والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما نفى قبول الصلاة لغير المتوضئ المحدث الذي قد احدث حدثا يوجب الوضوء، لا كل قائم إلى الصلاة، وإن كان غير محدث حدثا يوجب الوضوءوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا نَفَى قَبُولَ الصَّلَاةِ لِغَيْرِ الْمُتَوَضِّئِ الْمُحْدِثِ الَّذِي قَدْ أحَدَثَ حَدَثًا يُوجِبُ الْوُضُوءَ، لَا كُلِّ قَائِمٍ إِلَى الصَّلَاةِ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ مُحْدِثٍ حَدَثًا يُوجِبُ الْوُضُوءَ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بے وضو شخص کی نماز کی قبولیت کی نفی کی ہے جس نے وضو واجب کرنے والا حدث کیا ہو (جیسے پیشاب یا پاخانہ وغیرہ) نہ کہ ہر اس شخص کی نماز کی قبولیت کی نفی جو نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور اُس نے وضو واجب کرنے والا کوئی حدث نہیں کیا۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”جب تم میں سےکسی شخص کا وضو ٹوٹ جائے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی، یہاں تک کہ وہ وضو کر لے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح بخارى، كتاب الوضوء، باب لا تقبل صلاة بغير طهور، رقم الحديث: 135، صحيح مسلم، الطهارة، باب وجوب الطهارة للصلاة 225، سنن ترمذي: 7، سنن ابي داود: 60، مسند احمد 308/2، 318، 7732»
10. اس بات کی دلیل کا بیان کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کے لیے کھڑے ہونے والے کچھ لوگوں پر وضو فرض کیا ہے (یعنی جن کا وضو ٹوٹ چکا ہو) نہ کہ ہر نماز پڑھنے والے پر
في قوله: {يا ايها الذين آمنوا إذا قمتم إلى الصلاة فاغسلوا وجوهكم} [المائدة: ٦] الآية، إذ الله جل وعلا ولى نبيه صلى الله عليه وسلم بيان ما انزل عليه خاصا وعاما، فبين النبي صلى الله عليه وسلم بسنته ان الله إنما امر بالوضوء بعض القائمين إلى الصلاة، لا كلهم، كما بين عليه السلام ان الله عز وجل اراد بقوله: {خذ من اموالهم صدقة} [التوبة: ١٠٣] بعض الاموال لا كلها، وكما بين بقسمة سهم ذي القربى بين بني هاشم، وبني عبد المطلب، ان الله اراد بقوله: {ذي القربى} [النساء: ٣٦] بعض قرابة النبي صلى الله عليه وسلم دون جميعهم، وكما بين ان الله اراد بقوله: {والسارق والسارقة فاقطعوا ايديهما} [المائدة: ٣٨] بعض السراق دون جميعهم، إذ سارق درهم فما دونه يقع عليه اسم سارق، فبين النبي صلى الله عليه وسلم بقوله: «القطع في ربع دينار فصاعدا» ، ان الله إنما اراد بعض السراق دون بعض بقوله: {والسارق والسارقة فاقطعوا ايديهما} [المائدة: ٣٨] الآية قال الله عز وجل لنبيه صلى الله عليه وسلم: {وانزلنا إليك الذكر لتبين للناس ما نزل إليهم} [النحل: ٤٤]فِي قَوْلِهِ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ} [المائدة: ٦] الْآيَةَ، إِذِ اللَّهُ جَلَّ وَعَلَا وَلَّى نَبِيَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيَانَ مَا أَنْزَلَ عَلَيْهِ خَاصًّا وَعَامًّا، فَبَيَّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسُنَّتِهِ أَنَّ اللَّهَ إِنَّمَا أَمَرَ بِالْوُضُوءِ بَعْضَ الْقَائِمِينَ إِلَى الصَّلَاةِ، لَا كُلَّهُمْ، كَمَا بَيَّنَ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَرَادَ بِقَوْلِهِ: {خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً} [التوبة: ١٠٣] بَعْضَ الْأَمْوَالِ لَا كُلَّهَا، وَكَمَا بَيَّنَ بِقِسْمَةِ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى ِ بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّ اللَّهَ أَرَادَ بِقَوْلِهِ: {ذِي الْقُرْبَى} [النساء: ٣٦] بَعْضَ قَرَابَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دُونَ جَمِيعِهِمْ، وَكَمَا بَيَّنَ أَنَّ اللَّهَ أَرَادَ بِقَوْلِهِ: {وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا} [المائدة: ٣٨] بَعْضَ السُّرَّاقِ دُونَ جَمِيعِهِمْ، إِذْ سَارِقُ دِرْهَمٍ فَمَا دُونَهُ يَقَعُ عَلَيْهِ اسْمُ سَارِقٍ، فَبَيَّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَوْلِهِ: «الْقَطْعُ فِي رُبْعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا» ، أَنَّ اللَّهَ إِنَّمَا أَرَادَ بَعْضَ السُّرَّاقِ دُونَ بَعْضٍ بِقَوْلِهِ: {وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا} [المائدة: ٣٨] الْآيَةَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ للِنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ} [النحل: ٤٤]
اپنے اس ارشاد گرامی میں «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ» [ سورة المائدة ]”ایمان والو، جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنے چہرے اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھولو، اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت دھولو۔۔۔“ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن پر نازل کردہ ہر خاص و عام حکم کو بیان کرنے والا بنایا ہے لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنّت سے بیان فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نماز پڑھنے والے کو وضو کا حکم نہیں دیا کچھ لوگوں کو حکم دیا ہے (جن کا وضو ٹوٹ چکا ہو) جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت «خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً» [ سورة التوبة ](ان کے اموال سے صدقہ لیجیے) کی تفسیر کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ مال بطور صدقہ (زکٰوۃ) لینے کا حکم دیا ہے سارا نہیں۔ (یعنی زکٰوۃ کی مقررہ مقدار) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت سے قرابت داروں کا حصّہ بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب میں تقسیم کر کے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «وَذِي الْقُرْبَىٰ» [ سورة البقرة ]”اور قرابت داروں کو دو“ کی وضاحت کردی کہ قرابت داروں سے مراد آپ کے بعض رشتہ دار ہیں، سارے نہیں، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ہو «وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا» [ سورة المائدة ]”چور مرد اور چور عورت کے ہاتھ کاٹ دو“ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا مقصود بعض چور ہیں نہ کہ سب چور۔ کیونکہ ایک درھم یا اس سے کم قیمت کی چوری کرنے والے پر بھی لفظ چور کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا: ”چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ قیمت کی چیز چوری کرنے پر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد گرامی «وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا» [ سورة المائدة ] کی وضاحت فرمادی کہ اس سے مراد بعض چور ہیں (جو چوتھائی دینار تک کی چوری کریں) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا «وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ» [ سورة النحل ] یہ ذکر (قرآن مجید) ہم نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف اتارا ہے تا کہ لوگوں کی جانب جو نازل کیا گیا ہے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اسے کھول کھول کر بیان کردیں۔
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے وقت وضو کیا کرتے تھے۔ پھر جب فتح مکّہ کا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا اور ایک ہی وضو سے کئی نمازیں ادا کیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، (آج) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا عمل کیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے نہیں کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر، میں نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے۔“(یہ بتانے کے لیے کہ وضو باقی ہو تو ہر نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔) یہ عبدالرحمان بن مہدی کی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب جواز الصلوات كلها بوضوء واحد، رقم الحديث: 277، سنن ترمذي: 61، نسائي: 132، سنن ابي داود: 172، سنن ابن ماجه: 503، مسند احمد: 350/5، 351، 358، 41888، سنن الدارمي: 659»
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ کے دن کے سوا ہر نماز کے لیے وضو کیا کرتے تھے۔ (اس روز) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشغول ہو گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی وضو سے ظہر اور عصر (کی نمازوں) کو جمع کر کے ادا کیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم، کتاب الطهارة، باب جواز الصلوات كلها بوضوء واحد، رقم الحدیث: 277، سنن ترمذی: 61، سنن ابی داود: 172، سنن نسائی: 133، سنن ابن ماجة: 503، مسند احمد: 41888، سنن الدارمی: 659»
حضرت سلیمان اپنے والد سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کیا کرتے تھے۔ پھر فتح مکہ والے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نمازیں ایک ہی وضو سے ادا کیں۔ امام ابوبکر رحمہ الله فرماتے ہیں کہ معمر اور وکیع کے سوا کسی نے یہ روایت امام سفیان ثوری سے مسند بیان نہیں کی۔ امام سفیان ثوری کے شاگرد معمر اور وکیع کے علاوہ دوسرے راویوں نے یہ روایت امام سفیان سے، انہوں نے محارب سے انہوں نے سلیمان بن بریدہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے۔ جلیل القدر معتمر اور وکیع نے اگرچہ سند اور اس کے اتصال کو حفظ کیا ہے مگر یہ روایت نہایت غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحیح، سنن ابن ماجة، كتاب الطهارة، باب الوض لكل صلاة و الصلوات كلها بوضوء واحد، رقم الحديث: 510، اصله في صحيح مسلم، رقم الحديث: 277»
حضرت محمد بن یحیٰی رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبید اللہ بن عبداللہ بن عمر سے کہا کہ آپ کے خیال میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا پاکی یا ناپاکی (با وضو ہونے یا بے وضو ہونے) کی حالت میں ہر نماز کے لیے وضو کرنا کسی سے مروی ہے؟ عبیداللہ نے فرمایا کہ انہیں اسماء بنت زید بن خطاب نے بیان کیا کہ انہیں سیدنا عبد اللہ بن حنظلہ بن ابی عامر جنہیں فرشتوں نے غسل دیا تھا، (راوی حدیث ان کے بیٹے ہیں بذات خود نہیں) نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پاکی یا ناپاکی کی ہر حالت میں وضو کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ جب یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مشکل ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دے دیا گیا اور (ہر نماز کے لیے) وضو کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ساقط کر دیا گیا، سوائے اس کے کہ آپ کا وضو ٹوٹ جائے (تو پھر وضو کرنا ہو گا)۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ وہ اس کی (ہر نماز کے لیے نئے وضو کی) طاقت رکھتے ہیں چنانچہ انہوں نے موت تک ایسے ہی کیا۔ یہ یعقوب بن ابراہیم کی روایت ہے۔ محمد بن منصور کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: «وَكَانَ يَفعَلُهُ حَتَي مَاتَ» ”وہ فوت ہونے تک اسی طرح عمل کرتے رہے۔“
تخریج الحدیث: «اسناده حسن، سنن ابی داود، کتاب الطهارة، باب السواك، رقم الحديث: 48، مسند احمد: 225/5، رقم الحديث: 20954، الحاكم على شرط مسلم: 156/1، الدارمي رقم: 657، البيهقي، سننه الكبرى: 157، من طريق محمد بن اسحاق»
نزال بن سبرہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اُنہوں نے ظہر کی نماز ادا کی پھر لوگوں کی ضروریات و مسائل کے (حل) کے لیے صحن میں بیٹھ گئے۔ پھر جب عصر کا وقت ہوا تو اُنہوں نے پانی کا برتن منگوایا اور اُس سے اپنے دونوں ہاتھوں، چہرے، سر اور دونوں پاؤں کا مسح کیا (یعنی خوب دھونے کی بجائے ہلکا پھلکا وضو کیا) پھر کھڑے ہو کر باقی ماندہ پانی پی لیا۔ پھر فرمایا کہ کچھ لوگ کھڑے ہوکر پانی پینا ناپسند کرتے ہیں، بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کیا تھا کہ جیسے میں نے کیاہے۔ اور فرمایا تھا کہ ”یہ اس شخص کا وضو ہے جس کا وضو ٹوٹا نہ ہو۔“ نزال بن سمرہ رحمہ اللہ سے مروی دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے دیکھا جیسے میں نے کیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس شخص کا وضو ہے جس کا وضو ٹو ٹا نہ ہو۔“ جناب نزال سے مروی تیسری روایت میں صرف یہ ہے کہ ”یہ اس شخص کا وضو ہے جس کا وضو ٹوٹا نہ ہو۔“
تخریج الحدیث: «اسناده صحیح، سنن نسائی، کتاب الطهارة، باب صفة الوضوء من غير حدث، رقم الحديث: 130، والبغوى مسند ابن الجعد 82/1، والبنا في الفتح الربانى 11/2، من طريق شعبة عن عبدالملك به»