70. اس حدیث کا بیان جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پانی کے ناپاک ہونے کی نفی کے بارے میں مجمل غیر مفسر الفاظ کے ساتھ مروی ہے، اس کے الفاظ عام ہین اور اس سے مراد خاص ہے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے ایک زوجہ محترمہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، میں نے اس (پانی) سے وضو کیا ہے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور فرمایا: ”پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔“ یہ احمد بن مقدام کی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح: صحيح ابي داود: 59، ارواء الغليل: 14، سنن النسائي: كتاب المياه: باب رقم الحديث: 326، مسند احمد: 235/1، 284، 308، وسنن ابي داؤد: رقم: 68، والترمذي: رقم: 65، وابن ماجه: 370»
والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما اراد بقوله: " الماء لا ينجسه شيء " بعض المياه لا كلها، وإنما اراد الماء الذي هو قلتان فاكثر لا ما دون القلتين منهوَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَادَ بِقَوْلِهِ: " الْمَاءُ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ " بَعْضَ الْمِيَاهِ لَا كُلَّهَا، وَإِنَّمَا أَرَادَ الْمَاءَ الَّذِي هُوَ قُلَّتَانِ فَأَكْثَرُ لَا مَا دُونَ الْقُلَّتَيْنِ مِنْهُ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان ”پانی کوکوئی چیز ناپاک نہیں کرتی“ سے بعض پانی مراد لیتے ہیں تمام پانی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد وہ پانی ہے جو «قلتين» یا اس سے زیادہ ہو، «قلتين» ”دومٹکوں“ سے کم پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد نہیں ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پانی کے متعلق پوچھا گیا جس پر چوپائے اور درندے (پانی پینے کے لئے) آتے جاتے رہتے ہیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب پانی دو مٹکے ہو تو وہ ناپاک نہیں ہوتا۔“ یہ موثرہ کی روایت ہے۔ موسٰی بن عبدالرحمٰن نے اپنی روایت میں «حدث» کی بجائے «عن» بیان کیا ہے۔اور «لم يَحْمِلْ الخُبَثَ» کی بجائے «لَم يُنْجِسْهُ شَيٌءُٗ» ”اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی“ کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ (امام صاحب کہتے ہیں) مخرمی نے ہمیں مختصر روایت بیان کی ہے، اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب پانی دو مٹکے ہو تو ناپاک نہیں ہوتا “ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پانی اور اس پر آنے جانے والے پرندوں اور چاپائیوں کے متعلق سوال کا تذکرہ نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح: ارواء الغليل: 23، صحيح ابي داود: 59، 56، سنن الترمذي: كتاب الطهارة: باب منه أخر، رقم الحديث: 67، سنن ابن ماجه: 517، سنن الدارمي: 732، و سنن نسائي: 52، والبيهقي فى الكبرىٰ: رقم: 1162»
وفيه دليل على ان قوله صلى الله عليه وسلم: " الماء لا ينجسه شيء "- لفظ عام مراده خاص على ما بينت قبل- اراد الماء الذي يكون قلتين فصاعداوَفِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ قَوْلَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَاءُ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ "- لَفْظٌ عَامٌّ مُرَادُهُ خَاصٌّ عَلَى مَا بَيَّنْتُ قَبْلُ- أَرَادَ الْمَاءَ الَّذِي يَكُونُ قُلَّتَيْنِ فَصَاعِدًا
اس میں دلیل بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ”پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی“ کے الفاظ عام ہیں جب کہ ان سے مراد خاص ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ آپ کی مراد وہ پانی ہے جو دو مٹکے یا اس سے زیادہ ہو
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”تم میں سےکوئی شخص کھڑے پانی میں غسل نہ کرے جبکہ وہ جنبی ہو۔“ اس نے عرض کی کہ اے ابوہریرہ، پھر وہ کیسے (غسل) کرے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ وہ (اُس میں سے) پانی لے لے (اور با ہر بیٹھ کر غسل کرے)۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم: كتاب الطهارة: باب النهي عن الاغتسال فى الماء الراكد: 283، سنن نسائي: 220، سنن ابن ماجه: 605، و ابن حبان: رقم: 1252، والبيهقي فى الكبرىٰ: رقم: 1063»
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص کھڑے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے کہ پھر اس سے وضو کرے یا اس میں سے پیئے۔“
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح: صحيح ابي داود: 63، سنن ترمذي: كتاب الطهارة: باب ماجاء فى كراهية البول فى الماء الراكد: 68، سنن النسائي: 57، مسند احمد: 7213، وابن حبان: 1248، 1253، وابن ماجه: 344»
والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما امر بغسل الإناء من ولوغ الكلب تطهيرا للإناء، لا على ما ادعى بعض اهل العلم ان الامر بغسله امر تعبد، وان الإناء طاهر والوضوء والاغتسال بذلك الماء جائز، وشرب ذلك الماء طلق مباحوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَمَرَ بِغَسْلِ الْإِنَاءِ مِنْ وُلُوغِ الْكَلْبِ تَطْهِيرًا لِلْإِنَاءِ، لَا عَلَى مَا ادَّعَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْأَمْرَ بِغَسْلِهِ أَمْرُ تَعَبُّدٍ، وَأَنَّ الْإِنَاءَ طَاهِرٌ وَالْوُضُوءُ وَالِاغْتِسَالُ بِذَلِكَ الْمَاءِ جَائِزٌ، وَشُرْبُ ذَلِكَ الْمَاءِ طَلْقٌ مُبَاحٌ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کُتّے کے برتن میں منہ ڈالنے سے اُسے دھونے کا حکم برتن کی پاکیزگی اور صفائی کے لیے ہے، اس لیے نہیں، جیسا کہ بعض علما نے دعویٰ کیا ہے کہ برتن کو دھونے کا حکم امرتعبدی ہے اور برتن پاک ہے، اس پانی سے وضو اور غسل کرنا جائز ہے، اور اس پانی کو پینا مطلقاً جائز ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی شخص کے برتن میں جب کُتّا منہ ڈالدے تو اس کی پاکیزگی یہ ہے کہ اسے سات مرتبہ دھویا جائے۔ پہلی بار مٹی سے۔ (صاف کیا جائے)“ دورقی کی روایت میں ہے «اولھا بتراب» اور قطعی کی روایت میں «اولھا بالتراب» ہے۔”پہلی بار مٹی سے“(دونوں کا معنی ایک ہے۔)
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم: كتاب الطهارة: باب حكم ولوع الكلب: 279، سنن ابي داوٗد: 71، 73، مسند احمد: 265/2، والترمذي: 91، و ابن حبان: 1297»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ”تم میں سے کسی شخص کے برتن میں جب کُتّا منہ ڈال کر پی لے تو اُس کی پاکیزگی اور صفائی یہ ہے کو وہ اُسے سات مرتبہ دھو لے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم: كتاب الطهارة: باب حكم ولوع الكلب: 279، صحيح البخاري: 172، سنن ابي داود: 65، مسند احمد: 245/2، 460، وابن حبان: 1294، والترمذى: 364»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کُتّا کسی برتن سے پی لے تو اس کی پاگیزگی یہ ہے کہ وہ سات بار دھویا جائے، پہلی مرتبا مٹی سے (صاف کیا جائے)“
تخریج الحدیث: «صحيح البخاري: كتاب الوضوء: اذا شرب الكلب فى اناء احدكم به فليغسله سبعا: 172، صحيح مسلم: 279، سنن نسائي: 63، سنن ابن ماجه: 358، مسند احمد: 245/2، 460»