والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما امر ان يؤذن احدهما لا كليهماوَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَمَرَ أَنْ يُؤَذِّنَ أَحَدُهُمَا لَا كِلَيْهِمَا
اور اس بات کی دلیل کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے کسی ایک کو اذان دینے کا حکم دیا تھا، دونوں کو بیک وقت اذان دینے کا حکم نہیں دیا تھا۔
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ ہم، ہم عمر نوجوان تھے۔ ہم (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) بیس راتیں رہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت رحمدل اور نرم مزاج تھے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ ہم اپنے گھر والوں کی خواہش یا اُن سے ملاقات کا اشتیاق کر رہے ہیں تو ہم سے پوچھا کہ ”ہم کن کو اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں؟“ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے گھر والوں کے پاس چلے جاؤ اُن کے ساتھ رہو اور اُنہیں (دین کی) تعلیم دو اور (اچھے کاموں کا) حُکم دو۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چیزیں بیان فرمائیں (جن میں سے کچھ مجھے یاد ہیں اور کچھ یاد نہیں) اور فرمایا: ”نماز اسی طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، پھر جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں کوئی ایک تمہارے لئے اذان کہے اور تم میں سے بڑا تمہاری امامت کروائے۔“ عبدالوھاب بن عبدالمجید نے بندار کی روایت کی طرح بیان کیا ہے اور بعض اوقات بعض الفاظ میں ان کی مخالفت کی ہے۔