سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ کے رسول، کیا میں بکریوں کا گوشت کھا کر وضو کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو وضو کر لو اور اگر چاہو تو وضو نہ کرو۔“ اُس نے عرض کی کہ کیا اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرو۔“ اُس نے پوچھا کہ کیا میں بکریوں کے باڑے میں نماز ادا کرلوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں (پڑھ لو)“ اُس نے عرض کیا کہ کیا میں اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں علماۓ اہل حدیث کے درمیان اس بات پر اختلاف کا علم نہیں ہے کہ یہ حدیث نقل کے اعتبار سے صحیح ہے- اس روایت کو جعفر بن ابوثور سے اشعث بن ابوشعثاء محاربی اور سماک بن حرب نے بھی روایت کیا ہے۔ اس طرح ان تین اکابر راویوں نے اس حدیث کو جعف بن ابو ثور سے روایت کیا ہے۔ (یعنی عثمان بن عبداللہ، اشعت اور سماک نے یہ روایت بیان کی ہے۔)
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الحيض، باب الوضوء من لحوم الابل، رقم: 360، مسند احمد: 19881»
سیدنا برا بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی کہ کیا میں اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”نہیں“ اُس نے پوچھا کہ کیا میں اُن کے گوشت سے وضو کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ اس نے عرض کی کہ کیا میں بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“(پڑھ سکتے ہو) اُس نے دریافت کیا کہ کیا میں بکریوں کا گوشت (کھانے) سے وضو کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علمائےاہل حدیث کےدرمیان کوئی اختلاف ہمیں معلوم نہیں کہ یہ حدیث بھی نقل کے اعتبار سے صحیح ہےکیونکہ اس کے روای عادل ہیں۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، سنن ابي داؤد، كتاب الطهارة، باب الوضوء من لحوم الابل رقم: 184، الترمذي، كتاب الطهارة، باب ماجاء فى الوضوء من لحوم الابل رقم: 81، وابن ماجه رقم: 494، و أحمد: 288/4، 303، اب الجارود فى المنتقى: 26، من طريق الأعمش»
سیدہ بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا سےروایت ہےکہ انہوں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب تم میں سےکوئی شخص اپنی شرمگاہ کوچھوئےتو اسے وضوکرنا چاہیے۔“ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک شرم گاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو کرنا مستحب ہے میں اسے واجب قرار نہیں دیتا۔ جناب علی بن سعید نسوی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے شرم گاہ کو چھونے سے وضو کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں اسے مستحب سمجھتا ہوں، اسے واجب قرار نہیں دیتا۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، سنن النسائي، كتاب الطهارة، باب الوضوء من مس الذكر، رقم الحديث: 163، سنن ابي داود، الطهارة باب الوضوء من مس الذكر: 181، سنن ابن ماجه: 479، موطا مالك: 87، سنن الدارمي: 726، أحمد 406/6، الحميد: 352»
وسمعت محمد بن يحيى، يقول: نرى الوضوء من مس الذكر استحبابا لا إيجابا بحديث عبد الله بن بدر، عن قيس بن طلق، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم. قال ابو بكر: وكان الشافعي رحمه الله يوجب الوضوء من مس الذكر، اتباعا بخبر بسرة بنت صفوان لا قياسا، قال ابو بكر: وبقول الشافعي اقول، لان عروة قد سمع خبر بسرة منها، لا كما توهم بعض علمائنا ان الخبر واه لطعنه في مروانوَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى، يَقُولُ: نَرَى الْوُضُوءَ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ اسْتِحْبَابًا لا إِيجَابًا بِحَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَدْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَكَانَ الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ يُوجِبُ الْوُضُوءَ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ، اتِّبَاعًا بِخَبَرِ بُسْرَةَ بِنْتِ صَفْوَانَ لا قِيَاسًا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَبِقَوْلِ الشَّافِعِيِّ أَقُولُ، لأَنَّ عُرْوَةَ قَدْ سَمِعَ خَبَرَ بُسْرَةَ مِنْهَا، لا كَمَا تَوَهَّمَ بَعْضُ عُلَمَائِنَا أَنَّ الْخَبَرَ وَاهٍ لِطَعْنِهِ فِي مَرْوَانَ
امام ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن یحییٰ کو فرما تے ہوئے سنا، ہمارے نزدیک سیدنا طلق رضی اللہ عنہ کی حدیث کی وجہ سے شرم گاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو کرنا مستحب ہے، واجب نہیں۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ قیاس کرنے کی بجائے سیدہ بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا کی حدیث کی اتباع کرتے ہوئے مس ذکر سے وضو کو واجب قرار دیتے تھے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں بھی امام شافعی رحمہ اللہ کے فرمان کے مطابق موقف رکھتا ہوں کیونکہ حضرت عروہ نے سیدہ بسرہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث سنی ہے- بعض علماء کے اس توہم کے برعکس جو کہتے ہیں کہ یہ حدیث مروان میں طعن کی وجہ سے ضعیف ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، سنن أبى داؤد، كتاب الطهارة، باب الرخصة فى ذلك، رقم: 183، 182، الترمذي، رقم: 85، وابن ماجه، رقم: 483، أحمد: 22/4، 23»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلا سے (قضائے حاجت کے بعد) نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا لایا گیا۔ صحابہ کرام نے عرض کی کہ کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کا پانی لائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک مجھے وضو کرنے کا حُکم اس وقت دیا گیا ہے جب میں نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوں۔“ دورقی کی روایت میں «الي الصلاة» کی بجائے «للصلاة» لفظ ہے۔ (معنی ایک ہی ہے)
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، سنن ابي داؤد، كتاب الاطعمة، باب فى غسل اليدين عند الطعام، رقم: 3760، الترمذي: 1847، وفى الشمائل: 185 - سنن النسائي: 132، أحمد: 282/1، 359 - من طريق ايوب»