خالد بن حارث اور ابن ادریس دونوں نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی اور ابن ادریس کی حدیث میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچلوا ڈالا۔ (اس طرح بھاری پتھر مارا گیا کہ اس کا سر کچلا گیا
امام صاحب مذکورہ بالا روایت اپنے دو اساتذہ کی سندوں سے، شعبہ کی مذکورہ بالا سند سے بیان کرتے ہیں، ابن ادریس کی حدیث میں یہ ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل ڈالا، کوٹ ڈالا۔
حدثنا عبد بن حميد ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن ايوب ، عن ابي قلابة ، عن انس " ان رجلا من اليهود قتل جارية من الانصار على حلي لها، ثم القاها في القليب ورضخ راسها بالحجارة، فاخذ فاتي به رسول الله صلى الله عليه وسلم: فامر به ان يرجم حتى يموت، فرجم حتى مات "،حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَنَسٍ " أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْيَهُودِ قَتَلَ جَارِيَةً مِنْ الْأَنْصَارِ عَلَى حُلِيٍّ لَهَا، ثُمَّ أَلْقَاهَا فِي الْقَلِيبِ وَرَضَخَ رَأْسَهَا بِالْحِجَارَةِ، فَأُخِذَ فَأُتِيَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُرْجَمَ حَتَّى يَمُوتَ، فَرُجِمَ حَتَّى مَاتَ "،
عبدالرزاق نے کہا: ہمیں معمر نے ایوب سے خبر دی، انہوں نے ابوقلابہ سے اور انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ یہود کے ایک آدمی نے انصار کی ایک لڑکی کو اس کے زیورات کی خاطر قتل کر دیا، پھر اسے کنویں میں پھینک دیا، اس نے اس کا سر پتھر سے کچل دیا تھا، اسے پکڑ لیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے اسے مر جانے تک پتھر مارنے کا حکم دیا، چنانچہ اسے پتھر مارے گئے حتی کہ وہ مر گیا
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی آدمی نے ایک انصاری لڑکی کو زیور کی خاطر قتل کر ڈالا، پھر اسے کنویں میں پھینک دیا، اور اس کا سر پتھر سے کچل دیا، اس کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا، حتی کہ وہ مر جائے، تو اس کے مرنے تک اس کو پتھر مارے گئے۔
) قتادہ نے ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان کچلا ہوا ملا تو لوگوں نے اس سے پوچھا: تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا؟ فلاں نے؟ فلاں نے؟ حتی کہ انہوں نے خاص (اسی) یہودی کا ذکر کیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا۔ یہودی کو پکڑا گیا تو اس نے اعتراف کیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر پتھر سے کچل دیا جائے
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک لڑکی اس حالت میں پائی گئی کہ اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کوٹ ڈالا گیا تھا، تو لوگوں نے اس سے پوچھا، تیرے ساتھ یہ حرکت کس نے کی؟ فلاں نے؟ فلاں نے؟ حتی کہ لوگوں نے ایک یہودی کا نام لیا، تو اس نے سر کے اشارے سے تصدیق کی، یہودی کو پکڑ لیا گیا، تو اس نے اقرار کر لیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی کا سر پتھروں سے کچلنے کا حکم دیا۔
4. باب: جب کوئی دوسرے کی جان یا عضو پر حملہ کرے اور وہ اس کو دفع کرے اور دفع کرنے میں حملہ کرنے والے کی جان یا عضو کو نقصان پہنچے تو اس پر کچھ تاوان نہ ہو گا (یعنی حفاظت خود اختیاری جرم نہیں ہے)۔
Chapter: If a person attacks another person's life and limb, and the other defends himself and kills him or injures him, there is no penalty on him
محمد بن مثنیٰ اور ابن بشار نے کہا: ہمیں محمد بن جعفر نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے قتادہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے زُرارہ سے اور انہوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: یعلیٰ بن مُنیہ یا ابن امیہ ایک آدمی سے لڑ پڑے تو ان میں سے ایک نے دوسرے (کے ہاتھ) میں دانت گاڑ دیے، اس نے اس کے منہ سے اپنا ہاتھ کھینچا اور اس کا سامنے والا ایک دانت نکال دیا۔۔ ابن مثنیٰ نے کہا: سامنے والے دو دانت۔۔ پھر وہ دونوں جھگڑا لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم میں سے کوئی (دوسرے کو) اس طرح (دانت) کاٹتا ہے جیسے سانڈ کاٹتا ہے؟ اس کی کوئی دیت نہیں ہے
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ یعلیٰ بن منیہ یا ابن امیہ ایک آدمی سے لڑ پڑا، تو ایک نے دوسرے کا ہاتھ دانتوں سے چبا ڈالا، اس نے اس کے منہ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، جس سے اس کا سامنے کا دانت گر گیا، اور ابن المثنیٰ کی روایت ہے، اس کے سامنے کے دونوں دانت گر گئے، تو وہ اپنا جھگڑا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں لائے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے ایک سانڈ کی طرح ہاتھ چباتا ہے، اس کے لیے کوئی دیت نہیں ہے۔“
ہشام نے قتادہ سے، انہوں نے زرارہ بن اوفیٰ سے اور انہوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک آدمی نے دوسرے کی کلائی کو دانتوں سے کاٹا، اس نے اسے کھینچا تو اس (کاٹنے والے) کا سامنے والا دانت گر گیا، یہ مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے اس (نقصان) کو رائیگاں قرار دیا اور فرمایا: "کیا تم اس کا گوشت کھانا چاہتے تھے
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کا ہاتھ (کلائی) کاٹ لیا، اس شخص نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، جس سے اس کا سامنے کا دانت گر گیا، مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رائیگاں قرار دیا اور فرمایا: ”کیا تم یہ چاہتے تھے کہ اس کا گوشت کھا لو۔“
بدیل نے عطاء بن ابی رباح سے اور انہوں نے صفوان بن یعلیٰ سے روایت کی کہ یعلیٰ بن منیہ رضی اللہ عنہ کا ایک ملازم تھا کسی آدمی نے اس کی کلائی کو دانتوں سے کاٹا، اس نے اسے کھینچا تو اس کا سامنے والا دانت گر گیا، معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک لایا گیا تو آپ نے اسے رائیگاں قرار دیا اور فرمایا: "تم چاہتے تھے کہ اسے (اس کی کلائی کو اس طرح) چبا ڈالو جس طرح سانڈ چناتا ہے۔"
حضرت صفوان بن یعلیٰ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ یعلیٰ بن منیہ کے اجیر کا ایک آدمی نے ہاتھ (کلائی) چبایا، تو اس نے اسے کھینچ لیا، جس سے کاٹنے والے کا سامنے کا دانت گر گیا، مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو رائیگاں قرار دیا، اور فرمایا: ”تو نے چاہا اس کو چباتا رہے، جس طرح اونٹ چباتا ہے۔“
حدثنا احمد بن عثمان النوفلي ، حدثنا قريش بن انس ، عن ابن عون ، عن محمد بن سيرين ، عن عمران بن حصين " ان رجلا عض يد رجل، فانتزع يده فسقطت ثنيته او ثناياه، فاستعدى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما تامرني تامرني ان آمره ان يدع يده في فيك تقضمها كما يقضم الفحل، ادفع يدك حتى يعضها ثم انتزعها ".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ النَّوْفَلِيُّ ، حَدَّثَنَا قُرَيْشُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ " أَنَّ رَجُلًا عَضَّ يَدَ رَجُلٍ، فَانْتَزَعَ يَدَهُ فَسَقَطَتْ ثَنِيَّتُهُ أَوْ ثَنَايَاهُ، فَاسْتَعْدَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَأْمُرُنِي تَأْمُرُنِي أَنْ آمُرَهُ أَنْ يَدَعَ يَدَهُ فِي فِيكَ تَقْضَمُهَا كَمَا يَقْضَمُ الْفَحْلُ، ادْفَعْ يَدَكَ حَتَّى يَعَضَّهَا ثُمَّ انْتَزِعْهَا ".
محمد بن سیرین نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کے ہاتھ کو دانتوں سے کاٹا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو اس کا سامنے والا ایک یا دو دانت گر گئے، اس پر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم مجھ سے کیا کہتے ہو؟ تم مجھے یہ کہتے ہو کہ میں اسے یہ کہوں: وہ اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں دیا اور تم اس طرح اسے چباؤ جس طرح سانڈ چباتا ہے؟ تم بھی اپنا ہاتھ (اس کے منہ کی طرف) بڑھاؤ حتی کہ وہ اسے کاٹنے لگے، پھر تم اسے کھینچ لینا
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے کا ہاتھ دانتوں سے چبایا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، تو اس کا سامنے کا ایک دانت یا دونوں ٹوٹ گئے، (گر گئے) تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو مجھے کیا مشورہ یا ہدایت دیتا ہے، یہ مشورہ دیتا ہے کہ میں اسے حکم دوں، وہ اپنا ہاتھ تیرے منہ میں رہنے دیتا اور تو اسے کاٹتا رہتا، جس طرح اونٹ چباتا ہے؟ اپنا ہاتھ اس کے منہ میں رکھ تاکہ وہ اسے چبائے، پھر اس کو کھینچ لینا۔“
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا همام ، حدثنا عطاء ، عن صفوان بن يعلى بن منية ، عن ابيه ، قال: " اتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل وقد عض يد رجل، فانتزع يده فسقطت ثنيتاه يعني الذي عضه، قال فابطلها النبي صلى الله عليه وسلم وقال: اردت ان تقضمه كما يقضم الفحل ".حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا عَطَاءٌ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى بْنِ مُنْيَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ وَقَدْ عَضَّ يَدَ رَجُلٍ، فَانْتَزَعَ يَدَهُ فَسَقَطَتْ ثَنِيَّتَاهُ يَعْنِي الَّذِي عَضَّهُ، قَالَ فَأَبْطَلَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: أَرَدْتَ أَنْ تَقْضَمَهُ كَمَا يَقْضَمُ الْفَحْلُ ".
ہمام نے کہا: ہمیں عطاء نے صفوان بن یعلیٰ بن منیہ سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا اور اس نے کسی دوسرے آدمی کے ہاتھ پر دانتوں سے کاٹا تھا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو اس، یعنی جس نے کاٹا تھا، کے سامنے والے دو دانت نکل گئے، کہا: تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رائیگاں قرار دیا اور فرمایا: "تم یہ چاہتے تھے کہ اسے اس طرح چباؤ جس طرح سانڈ چباتا ہے؟"
حضرت یعلیٰ بن منیہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، اور وہ ایک دوسرے آدمی کا ہاتھ چبا چکا تھا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تھا، جس کی بنا پر (کاٹنے والے) کے دونوں سامنے کے دانت گر گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ کو رائیگاں قرار دیا، اور فرمایا: ”تو نے چاہا، اس کا ہاتھ چباتے رہتا، جس طرح سانڈھ یا اونٹ چباتا ہے؟“