قد يحسب من لم يتبحر في العلم ان البول مستقبل القبلة جائز لكل بائل، وفي اي موضع كان، ويتوهم من لا يفهم العلم، ولا يميز بين المفسر والمجمل ان فعل النبي صلى الله عليه وسلم في هذا ناسخ لنهيه عن البول مستقبل القبلةقَدْ يَحْسَبُ مَنْ لَمْ يَتَبَحَّرْ فِي الْعِلْمِ أَنَّ الْبَوْلَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ جَائِزٌ لِكُلِّ بَائِلٍ، وَفِي أَيِّ مَوْضِعٍ كَانَ، وَيَتَوَهَّمُ مَنْ لَا يَفْهَمُ الْعِلْمَ، وَلَا يُمَيِّزُ بَيْنَ الْمُفَسَّرِ وَالْمُجْمَلِ أَنَّ فِعْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا نَاسِخٌ لِنَهْيِهِ عَنِ الْبَوْلِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ
کم علم شخص اس سے یہ سمجھ سکتا ہے کہ قبلہ کی طرف منہ کرکے پیشاب کرنا ہر شخص کے لیے اور ہر جگہ جائز ہے-علم کی فہم وفراست نہ رکھنے والے اور مفسر ومجمل میں تمیز کرنے والے شخص کو وہم ہو سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل آپ کے قبلہ رخ پیشاب کرنے کی ممانعت کا ناسخ ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قبلہ کی طرف مُنہ کر کے پیشاب کر نے سے منع کیا، پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک سال قبل اس کی طرف منہ (کرکے پیشاب) کرتے ہوئے دیکھا۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح: سنن ترمذى: كتاب الطهارة، باب ماجاء فى من الرخصة فى ذلك، رقم: ٩، سنن ابي داوٗد: كتاب الطهارة: باب الرخصة فى ذلك: رقم: 13، سنن ابن ماجه: رقم: 325، و احبان: موارد رقم: 134، والحاكم: 154/1، ووافقه الذهبي: مسند احمد: 14343»