سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے جاتے تو (لوگوں سے) دور چلے جاتے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح: صحيح ابي داود 1، الصحيحه: 1159، سنن النسائي: كتاب الطهارة، باب الابعاد عند ارادة الحاجة، رقم الحديث: 17، سنن ابي داوٗد: 1، سنن ابن ماجه: 31، والترمذي: رقم: 20، واحمد: 248/4، والدارمي: رقم: 660، من طريق محمد بن عمرو»
سیدنا عبدالرحمٰن بن ابو قراد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کے لیے) نکلا، (ایک دفعہ) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے (حا جت پوری کرنےکےبعد) نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائےحاجت کا ارادہ کرتے تھے تو (لوگوں سے) دور تشریف لے جاتے تھے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح: صحيح ابي داوٗد: 11، سنن النسائى: كتاب الطهارة باب الابعاد عند ارادة الحاجة، رقم: 16، وفي الكبرىٰ: رقم: 17، سنن ابن ماجه: 334، مسند احمد: 443/3، 237، 224، وعبد الله بن أحمد فى زيادته على المسند: 224/4»
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلتے ہوئے د یکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے گھورے (کوڑے کرکٹ کے ڈھیر) پر پہنچے تو کھڑے ہوکر پیشاب کرنے لگے۔ جس طرح تم میں سے کوئی شخص پیشاب کرتا ہے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک طرف ہٹنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہو جاؤ“ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوگیا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہوگیا (پھر کھڑا رہا) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (پیشاب کرکے) فارغ ہوگئے۔
تخریج الحدیث: «أحمد: 382/5، 402، من طريق منصور عن أبى وائل، صحيح بخاري: كتاب الوضوء، باب البول عند صاحبه والتستر بالحائط، رقم الحديث: 225، 2471، صحيح مسلم: 273»
حدثنا الحسن بن محمد الزعفراني ، حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا مهدي بن ميمون ، عن محمد بن ابي يعقوب ، عن الحسن بن سعد، عن عبد الله بن جعفر ، قال:" وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم احب ما استتر به في حاجته هدفا او حائش نخل" . قال ابو بكر: سمعت محمد بن ابان، يقول: سمعت ابن إدريس، يقول: قلت لشعبة: ما تقول في مهدي بن ميمون؟ قال: ثقة، قلت: فإنه اخبرني عن سلم العلوي، قال: رايت ابان بن ابي عياش عند انس بن مالك يكتب في سبورجة، قال: سلم العلوي الذي كان يرى يعني الهلال قبل الناس؟ قال ابو بكر: ومحمد بن ابي يعقوب هو محمد بن عبد الله بن ابي يعقوب، نسبه إلى جده هو الذي قال عنه شعبة: حدثني محمد بن ابي يعقوب سيد بني تميمحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدَ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ:" وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبَّ مَا اسْتَتَرَ بِهِ فِي حَاجَتِهِ هَدَفًا أَوْ حَائِشَ نَخْلٍ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ أَبَانَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ إِدْرِيسَ، يَقُولُ: قُلْتُ لِشُعْبَةَ: مَا تَقُولُ فِي مَهْدِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ؟ قَالَ: ثِقَةٌ، قُلْتُ: فَإِنَّهُ أَخْبَرَنِي عَنْ سَلْمٍ الْعَلَوِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَانَ بْنَ أَبِي عَيَّاشٍ عِنْدَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ يَكْتُبُ فِي سَبُورُّجَةٍ، قَالَ: سَلْمٌ الْعَلَوِيُّ الَّذِي كَانَ يَرَى يَعْنِي الْهِلالَ قَبْلَ النَّاسِ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، نَسَبُهُ إِلَى جَدِّهِ هُوَ الَّذِي قَالَ عَنْهُ شُعْبَةُ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ سَيِّدُ بَنِي تَمِيمٍ
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کرتے وقت ٹیلے یا کھجوروں کے جھنڈ سے پردہ کرنا پسند کرتے تھے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن ابان کو کہتے ہوئے سنا (وہ کہتے ہیں) میں نے ابن ادریس کو کہتے ہوئے سنا، میں نے شعبہ سے پوچھا کہ آپ مھدی بن میمون کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ (وہ) ثقہ (راوی) ہے۔ میں نےکہا کہ مجھےانہوں نےسلم علوی سے بیان کیا ہے، وہ کہتےہیں کہ میں نےابان بن ابوعیاش کو سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس تختی پر لکھتے ہوئے دیکھا ہے۔ مھدی کہتے ہیں کہ سلم علوی وہ ہیں کہ جو لوگوں سے پہلے چاند دیکھ لیا کرتے تھے۔ اما م ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ محمد بن ابو یعقوب، محمد بن اللہ بن ابویعقوب ہیں۔ وہ (محمد) اپنے دادا (ابویعقوب) کی طرف منسوب ہیں (یعنی انہیں محمد بن عبداللہ کہنے کی بجائے محمد بن ابو یعقوب کہہ دیا جاتا ہے) شعبہ ان کے (دادا کے) متعلق کہتے ہیں کہ مجھے محمد بن ابو یعقوب نے روایت بیان کی جو کہ بنی تمیم کے سردار ہیں۔ (یعنی ابو یعقوب)
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم: كتاب الحيض: باب يستتر به لقضاء الحاجة، رقم: 342، 2429، سنن ابي داود: 2549، سنن ابن ماجه: 340، سنن الدارمي: 663، 755، و احمد: 204/1، 205، وابن حبان: فى صحيحه: 1141، 1412، وابو يعلى: 157/12»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ سیدہ سود بنت زمعہ رضی اللہ عنہا بھاری جسم والی خاتون تھیں۔ وہ جب رات کےوقت قضائےحاجت کےلیےنکلتیں تو(اپنےلمبےقد کی وجہ سے) عورتوں سے ممتاز نظر آتیں (ایک روز) سیدنا عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے اُنہیں دیکھا تو کہا کہ ذرا غور کریں آپ (گھر سے) کیسے نکلتی ہیں۔ الله کی قسم، جب آپ باہر نکلتی ہیں تو آپ ہم پر مخفی نہیں رہتیں۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانا کھا رہے تھے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہڈی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہڈی اپنے ہاتھ سے ابھی رکھی نہیں تھی کہ وحی پوری ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی نے تمہیں اپنی ضروریات کے لیے (گھر سے باہر) نکلنےکی اجازت دی ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: كتاب تفسير القرآن، باب قوله: لا تدخلوا بيوت النبى الا ان يؤذن لكم الى طعامه، حديث: 2795، صحيح مسلم: 2170، رقم الحديث: مسند احمد: 56/6، وابو يعلى: 408/7، رقم الحديث: 23155»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرمہ یا مدینہ منوّرہ کے باغوں میں سے کسی باغ کے پاس سے گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انسانوں کی آواز سنی جنہیں اُن کی قبروں میں عذاب دیا جارہا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دونوں کوعذاب دیا جارہا ہےاور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے، انہیں عذاب نہیں دیا جارہا۔“ پھر فرمایا: ”کیوں نہیں (بڑے گناہ ہی کی وجہ سے انہیں عذاب دیا جارہا ہے) ان میں سے ایک اپنے پیشاب سے بچا نہیں کرتا تھا۔ اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ٹہنی منگوائی اور اُسے (چیر کر) دو حصّے کردیا۔ پھر ہر قبر پر ایک ایک ٹکڑا رکھدیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ (اے اللہ کے رسول) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے جب تک یہ ٹہنیاں سوکھ نہ جائیں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: كتاب الوضوء: باب من الكبائر أن لا يستر من بوله، رقم: 216، 218، صحيح مسلم: رقم: 439 , سنن ترمذي: رقم: 65، سنن نسائي: رقم: 31، سنن ابي داوٗد: رقم: 21، سنن ابن ماجه: رقم: 347، مسند احمد: 225/1، من طريق منصور عن مجاهد، سنن دارمي: رقم: 739»
42. پیشاب اور پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے اور پشت کرنے کی ممانعت کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی حدیث کا بیان جس کے الفاظ عام ہیں اور مراد خاص ہے
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پیشاب اور پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف مُنہ کرو نہ اس کی طرف پُشت کرو، لیکن مشرق یا مغرب کی طرف کرلو۔“ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم (ملک) شام آئے تو ہم نے قبلہ رُخ بنے ہوئے بیت الخلاء پائے۔ تو ہم اس سے (قبلہ رُخ سے) مڑ کر (ان بیت الخلاء میں) بیٹھے اور اللہ تعالی سے بخشش ما نگتے۔ یہ عبدالجبار کی روایت کے الفاظ ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: كتاب الصلاة، باب قبلة اهل المدينة واهل الشام والمشرق، رقم: 394، صحيح مسلم: كتاب الطهارة: باب الاستطابة، رقم: 264، سنن نسائي: رقم: 20، 22، سنن ابي داود: رقم: 9، مسند احمد: 421/5، ترمذي: 318، وابن ماجه: 318»
قد يحسب من لم يتبحر في العلم ان البول مستقبل القبلة جائز لكل بائل، وفي اي موضع كان، ويتوهم من لا يفهم العلم، ولا يميز بين المفسر والمجمل ان فعل النبي صلى الله عليه وسلم في هذا ناسخ لنهيه عن البول مستقبل القبلةقَدْ يَحْسَبُ مَنْ لَمْ يَتَبَحَّرْ فِي الْعِلْمِ أَنَّ الْبَوْلَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ جَائِزٌ لِكُلِّ بَائِلٍ، وَفِي أَيِّ مَوْضِعٍ كَانَ، وَيَتَوَهَّمُ مَنْ لَا يَفْهَمُ الْعِلْمَ، وَلَا يُمَيِّزُ بَيْنَ الْمُفَسَّرِ وَالْمُجْمَلِ أَنَّ فِعْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا نَاسِخٌ لِنَهْيِهِ عَنِ الْبَوْلِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ
کم علم شخص اس سے یہ سمجھ سکتا ہے کہ قبلہ کی طرف منہ کرکے پیشاب کرنا ہر شخص کے لیے اور ہر جگہ جائز ہے-علم کی فہم وفراست نہ رکھنے والے اور مفسر ومجمل میں تمیز کرنے والے شخص کو وہم ہو سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل آپ کے قبلہ رخ پیشاب کرنے کی ممانعت کا ناسخ ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قبلہ کی طرف مُنہ کر کے پیشاب کر نے سے منع کیا، پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک سال قبل اس کی طرف منہ (کرکے پیشاب) کرتے ہوئے دیکھا۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح: سنن ترمذى: كتاب الطهارة، باب ماجاء فى من الرخصة فى ذلك، رقم: ٩، سنن ابي داوٗد: كتاب الطهارة: باب الرخصة فى ذلك: رقم: 13، سنن ابن ماجه: رقم: 325، و احبان: موارد رقم: 134، والحاكم: 154/1، ووافقه الذهبي: مسند احمد: 14343»