سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا پھر کُلّی کی۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الوضوء باب هل يمضمض من اللبن، رقم الحديث: 5609/2، صحيح مسلم: كتاب الحيض باب سخ الوضوء مما مست النار، 357، سنن الترمذى: 82، سنن النسائي: 187، سنن ابي داود: 196، ابن ماجه، رقم: 498، مسند احمد: 1850»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پی کر کُلّی کی اور فرمایا: ”اس میں چکنائی ہوتی ہے۔“ صنعانی کی روایت میں ہے یا ”وہ چکنا ہوتا ہے“ بندار کی روایت میں ہے ”وہ چکنا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الوضوء باب هل يمضمض من اللبن، رقم الحديث: 211، 5609، صحيح مسلم: 358، سنن ابي داود: 196، سنن الترمذي: 88، سنن النسائي: 187، احمد: 233/1، 227، 329، 373»
من ان عينيه إذا نامتا لم يكن قلبه ينام، ففرق بينه وبينهم في إيجاب الوضوء من النوم على امته دونه عليه السلاممِنْ أَنَّ عَيْنَيْهِ إِذَا نَامَتَا لَمْ يَكُنْ قَلْبُهُ يَنَامُ، فَفَرَّقَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ فِي إِيجَابِ الْوُضُوءِ مِنَ النَّوْمِ عَلَى أُمَّتِهِ دُونَهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ
کیونکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سوتی ہیں تو دل بیدار رہتا ہے۔ اسی طرح نیند سے وضو واجب ہونے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور اُمّت کے درمیان فرق رکھا ہے۔ اُمّتوں پر نیند سے وضو واجب ہو جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا۔“
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، أحمد: 251/1، 438، وابن حبان فى صحيحة: 6386، و ابن الجارود فى المنتقى: 16/1، رقم: 12، من طريق يحيىٰ بن سعيد عن ابن عجلان، الجامع الصغير: 2367»
حدثنا يونس بن عبد الاعلى الصدفي ، اخبرنا ابن وهب ، ان مالكا حدثه، عن سعيد المقبري ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، اخبره انه سال عائشة : كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت: ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة يصلي اربعا، فلا تسال عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي اربعا فلا تسال عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا، قالت عائشة: فقلت: يا رسول الله، اتنام قبل ان توتر؟ فقال:" يا عائشة، إن عيني تنامان ولا ينام قلبي" حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّدَفِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَنَّ مَالِكًا حَدَّثَهُ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ : كَيْفَ كَانَتْ صَلاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاثًا، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ؟ فَقَالَ:" يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلا يَنَامُ قَلْبِي"
سیدنا ابو سلمہ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (تہجد) کی کیفیت کے متعلق پوچھا؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک یا رمضان المبارک کے علاوہ (کسی اور مہینے میں) گیارہ رکعات سے زیادہ ادا نہیں کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعتیں ادا کرتے، ان کی عمدگی اور طوالت کا مت پوچھو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعتیں ادا کرتے ان کی خوبی اور لمبائی کے متعلق مت پوچھو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعتیں ادا کرتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر ادا کرنے سے پہلے سوجاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ، بیشک میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا۔“(وہ بیدار رہتا ہے۔)
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، رقم الحديث: 2013، 1147، 2569، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الليل وعدد ركعات النبى، رقم: 738، سنن الترمذى: 439، سنن النسائي: 1679، سنن ابي داؤد: 1314، مسند احمد: 36/6، 73، 104، من طريق مالك عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي سلم، رقم: 7411»