حدثنا محمد بن العلاء بن كريب الهمداني ، حدثنا يونس بن بكير ، حدثنا محمد بن إسحاق ، حدثني صدقة بن يسار ، عن ابن جابر ، عن جابر بن عبد الله . ح وحدثنا محمد بن عيسى ، حدثنا سلمة يعني ابن الفضل ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني صدقة بن يسار ، عن عقيل بن جابر ، عن جابر بن عبد الله ، قال:" خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة ذات الرقاع من نخل، فاصاب رجل من المسلمين امراة رجل من المشركين، فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم قافلا، اتى زوجها وكان غائبا، فلما اخبر الخبر حلف لا ينتهي حتى يهريق في اصحاب محمد دما، فخرج يتبع اثر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنزل رسول الله منزلا، فقال: من رجل يكلؤنا ليلتنا هذه؟ فانتدب رجل من المهاجرين ورجل من الانصار، فقالا: نحن يا رسول الله؟ قال: فكونا بفم الشعب، قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه قد نزلوا إلى الشعب من الوادي، فلما ان خرج الرجلان إلى فم الشعب، قال الانصاري للمهاجري: اي الليل احب إليك ان اكفيكه، اوله او آخره؟ قال: بل اكفني اوله، قال: فاضطجع المهاجري، فنام، وقام الانصاري يصلي، قال: واتى زوج المراة، فلما راى شخص الرجل عرف انه ربيئة القوم، قال: فرماه بسهم فوضعه فيه، قال: فنزعه فوضعه وثبت قائما يصلي، ثم رماه بسهم آخر فوضعه فيه، قال: فنزعه فوضعه وثبت قائما يصلي، ثم عاد له الثالثة فوضعه فيه فنزعه فوضعه، ثم ركع وسجد ، ثم اهب صاحبه، فقال: اجلس فقد اثبت فوثب، فلما رآهما الرجل عرف انه قد نذر به، فهرب، فلما راى المهاجري ما بالانصاري من الدماء، قال: سبحان الله، افلا اهببتني اول ما رماك؟ قال: كنت في سورة اقراها، فلم احب ان اقطعها حتى انفدها، فلما تابع علي الرمي ركعت فاذنتك، وايم الله لولا ان اضيع ثغرا امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم بحفظه، لقطع نفسي قبل ان اقطعها او انفدها". هذا حديث محمد بن عيسىحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ بْنِ كُرَيْبٍ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي صَدَقَةُ بْنُ يَسَارٍ ، عَنِ ابْنِ جَابِرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ . ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي صَدَقَةُ بْنُ يَسَارٍ ، عَنْ عُقَيْلِ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ مِنْ نَخْلٍ، فَأَصَابَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ امْرَأَةَ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَافِلا، أَتَى زَوْجُهَا وَكَانَ غَائِبًا، فَلَمَّا أُخْبِرَ الْخَبَرَ حَلَفَ لا يَنْتَهِي حَتَّى يُهَرِيقَ فِي أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ دَمًا، فَخَرَجَ يَتْبَعُ أَثَرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ مَنْزِلا، فَقَالَ: مَنْ رَجُلٌ يَكْلَؤُنَا لَيْلَتَنَا هَذِهِ؟ فَانْتَدَبَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَرَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ، فَقَالا: نَحْنُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: فَكُونَا بِفَمِ الشِّعْبِ، قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ قَدْ نَزَلُوا إِلَى الشِّعْبِ مِنَ الْوَادِي، فَلَمَّا أَنْ خَرَجَ الرَّجُلانِ إِلَى فَمِ الشِّعْبِ، قَالَ الأَنْصَارِيُّ لِلْمُهَاجِرِيِّ: أَيُّ اللَّيْلِ أَحَبُّ إِلَيْكَ أَنْ أَكْفِيَكَهُ، أَوَّلَهُ أَوْ آخِرَهُ؟ قَالَ: بَلِ اكْفِنِي أَوَّلَهُ، قَالَ: فَاضْطَجَعَ الْمُهَاجِرِيُّ، فَنَامَ، وَقَامَ الأَنْصَارِيُّ يُصَلِّي، قَالَ: وَأَتَى زَوْجُ الْمَرْأَةِ، فَلَمَّا رَأَى شَخْصَ الرَّجُلِ عَرَفَ أَنَّهُ رَبِيئَةُ الْقَوْمِ، قَالَ: فَرَمَاهُ بِسَهْمٍ فَوَضَعَهُ فِيهِ، قَالَ: فَنَزَعَهُ فَوَضَعَهُ وَثَبَتَ قَائِمًا يُصَلِّي، ثُمَّ رَمَاهُ بِسَهْمٍ آخَرَ فَوَضَعَهُ فِيهِ، قَالَ: فَنَزَعَهُ فَوَضَعَهُ وَثَبَتَ قَائِمًا يُصَلِّي، ثُمَّ عَادَ لَهُ الثَّالِثَةَ فَوَضَعَهُ فِيهِ فَنَزَعَهُ فَوَضَعَهُ، ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ ، ثُمَّ أَهَبَّ صَاحِبَهُ، فَقَالَ: اجْلِسْ فَقَدْ أُثْبِتُّ فَوَثَبَ، فَلَمَّا رَآهُمَا الرَّجُلُ عَرَفَ أَنَّهُ قَدْ نَذَرَ بِهِ، فَهَرَبَ، فَلَمَّا رَأَى الْمُهَاجِرِيُّ مَا بِالأَنْصَارِيِّ مِنَ الدِّمَاءِ، قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، أَفَلا أَهْبَبْتَنِي أَوَّلَ مَا رَمَاكَ؟ قَالَ: كُنْتُ فِي سُورَةٍ أَقْرَأُهَا، فَلَمْ أُحِبَّ أَنْ أَقْطَعَهَا حَتَّى أُنْفِدَهَا، فَلَمَّا تَابَعَ عَلَيَّ الرَّمْيَ رَكَعْتُ فَأَذَنْتُكَ، وَايْمُ اللَّهِ لَوْلا أَنْ أُضَيِّعَ ثَغْرًا أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِهِ، لَقَطَعَ نَفْسِي قَبْلَ أَنْ أَقْطَعَهَا أَوْ أُنْفِدَهَا". هَذَا حَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى
سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم نے (نجد کے علاقے) نخل پرغزوہ ذات الرقاع میں رسول الله صل اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی۔ (دوران غزوہ) ایک مسلمان نے ایک مُشرک کی بیوی کو قتل کر دیا۔ (غزوہ سے فارغ ہو کر) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لانے لگے تو اُس عورت کا شوہر آ گیا جو کہ (پہلے) موجود نہ تھا۔ جب اُسے (اس کی بیوی کے قتل کے متعلق) بتایا گیا کہ تو اس نے قسم اُٹھائی کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں خون ریزی کئے بغیر باز نہیں آئے گا۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں نکلا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو فرمایا: ”اس رات ہماری حفاظت کون کرے گا؟“(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سن کر) ایک مہاجر صحابی اور ایک انصاری صحابی اس کام کے لیے آمادہ ہوئے، دونوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہم یہ خدمت سرانجام دیں گے۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”تم دونوں گھاٹی کے منہ پر پہرہ دینا۔“ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے صحابہ کرام وادی سے گھاٹی کی طرف اُتر آئے۔ پھر جب دونوں صحابی گھاٹی کے منہ پر پہنچ گئے تو انصاری نے مہاجر سے کہا کہ آپ کو رات کا کونسا حصّہ زیادہ پسند ہے کہ میں اس میں تم کو بے نیاز کردوں، رات کا پہلا حصّہ یا آخری؟ اُس نے کہا کہ مجھے پہلے حصّے میں بے نیاز کرو (یعنی پہلے حصّے میں آرام کرنے کا موقع دے دو) لہٰذا مہاجر صحابی لیٹ کر سو گئے اور انصاری صحابی کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ اسی اثناء میں مقتولہ عورت کا خاوند آگیا، جب اُس نے دور سے انصاری صحابی کا سایہ دیکھا تو پہچان گیا کہ وہ اپنی قوم کے نگران اور پہرے دار ہیں۔ چنانچہ اُس نے اُنہیں تیر مارا جو اْن (کے جسم) میں پیوست ہو گیا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے تیر کو کھینچ کر نکالا اور اسے رکھ دیا۔ اور خود نماز میں مشغول رہے۔ پھر اُس نے دوسرا تیر مارا۔جو پھر اُن (کے جسم) میں پیوست ہو گیا، اُنہوں نے اُسے بھی کھینچ کر نکالا اور رکھ دیا اور خود نماز پڑھتے رہے، اُس نے تیسری بار تیر مارا جو اُن میں پیوست ہو گیا، اُنہوں نے اُسے (جسم سے) اکھاڑا اور (زمین پر) رکھ دیا، پھر رکوع کیا اور سجدہ کیا (نماز مکمل کی) پھرا پنے ساتھی کو جگایا اور کہا کہ اُٹھو، مجھے (تیروں سے) زخمی کر دیا گیا ہے تو وہ (چونک کر) اُٹھ بیٹھے۔ جب اُس (مشرک) نے اُن دونوں کو دیکھا تو سمجھ گیا کہ وہ اس سے خبردار ہوگئے ہیں۔ لہٰذا وہ بھاگ گیا۔ پھر جب مہاجر صحابی نے انصاری کو خون میں لت پت دیکھا تو کہا کہ سبحان اللہ، آپ نے مجھے اُسی وقت کیوں نہ جگا دیا جب اُس نے آپ کو پہلا تیر مارا تھا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ میں ایک ایسی سورت کی تلاوت کر رہا تھا کہ جسے پہلے بھی پڑھا کرتا تھا تو میں نے اُسے مکمل کیے بغیر چھوڑنا پسند نہ کیا۔ لیکن جب اُس نے مجھے مسلسل تیروں کا نشانہ بنایا تو میں نے رُکوع کرلیا اور (نماز مکمل کرکے) آپ کو اطلاع دی۔ اللہ کی قسم، اگر اس سرحد کو ضائع کرنے کا خدشہ نہ ہوتا جس کی حفاظت اور نگہبانی کا حُکم مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے،تو اس سورت کو چھوڑنے یا مکمل کرنے سے پہلے وہ میری جان ختم کر دیتا۔ یہ محمد بن عیسٰی کی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابي داود، كتاب الطهارة، باب الوضوء من الدم، رقم الحديث: 198، مسند احمد: 343/3، من حديث ابن المبارك به ابن حبان موارد، رقم: 1093، الحاكم: 156/1، و واقعة الذهبي، وعلقة البخاري: 280/1، ”فتح الباري“ وسيرت ابن هشام: 9/2، 208، وانظر، تلخيص الحير: 15/1، 116»
سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے اور گندگی کو روندنے سے وضو نہیں کرتے تھے۔ مخزومی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وضو کیا کرتے تھے لیکن گندگی روندنے سے (دوبارہ) وضو نہیں کرتے تھے۔ زُبری کی روایت میں ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تھے تو گندگی روندنےسےوضو نہیں کرتےتھے۔ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں ایک علت ہے، (وہ یہ کہ) اعمش نےیہ حدیث شقیق سے نہیں سنی، میں اسے بروقت سمجھ نہ سکا، (یعنی بوقت روایت یہ علت مجھ سے مخفی رہی) سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ ہی سے دوسری روایت ہے کہ الفاظ اس طرح ہیں کہ ہم نماز میں بالوں اور کپڑوں کو اکٹھا نہیں کیا کرتے تھے (ان کو سنبھالتے نہ تھے بلکہ سجدے کے دوران زمین پر لگنے دیتے تھے) اور نہ گندگی روندنے کے بعد وضو کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، سنن ابي داود، كتاب الطهارة، باب فى الرجل يطأ الاذى برحله، رقم الحديث: 204، سنن ابن ماجه: 477، الحاكم: 139/1، من طريق سفيان من الأعمش»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہڈی یا کہا کہ گوشت کھایا، پھر نماز پڑھی اور (دوبارہ) وضو نہیں کیا۔ ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حماد بن زید کی خبر(حدیث) کی سند متصل نہیں ہے۔ اور ہم نے اس کی روایت میں غلطی کی ہے۔ بیشک ہشام بن عروہ اور محمد بن عمرو بن عطا کے درمیان وہب بن کیسان راوی ہے۔ اسی طرح اس حدیث کو یحییٰ بن سعید اور عبدہ بن سیلمان نے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الحيض، باب نسخ الوضوء مما مست النار، رقم الحديث: 354»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روٹی اور گوشت یا ہڈی کھائی، پھر نماز ادا کی اور (نیا) وضو نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «ابن حبان فى صحيحه: 1133، وابن الجارود فى المنتقى: 22، سنن النسائى، كتاب ترك الوضوء مما غيرت النار، رقم الحديث: 184، مسند احمد: 227/1، 281»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کا شانہ کھایا پھر نماز پڑھی اور نیا (وضو) نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الوضوء، باب من لم يتوضاً من لحم الشاة والسويق، رقم الحديث: 208، صحيح مسلم: 354، سنن ابي داود: 187، مسند احمد: 226/1، موطا مالك: 42، وابن حبان فى صحيحه: 1143، 144، والنسائي فى الكبرى: 4691، الطحاوي فى شرح معاني الآثار: 64/1، من طريق مالك عن زيد بن أسلم»
31. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آگ پر گرم ہونے والی یا اس پر پکنے والی چیز کھا کر وضو نہ کرنا، آگ سے گرم ہونے والی یا اس پر پکنے والی چیز سے آپ کے وضو کرنے کا ناسخ ہے
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پنیر کے ٹکڑے کھا کر وضو کرتے ہوئے دیکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کا شانہ کھایا پھر نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «مسند احم: 389/2، والترمذي فى الشمائل: 176، وابن حبان فى صحيحه: 1151، من طريق سهيل بن أبى صالح عن أبيه»
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دو میں سےآخری عمل آگ پر پکی ہوئی چیز (کھانے) سےوضو نہ کرنا ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، سنن النسائى، كتاب الطهارة، باب ترك الوضوء مما غيرت النار، رقم: 185، سنن ابي داود: 192، كتاب الطهارة باب ترك الوضوء مما مست النار»
سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شانہ کھایا، پھر نماز پڑھی اور پانی کو ہاتھ نہیں لگایا (یعنی نہ ہاتھ دھوئے نہ کلّی وغیرہ کی)
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، الطبراني فى الكبير: 315/23، وفي مسند الشامين: 177/8، سنن ابن ماجه، باب الرخصة فى ذلك، رقم: 491، مسند احمد: 2172»
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قسم کھائی اور اپنی قسم میں کہا کہ مجھے لات کی قسم، اُسے چاہیے کہ «لَا إِلٰهَ إِلَّا الله» ”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ کہے۔ اور جس شخص نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ”آؤ جُوا کھیلیں، تو اُسے چاہیے کہ کوئی چیز صدقہ کرے۔“ امام ابو بکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لات کی قسم اُٹھانے والے اور اپنے ساتھی کو جُوا کھیلنے کا کہنے والے کو نیا وضو کرنے کا حکم نہیں دیا۔ لہٰذا یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ فحش گوئی اور بد کلامی وضو واجب نہیں کرتی، اس شخص کے قول کے برعکس جو کہتا ہے کہ بد کلامی وضو واجب کردیتی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الأيمان والنذور، باب لا يحلف باللات والعزى ولا بالطواغيت، رقم الحديث: 665، 4860، ومسلم، كتاب الأيمان، باب من مخلف باللات والعزى فليقل: لا اله الا الله، رقم: 1647، ابو داؤد، رقم: 3247، الترمذي، رقم: 1545، النسالي رقم: 717، وفى الكبرى: 4698، 10762، وأحمد: 309/2، من طريق الزهدى عن حميد بن عبدالرحمن»