سے نکل گیا۔“ تو لوگ دوڑتے ہوئے اُس شخص کی طرف گئے تو وہ بکریوں کا چرواہا تھا، نماز کا وقت ہو گیا تو وہ کھڑا ہو کر اذان دینے لگا۔