والدليل على ان الماسح للقدمين التارك لغسلهما مستوجب للعقاب بالنار، إلا ان يعفو الله ويصفح- نعوذ بالله من عقابه-.وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الْمَاسِحَ لِلْقَدَمَيْنِ التَّارِكَ لِغَسْلِهِمَا مُسْتَوْجِبٌ لِلْعِقَابِ بِالنَّارِ، إِلَّا أَنْ يَعْفُوَ اللَّهُ وَيَصْفَحَ- نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عِقَابِهِ-.
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ پاؤں کو دھونے کی بجائے اُن کا مسح کرنے والا آگ کے عذاب کا مستحق ہے۔ سوائے اس کے کہ اللہ تعالی معاف فرمادے اور درگزر کرے، ہم اللہ تعالی کے عذاب سے اُس کی پناہ مانگتے ہیں۔
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیھچے رہ گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس پہنچے اور ہمیں عصر کی نماز نے جلدی میں ڈال دیا تھا اور ہم (جلدی جلدی) وضو کر رہے تھے۔ ہم اپنے قدموں کا مسح کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر کہ ہم پاؤں پوری طرح دھونے کے بجائے اُن کا مسح کر رہے ہیں) دو یا تین بار بآوازِ بلند فرمایا: ”(خشک رہ جانے والی) ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔“ یہ عفان بن مسلم کی حدیث ہے۔
حضرت ابووائل شقیق بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو تین تین بار وضو کرتے ہوئے دیکھا، اور اپنے سر اور اپنے دونوں کانوں کے اندرونی اور بیرونی حصّےکا مسح کیا، اوراپنے دونوں قدم تین تین باردھوئے، اوراپنی اُنگلیاں دھوئیں، اپنی داڑھی کا خلال کیا، اور اپنا چہرہ دھویا، اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس طرح (وضو) کرتے ہوئے دیکھا ہے جیسے تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
قال ابو بكر: قد ذكرنا خبر عثمان بن عفان، عن النبي صلى الله عليه وسلم في تخليل اصابع القدمين ثلاثا.قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ ذَكَرْنَا خَبَرَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَخْلِيلِ أَصَابِعِ الْقَدَمَيْنِ ثَلَاثًا.
امام ابو بکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم پاؤں کی اُنگلیوں کے تین بار خلال کے متعلق سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بیان کر چکے ہیں۔
سیدنا لقیط بن صبره رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، مجھے وضو کے متعلق بیان فرمایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مکمّل وضو کرو، اُنگلیوں کا خلال کرو، اور اگر تم روزے کی حالت میں نہ ہو تو ناک میں اچھی طرح پانی ڈالو۔“
قال ابو بكر: خبر عثمان بن عفان وعلي بن ابي طالب في صفة وضوء النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثا ثلاثا.قَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَبَرُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي صِفَةِ وُضُوءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا.
امام ابو بکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین تین بار وضو کرنے کی کیفیت کے متعلق سیدنا عثمان بن عفان اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم کی احادیث (ذکر ہو چکی) ہیں۔
والدليل على ان غاسل اعضاء الوضوء مرة مرة مؤد لفرض الوضوء؛ إذ غاسل اعضاء الوضوء مرة مرة واقع عليه اسم غاسل، والله- عز وجل- امر بغسل اعضاء الوضوء بلا ذكر توقيت، وفي وضوء النبي صلى الله عليه وسلم مرة مرة، ومرتين مرتين، وثلاثا ثلاثا وغسل بعض اعضاء الوضوء شفعا، وبعضه وترا دلالة على ان هذا كله مباح، وان كل من فعل في الوضوء ما فعله النبي صلى الله عليه وسلم في بعض الاوقات مؤد لفرض الوضوء؛ لان هذا من اختلاف المباح، لا من اختلاف الذي بعضه مباح وبعضه محظور.وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ غَاسِلَ أَعْضَاءِ الْوُضُوءِ مَرَّةً مَرَّةً مُؤَدٍّ لِفَرْضِ الْوُضُوءِ؛ إِذْ غَاسِلُ أَعْضَاءِ الْوُضُوءِ مَرَّةً مَرَّةً وَاقِعٌ عَلَيْهِ اسْمُ غَاسِلٍ، وَاللَّهُ- عَزَّ وَجَلَّ- أَمَرَ بِغَسْلِ أَعْضَاءِ الْوُضُوءِ بِلَا ذِكْرِ تَوْقِيتٍ، وَفِي وُضُوءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً مَرَّةً، وَمَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ، وَثَلَاثًا ثَلَاثًا وَغَسْلِ بَعْضِ أَعْضَاءِ الْوُضُوءِ شَفْعًا، وَبَعْضِهِ وِتْرًا دِلَالَةٌ عَلَى أَنَّ هَذَا كُلَّهُ مُبَاحٌ، وَأَنَّ كُلَّ مَنْ فَعَلَ فِي الْوُضُوءِ مَا فَعَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ الْأَوْقَاتِ مُؤَدٍّ لِفَرْضِ الْوُضُوءِ؛ لِأَنَّ هَذَا مِنَ اخْتِلَافِ الْمُبَاحِ، لَا مِنَ اخْتِلَافِ الَّذِي بَعْضُهُ مُبَاحٌ وَبَعْضُهُ مَحْظُورٌ.
اور اس دلیل کا بیان کہ اعضائے وضو ایک ایک بار دھونے والے پر بھی غاسل (دھونے والے) کا اطلاق ہوتا ہے۔ اور الله تعالی نے مقدار کے تعین کے بغیر اعضائے وضو کو دھونے کا حکم دیا ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک، دو دو اور تین تین مرتبه اعضائے وضو کو دھونے اور بعض کو جفت اور بعض کو طاق مرتبہ دھونے میں یہ دلیل ہے کہ (وضو میں) یہ سب طریقے جائز ہیں۔ اور جو شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف اوقات میں وضو کے مختلف طریقوں میں سے کسی ایک طریقے پرعمل کرلے وہ فرض وضو کو ادا کرنے والا ہوگا۔ کیونکہ یہ (وضو کے) مباح (طریقوں) کا اختلاف ہے یہ ایسا اختلاف نہیں کہ جس میں بعض (طریقے) مباح ہوں اور بعض ممنوع اور ناجائز ہوں۔