سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اُنہیں بیان فرمایا کہ چار کاموں سے غسل کیا جائے گا: (1) جنابت سے (2) جمعہ کے دن (3) میّت کو غسل دینے سے (4) سینگی لگوا نے سے۔
سیدنا عبید اللہ بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کی کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے متعلق بیان نہیں کریں گی؟ اُنہوں نے فرمایا کہ کیوں نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟“ ہم نے عرض کی کہ نہیں۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لئے ٹب میں پانی رکھو“ وہ کہتی ہیں کہ تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم کی تعمیل کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (جانے کے لئے) کھڑے ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیہوشی طاری ہو گئی- پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ ہوا تو دریافت فرمایا: ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ میرے لیے ٹب میں پانی رکھو“ تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم کی تعمیل کی (اور پانی رکھ دیا)، فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا پھر کھڑے ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آیا تو پوچھا: ”کیا لوگوں نے نماز ادا کر لی ہے؟“ ہم نے عرض کی کہ نہیں، اے اللہ کے رسول، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرہے ہیں۔ وہ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) کہتی ہیں، اور لوگ مسجد میں بیٹھے عشاء کی نماز کےلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کررہے تھے۔ پھر مکمّل حدیث بیان کی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیماری میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تھے، فرمایا: ”مُجھ پر سات مشکیزوں سے پانی ڈالو جن کے سر بندھن کھولے نہ گئے ہوں۔ شاید کہ میں سکون پاؤں تو لوگوں کو وصیت کروں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے تانبے کے ٹب میں بٹھایا اور ان مشکیزوں میں سے پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرڈالا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کرنے لگے کہ تم نے تعمیل ارشاد کردی ہے۔ (یعنی رُک جاؤ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لےگئے، اما م صاحب اپنے استاد محمد بن یحییٰ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں مگر اُنہوں نے «من نحاس» ”پیتل کا ٹب“ نہیں کہا، لیکن اُنہوں نے یہ روایت بیشک حضرت عروہ ہی سے بیان کی ہے۔ (جبکہ پچھلی سند میں عروہ یا عمرہ سے بیان کیا تھا)۔
حضرت عبداللہ بن ابی قیس رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں کیسے سوتے تھے؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر طرح کرلیا کرتے تھے، بعض اوقات غسل کر کے سو جاتے اور بعض دفعہ وضو کر کے سو جاتے۔ امام صاحب اپنے استاد نصر بن بحر خولانی سے حضرت عبد بن ابی قیس رحمہ اللہ ہی روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نےکہا، بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتےاور غسل کرنے سے پہلے سو جاتے۔ تو میں نے کہا کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے اس کام میں وُسعت و سہولت رکھی ہے۔
سیدنا عمروہ بن عبسہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ابتدائی ایّام میں حاضر ہوا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ میں تشریف فرما تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خفیہ دعوت دینے میں مصروف تھے۔ تو میں نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نبی ہوں۔“ میں نے کہا کہ نبی کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(نبی) اللہ کا رسول ہوتا ہے۔“ میں نے عرض کی کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ میں نے پوچھا کہ (اللہ تعالیٰ نے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس چیز کے ساتھ بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(مُجھے اللہ تعالیٰ نے یہ حُکم دیکر بھیجا ہے کہ) ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، بُتوں کو توڑدیں اور بُت خانے برباد کردیں اور صلہ رحمی کریں۔“ میں نے کہا کہ (اللہ تعالیٰ نے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاندار دعوت دے کر بھیجا ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت کوکس نےقبول کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آزاد مرد اور ایک غلام نے قبول کی ہے۔ یعنی سیدنا ابوبکر اور بلال رضی اللہ عنہما نے۔“ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ میں اپنے آپ کو چوتھا مسلمان سمجھتا ہوں۔ کہتے میں کہ میں مسلمان ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول میں (مکّہ مکرّمہ میں رہ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، (ابھی) اپنی قوم میں چلے جاؤ، پھر جب تمہیں خبر ملے کہ میں (غالب آ گیا ہوں اور) منظر عام پر آ گیا ہوں تو میری پیروی کرنا۔“ کہتے ہیں: میں اپنی قوم میں چلا گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبے اور منظر عام پر آنے کا انتظار کرنے لگا۔ حتیٰ کہ یثرب سے ایک قافلہ آیا تو میں اُنہیں ملا اور اُن سے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی) خبر کے متعلق پوچھا۔ تو اُنہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرمہ سے مدینہ منوّرہ چلے گئے ہیں۔ تو میں نے کہا، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچ گئے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں، کہتے ہیں کہ میں (مدینہ منوّرہ کی طرف) روانہ ہوا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گیا- میں نے عرض کی کہ یا رسول الله، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پہچانتے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں تُو وہی شخص ہے جومکّہ مکرّمہ میں میرے پاس آیا تھا۔“ تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےتنہائی میں ملنے کا موقع تلاش کرنے لگا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا ہوئے تو میں نے عرض کی کہ اللہ کے رسول، مجھےوہ علم سکھا دیجیے جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالی نے سکھایا ہے، اور میں تو جاہل شخص ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چاہو پوچھو“ میں نے پوچھا کہ رات کا کون سا حصّہ زیادہ قبولیت والا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کا آخری پہر (زیادہ قبولیت والا ہے) تم جتنی چاہو نماز پڑھو۔ کیونکہ (اُس وقت) نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور وہ لکھی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ تم صبح کی نماز ادا کرلو، پھر سورج طلوع ہونے تک رُکے رہو، حتیٰ کہ وہ ایک یا دو نیزوں کے برابر بلند ہو جائے، کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور کافر اُس کی پُوجا کرتے ہیں۔ پھر جتنی چاہو نماز پڑھو کیونکہ (اُس وقت) نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور وہ لکھی جاتی ہے یعنی اُس کا ثواب نمازی کے لئے لکھا جاتا ہے) حتیٰ کہ نیزہ اپنے سائے کے برابر ہو جائے پھر (نماز پڑھنے سے) رُک جاؤ کیونکہ (اُس وقت) جہنم بھڑکائی جاتی ہے اور اُس کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ پھر جب سورج ڈھل جائے تو جتنی چاہو نماز پڑھ لو کیونکہ نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور وہ لکھی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ تم عصر کی نماز پڑھ لو۔ پھر سورج غروب ہونے لگے تو (نماز پڑھنا) چھوڑ دو کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور (اُس وقت) کافر اُس کی پوجا کرتے ہیں۔ اور جب تم وضو کرو تو اپنے ہاتھوں کو دھولو کیونکہ جب تم اپنے ہاتھ دھوؤ گے تو تمہارے گناہ اُنگلیوں کے کنارروں سے نکل جائیں گے پھر جب تم اپنا چہرہ دھوؤ گے تو تمہارے گناہ تمہارے چہرے سے نکل جائیں گے۔ پھر جب تم کُلّی کرو گے اور ناک جھاڑو گے تو تمہارے گناہ تمہارے نتھنوں سے نکل جائیں گے۔ پھر جب تم اپنی کہنیاں دھوؤ گے تو تمہارے گناہ تمہاری کلائیوں سے نکل جائیں گے پھر جب تم اپنے سر کا مسح کرو گے تو تمہارے گناہ تمہارے بالوں کے کناروں سے نکل جائیں گے۔ پھر جب تم اپنے پاؤں دھوؤ گے تو تمہارے گناہ تمہارے قدموں سے نکل جائیں گے۔ پھر اگر تم اپنی مجلس میں بیٹھے رہے تو یہ تمہارا وضو سے نصیب ہے (یعنی وضو کا ثواب ملے گا) اور اگر تم نے کھڑے ہو کر اپنے رب کو یاد کیا اور اُس کی حمد ثنا بیان کی، اور دو رکعت نماز اپنے دل کی توجہ سے ادا کی تو تم اپنی خطاؤں سے اسی طرح (پاک صاف) ہو جاؤ گے جس طرح تم اپنی پیدائش کے دن (گناہوں سے پاک صاف) تھے۔“ کہتے ہیں، میں نے کہا کہ اے عمرو، خوب سوچ سمجھ کر بات کرو کیونکہ تم بہت بڑی بات بیان کر رہے ہو۔ اُنہوں نے فرمایا کہ اللہ کی قسم، میں عُمر رسیدہ ہو چُکا ہوں، میری موت کا وقت قریب ہے اور بیشک میں جُھوٹ بولنے سے بے پرواہ ہوں (یعنی مُجھے اس کی ضرورت نہیں) اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمان ایک دو بار سُنا ہوتا تو میں اسے بیان نہ کرتا لیکن میں نے اسے کئی بار سنا ہے۔ مجھے ابو سلام نے اسی طرح ابوامامہ سے بیان کیا ہے۔ سوائے اس کے کہ میں کسی چیز میں بلا ارادہ غلطی کر جاؤں تو میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اُس سے توبہ کرتا ہوں۔