سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اپنے حجرہ مبارک کا) پردہ ہٹایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ، کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ، کیا میں نے (دین) پہنچا دیا ہے۔ بیشک نبوت کی خوشخبریوں میں سے صرف نیک خواب ہی باقی رہ گئے جنہیں کوئی مسلمان اپنے لئے دیکھتا ہے یا اُسے (دوسروں کے متعلق خواب) دکھائے جاتے ہیں۔ اور بلاشبہ مجھے رُکوع اور سجدے کی حال میں قراءت کرنے سے منع کیا گیا ہے، لہٰذا رُکوع میں رب تعالیٰ کی عظمت بیان کرو جبکہ سجدوں میں بکثرت دعا مانگو کیونکہ یہ اس لائق ہے کہ تمہاری دعائیں قبول کی جائیں۔ جناب ابوعاصم نے ایک مرتبہ یہ الفاظ بیان کیے ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ اُٹھایا جبکہ صحابہ کرام سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کر رہے تھے۔ اسماعیل اور ابن عیینہ کی حدیث صرف انہی الفاظ پر مکمّل نہیں ہوتی، میں نے اسے مختصر بیان کیا ہے۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رُکوع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کی طرح (طویل) تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رُکوع میں یہ تسبیح پڑھتے تھے «سُبْحَانَ رَبِّي الْعَظِيمِ» ”میرا عظمت والا رب پاک ہے۔“ جناب سلم نے اعمش سے عن کے ساتھ روایت بیان کی ہے۔ امام صاحب نے اپنے استاد گرامی جناب ابوموسیٰ اور یعقوب بن ابراہیم کی سند سے اعمش کی روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رُکوع میں «سُبْحَانَ رَبِّي الْعَظِيمِ» پڑھتے تھے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رُکوع اور سجدوں میں اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے: «سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللّٰهُمَّ اغْفِرْلِيْ» ”اے اللہ، اے ہمارے رب تو اپنی حمد و ثنا کے ساتھ پاک و مقدس ہے۔ اے اللہ، مجھے معاف فرما۔“(اس طرح) آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی تفسیر کرتے تھے۔ امام صاحب اپنے استاد محترم جناب سلم بن جنادہ کی سند سے یہ روایت بیان کرتے ہیں اور فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت یہ دعا پڑھتے تھے، «سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ» ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رُکوع میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے، «سبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ المَلاَئِكَةِ وَالرُّوحِ» ”(ہمارا رب) تمام عیوب سے پاک وبرتر ہے، وہ مقدس و اعلیٰ ہے فرشتوں اور جبرائیل کا رب ہے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رُکوع میں پڑھی جانے والی دعاؤں کے متعلق یہ اختلاف جائز قسم سے ہے۔ اس لئے نمازی کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے رُکوع میں ہر وہ دعا پڑھ سکتا ہے جس کے بارے میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے رُکوع میں پڑھتے تھے۔
نا الحسن بن محمد ، وابو يحيى محمد بن عبد الرحيم ، قالا: حدثنا روح بن عبادة ، نا ابن جريج ، اخبرني موسى بن عقبة ، عن عبد الله بن الفضل ، عن عبد الرحمن الاعرج ، عن عبيد الله بن ابي رافع ، عن علي بن ابي طالب ، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا ركع قال:" اللهم لك ركعت، وبك آمنت، ولك اسلمت، انت ربي، خشع سمعي وبصري ومخي وعظمي وعصبي وما استقلت به قدمي لله رب العالمين" ، جميعهما لفظا واحدا، غير ان محمدا، قال: قال: حدثني موسى بن عقبة، وقال:" وعظامي". قال ابو بكر: وخبر مسروق، عن عائشة من هذا الباب. وكذلك خبر مطرف، عن عائشة، وفي خبر إبراهيم بن عبد الله بن معبد بن عباس، عن ابيه، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" واما السجود فاجتهدوا في الدعاء"، ما بان وثبت ان للمصلي فريضة ان يدعو او يجتهد في سجوده، وإن كان ما يدعو به ليس من القرآن، إذ النبي صلى الله عليه وسلم إنما خاطبهم بهذا الامر، وهم في مكتوبة يصلونها خلف الصديق، لا في تطوع، وفي خبر ابن ابي الزناد، وعن موسى بن عقبة، عن عبد الله بن الفضل، عن عبد الرحمن بن هرمز، عن عبيد الله بن ابي رافع، عن علي بن ابي طالب، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه كان إذا قام إلى الصلاة المكتوبة كبر، فرفع يديه، ثم قال:" وجهت وجهي للذي فطر السموات والارض"، فذكر الدعاء بتمامه، ما بان وثبت ان الدعاء في الصلاة المكتوبة، وإن ليس ذلك الدعاء في القرآن جائز، لا كما قال من زعم: ان من دعا في المكتوبة بما ليس في القرآن فسدت صلاته حتى زعم ان من قال: لا حول ولا حول ولا قوة إلا بالله في المكتوبة فسدت صلاته، وزعم انه ليس في القرآن: لا حول، وزعم انه إن انفرد، فقال: لا قوة إلا بالله جاز، لان في القرآن لا قوة إلا بالله، فيقال له فهذه الالفاظ التي ذكرناها عن النبي صلى الله عليه وسلم في افتتاح الصلاة في الركوع: وما سنذكره بمشيئة الله وإرادته عند رفع الراس من الركوع، وفي السجود، وبين السجدتين، وبعد الفراغ من التشهد قبل السلام، وامر النبي صلى الله عليه وسلم المصلي بان يتخير من الدعاء ما احب بعد التشهد في اي موضع من القرآن؟ وقد دعا النبي صلى الله عليه وسلم في اول صلاته، وفي الركوع، وعند رفع الراس من الركوع، وفي السجود، وبين السجدتين بالفاظ ليست تلك الالفاظ في القرآن، فجميع ذلك ينص على ضد مقالة من زعم ان صلاة الداعي بما ليس في القرآن تفسدنا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَأَبُو يَحْيَى مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ ، قَالا: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، نا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَكَعَ قَالَ:" اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، أَنْتَ رَبِّي، خَشَعَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَمُخِّي وَعَظْمِي وَعَصَبِي وَمَا اسْتَقَلَّتْ بِهِ قَدَمَيَّ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ" ، جَمِيعُهُمَا لَفْظًا وَاحِدًا، غَيْرُ أَنَّ مُحَمَّدًا، قَالَ: قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، وَقَالَ:" وَعِظَامِي". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَخَبَرُ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ مِنْ هَذَا الْبَابِ. وَكَذَلِكَ خَبَرُ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَائِشَةَ، وَفِي خَبَرِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَأَمَّا السُّجُودُ فَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ"، مَا بَانَ وَثَبَتَ أَنَّ لِلْمُصَلِّي فَرِيضَةً أَنْ يَدْعُوَ أَوْ يَجْتَهِدَ فِي سُجُودِهِ، وَإِنْ كَانَ مَا يَدْعُو بِهِ لَيْسَ مِنَ الْقُرْآنِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا خَاطَبَهُمْ بِهَذَا الأَمْرِ، وَهُمْ فِي مَكْتُوبَةٍ يُصَلُّونَهَا خَلْفَ الصِّدِّيقِ، لا فِي تَطَوُّعٍ، وَفِي خَبَرِ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ، وَعَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ"، فَذَكَرَ الدُّعَاءَ بِتَمَامِهِ، مَا بَانَ وَثَبَتَ أَنَّ الدُّعَاءَ فِي الصَّلاةِ الْمَكْتُوبَةِ، وَإِنْ لَيْسَ ذَلِكَ الدُّعَاءُ فِي الْقُرْآنِ جَائِزٌ، لا كَمَا قَالَ مَنْ زَعَمَ: أَنَّ مَنْ دَعَا فِي الْمَكْتُوبَةِ بِمَا لَيْسَ فِي الْقُرْآنِ فَسَدَتْ صَلاتُهُ حَتَّى زَعَمَ أَنَّ مَنْ قَالَ: لا حَوْلَ وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ فِي الْمَكْتُوبَةِ فَسَدَتْ صَلاتُهُ، وَزَعَمَ أَنَّهُ لَيْسَ فِي الْقُرْآنِ: لا حَوْلَ، وَزَعَمَ أَنَّهُ إِنِ انْفَرَدَ، فَقَالَ: لا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ جَازَ، لأَنَّ فِي الْقُرْآنِ لا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ، فَيُقَالَ لَهُ فَهَذِهِ الأَلْفَاظُ الَّتِي ذَكَرْنَاهَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي افْتِتَاحِ الصَّلاةِ فِي الرُّكُوعِ: وَمَا سَنَذْكُرُهُ بِمَشِيئَةِ اللَّهِ وَإِرَادَتِهِ عِنْدَ رَفْعِ الرَّأْسِ مِنَ الرُّكُوعِ، وَفِي السُّجُودِ، وَبَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، وَبَعْدَ الْفَرَاغِ مِنَ التَّشَهُّدِ قَبْلَ السَّلامِ، وَأَمْرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُصَلِّي بِأَنْ يَتَخَيَّرَ مِنَ الدُّعَاءِ مَا أَحَبَّ بَعْدَ التَّشَهُّدِ فِي أَيِّ مَوْضِعٍ مِنَ الْقُرْآنِ؟ وَقَدْ دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَوَّلِ صَلاتِهِ، وَفِي الرُّكُوعِ، وَعِنْدَ رَفْعِ الرَّأْسِ مِنَ الرُّكُوعِ، وَفِي السُّجُودِ، وَبَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ بِأَلْفَاظٍ لَيْسَتْ تِلْكَ الأَلْفَاظُ فِي الْقُرْآنِ، فَجَمِيعُ ذَلِكَ يَنُصُّ عَلَى ضِدِّ مَقَالَةِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ صَلاةَ الدَّاعِي بِمَا لَيْسَ فِي الْقُرْآنِ تَفْسُدُ
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رُکوع کرتے تو یہ دعا پڑھتے، «اللَّهُمَّ لَکَ رَکَعْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ خَشَعَ لَکَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَمُخِّي وَعِظَامِي وَعَصَبِي وَمَاسْتَقَلّتْ بِهٖ قَدَمَيَّ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن» ”اے اللہ، میں نے تیرے لیے رُکوع کیا ہے اور تجھ پر ایمان لایا ہوں، اور میں تیرے لیے فرما نبردار ہوں، تو ہی میرا رب ہے، میرے کان، میری آنکھیں، میرا دماغ، میری ہڈیاں، میرے اعصاب اور جسے میرے قدموں نے اُٹھایا ہوا ہے، ( سب اللہ کے لئے) جُھک گئے ہیں۔“ امام ابوبکر فرماتے ہیں کہ مسروق کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت اسی مسئلے کے متعلق ہے۔ اسی طرح جناب مطرف کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے اور ابراہیم بن عبداللہ بن معبد بن عباس اپنے باپ سے اور وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں اس میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سجود میں خوب محنت سے دعا کرو۔“ اس سے ثابت ہوا کہ فرض نماز پڑھنے والے کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے سجدوں میں دعا مانگے اور دعا میں محنت وکوشش کرے اگرچہ وہ دعائیں قرآن مجید میں موجود نہ ہوں۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اس بات کر حُکم دیا تھا تو وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے فرض نماز پڑھ رہے تھے، وہ نفلی نماز نہیں تھی۔ اور جناب ابن ابی زناد کی روایت میں ہے، جسے وہ اپنی سند سے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فرض نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو «اللهُ أَكْبَرُ» کہتے، پھر اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے پھر یہ دعا پڑھتے، «وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ» ”میں نے اپنا چہرہ اس ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمان و زمین کو پیدا فرمایا ہے۔“ پھر پوری دعا بیان کی۔ اس سے واضح ہو گیا اور ثابت ہو گیا کہ فرض نماز میں یہ دعا جائز ہے اگرچہ دعا قرآن مجید میں نہ ہو۔ اس شخص کے گمان کے برخلاف جو کہتا ہے کہ جس شخص نے فرض نماز میں ایسی دعا مانگی جو قرآن مجید میں موجود نہ ہو تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ اس شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ جس شخص نے فرض نماز میں «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَٰهِ» پڑھا، اس کی نماز فاسد ہو جائے گی، اس کا یہ دعویٰ اس لئے ہے کہ یہ «لَاحَوْلَ» کے الفاظ قرآن مجید میں نہیں ہیں اس کا گمان ہے کہ اگر نمازی صرف «لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَٰهِ» پڑھے تو یہ جائز ہے کیونکہ یہ الفاظ قرآن مجید موجود ہیں۔ اس شخص کو جواب دیا جائے گا کہ یہ الفاظ جو ہم نے ذکر کیے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نماز شروع کرتے وقت اور رُکوع میں پڑھتے تھے، اور وہ الفاظ جو عنقریب ہم اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ سے بیان کریں گے وہ رُکوع سے سر اُٹھاتے وقت، سجدوں میں اور دو سجدوں کے درمیان اور سلام سے پہلے تشہد سے فارغ ہونے کے بعد پڑھے جاتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمازی کو حُکم دینا کہ وہ تشہد کے بعد جو دعا چاہے مانگ لے تو یہ ساری دعائیں قرآن مجید میں کس جگہ ہیں؟ یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے شروع میں، رُکوع میں، رُکوع سے سر اُٹھانے کے بعد، سجدوں میں، اور سجدوں کے درمیان ایسے الفاظ کے ساتھ دعائیں مانگی ہیں جو قرآن مجید میں موجود نہیں ہیں۔ یہ تمام دلائل اس شخص کے دعویٰ کے خلاف نصوص ہیں جو کہتا ہے کہ غیر قرآنی دعائیں مانگنے والے کی نماز فاسد ہو جاتی ہے۔
سیدنا عباس بن سہل ساعدی بیان کرتے ہیں کہ چند انصاری لوگ جمع ہوئے، اُن میں سیدنا سہل بن سعد ساعدی نے ابوحمید کی نماز کا تذکرہ کیا، سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اجازت دو میں تمہیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز) بیان کرتا ہوں کیونکہ میں تم سے زیادہ اسے جانتا ہوں۔ اُنہوں نے کہا کہ (اگر یہ بات ہے) تو بیان کرو، اُنہوں نے فرمایا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین وضو کیا۔ پھر نماز میں داخل ہوئے اور «اللهُ أَكْبَرُ» کہتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اُٹھائے، پھر رُکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھ دونوں گُھٹنوں پر ایسے رکھے جیسے اُن دونوں کو پکڑ رکھا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر نہ بہت اُٹھا کر رکھا اور نہ بہت جٗھکایا، اپنے دونوں بازوؤں کو اپنے پہلوؤں سے الگ رکھا، پھر اپنا سر اُٹھایا تو بالکل سیدھے کھڑے ہو گئے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہڈی اپنی جگہ لوٹ گئی۔ پھر باقی حدیث بیان کی۔ تمام لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اسی طرح تھی۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ بیشک میں نے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، تمہیں (ویسی ہی) نماز پڑھانے میں کوئی کمی و کوتاہی نہیں کرتا۔ سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا انس جو (دوران نماز کچھ اعمال) کرتے تھے، میں تمہیں وہ اعمال کرتے ہوئے نہیں دیکھتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب رُکوع سے اپنا سر اُٹھاتے تو (دیر تک) سیدھے کھڑے ہو جاتے حتیٰ کے ہم (دل میں) کہتے کہ وہ بھول گئے ہیں۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رُکوع، رُکوع سے سر اٗٹھانا (قیام) سجدہ، اور دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا تقریباً برابر ہوتا تھا۔ یہ وکیع کی حدیث ہے۔ امام صاحب اپنے استاد محترم جناب احمد بن المقدام کی سند سے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے کہ اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رُکوع، رُکوع سے سر اُٹھانے (کے بعد قیام) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجود اور دو سجدوں کے درمیان (بیٹھنا) تقریباً برابر ہوتا تھا۔