یونس نے ابن شہاب سے، انہوں نے سالم بن عبداللہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آباء و اجداد کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے۔" حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے اس سے منع فرمایا ہے، میں نے نہ (اپنی طرف سے) نہ (کسی کی) پیروی کرتے ہوئے کبھی ان (آباء و اجداد کی) قسم کھائی۔ (آباء و اجداد کی قسم کے الفاظ ہی زبان سے ادا نہیں کیے
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے روکتا ہے کہ تم اپنے آباؤ اجداد کی قسم اٹھاؤ۔“ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، اللہ کی قسم! جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی ممانعت سنی ہے، میں نے یہ قسم اپنی طرف سے یا بطور نقل بھی نہیں اٹھائی۔
عقیل بن خالد اور معمر دونوں نے زہری سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی، البتہ عقیل کی حدیث میں ہے: میں نے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے منع کرتے ہوئے سنا، نہ ان کی قسم کھائی اور نہ ایسی قسم کے الفاظ بولے۔ انہوں نے "نہ اپنی طرف سے نہ کسی کی پیروی کرتے ہوئے" کے الفاظ نہیں کہے
امام صاحب اپنے تین اور اساتذہ کی سند سے زہری ہی سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں، یاں عقیل کی حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں، جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے منع کرتے ہوئے سنا، میں نے یہ قسم نہیں اٹھائی، اور نہ اس کو زبان پر لایا، ذاكرا ولا آثرا
سفیان بن عیینہ نے زہری سے، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سنا، وہ اپنے والد کی قسم کھا رہے تھے۔۔ (آگے) یونس اور معمر کی روایت کے مانند ہے۔
حضرت سالم اپنے باپ (عبداللہ بن عمر) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کو اپنے باپ کی قسم اٹھاتے ہوئے سنا، آگے یونس اور معمر کی طرح مذکورہ بالا روایت بیان کی۔
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث . ح وحدثنا محمد بن رمح واللفظ له، اخبرنا الليث ، عن نافع ، عن عبد الله ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم " انه ادرك عمر بن الخطاب في ركب وعمر يحلف بابيه، فناداهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: الا إن الله عز وجل ينهاكم ان تحلفوا بآبائكم، فمن كان حالفا، فليحلف بالله او ليصمت "،وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّهُ أَدْرَكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فِي رَكْبٍ وَعُمَرُ يَحْلِفُ بِأَبِيهِ، فَنَادَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، فَمَنْ كَانَ حَالِفًا، فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ أَوْ لِيَصْمُتْ "،
لیث نے نافع سے، انہوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ایک قافلے میں پایا اور عمر رضی اللہ عنہ اپنے والد کی قسم کھا رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکار کر فرمایا: "سن رکھو! بلاشبہ اللہ تمہیں منع کرتا ہے کہ تم اپنے آباء و اجداد کی قسم کھاؤ، جس نے قسم کھانی ہے وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک قافلہ میں پایا، اور وہ اپنے باپ کی قسم اٹھا رہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکار کر فرمایا: ”خبردار! اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے روکتے ہیں کہ تم اپنے باپوں کی قسم اٹھاؤ، جس نے قسم اٹھانا ہو، وہ اللہ کی قسم اٹھائے یا چپ رہے۔“
عبداللہ بن نمیر، عبیداللہ، ایوب، ولید بن کثیر، اسماعیل بن امیہ، ضحاک، ابن ابی ذئب اور عبدالکریم، ان سب کے شاگردوں نے ان سے اور انہوں نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی قصے کے مانند بیان کیا
امام صاحب سات اساتذہ کی اسانید سے نافع سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی مذکورہ بالا حدیث نقل کرتے ہیں۔
عبداللہ بن دینار سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے قسم کھانی ہے وہ اللہ کے سوا کسی کی قسم نہ کھائے۔" اور قریش اپنے آباء و اجداد کی قسم کھاتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے آباء و اجداد کی قسم نہ کھاؤ
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قسم اٹھانی ہو، وہ صرف اللہ کی قسم اٹھائے“ اور قریش اپنے باپوں کی قسم اٹھاتے تھے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے باپوں کی قسم نہ اٹھاؤ۔“
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا: مجھے حمید بن عبدالرحمان بن عوف نے بتایا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جس نے حلف اٹھایا اور اپنے حلف میں کہا: لات کی قسم! تو وہ لا الہ الا اللہ کہے اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا: آؤ، جوا کھیلیں تو وہ صدقہ کرے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جس نے قسم اٹھائی، اور قسم لات کی اٹھائی، وہ فورا لا الہ الا اللہ کہے، اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا، آئیے میں تم سے جوا کھلوں، وہ صدقہ کرے۔“
وحدثني سويد بن سعيد ، حدثنا الوليد بن مسلم ، عن الاوزاعي . ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، وعبد بن حميد ، قالا: حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر كلاهما، عن الزهري بهذا الإسناد، وحديث معمر مثل حديث يونس، غير انه قال: فليتصدق بشيء، وفي حديث الاوزاعي: من حلف باللات والعزى، قال ابو الحسين مسلم: هذا الحرف يعني قوله تعالى 0 اقامرك فليتصدق 0 لا يرويه احد غير الزهري، قال: وللزهري نحو من تسعين حديثا يرويه عن النبي صلى الله عليه وسلم لا يشاركه فيه احد باسانيد جياد.وحَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ كِلَاهُمَا، عَنْ الزٌّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَحَدِيثُ مَعْمَرٍ مِثْلُ حَدِيثِ يُونُسَ، غَيْر أَنَّهُ قَالَ: فَلْيَتَصَدَّقْ بِشَيْءٍ، وَفِي حَدِيثِ الْأَوْزَاعِيِّ: مَنْ حَلَفَ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى، قَالَ أَبُو الْحُسَيْنِ مُسْلِمٌ: هَذَا الْحَرْفُ يَعْنِي قَوْلَهُ تَعَالَى 0 أُقَامِرْكَ فَلْيَتَصَدَّقْ 0 لَا يَرْوِيهِ أَحَدٌ غَيْرُ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: وَلِلزُّهْرِيِّ نَحْوٌ مِنْ تِسْعِينَ حَدِيثًا يَرْوِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُشَارِكُهُ فِيهِ أَحَدٌ بِأَسَانِيدَ جِيَادٍ.
اوزاعی اور معمر دونوں نے زہری سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور معمر کی حدیث یونس کی حدیث کے مانند ہے، البتہ انہوں نے کہا: "تو وہ کچھ صدقہ کرے۔" اور اوزاعی کی حدیث میں ہے: "جس نے لات اور عزیٰ کی قسم کھائی۔" ابوحسین مسلم (مؤلف کتاب) نے کہا: یہ کلمہ، آپ کے فرمان: " (جو کہے) آؤ، میں تمہارے ساتھ جوا کھیلوں تو وہ صدقہ کرے۔" اسے امام زہری کے علاوہ اور کوئی روایت نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا: اور زہری رحمۃ اللہ علیہ کے تقریبا نوے کلمات (جملے) ہیں جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جید سندوں کے ساتھ روایت کرتے ہیں، جن (کے بیان کرنے) میں اور کوئی ان کا شریک نہیں ہے
امام صاحب اپنے دو (2) اساتذہ کی سندوں سے اوزاعی اور معمر کے واسطہ سے زہری کی مذکورہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں، اور معمر کی حدیث یونس کی حدیث کی طرح ہے، ہاں یہ فرق ہے، اس نے کہا، ”کچھ صدقہ کرے۔“ اور اوزاعی کی حدیث میں ہے، ”جس نے لات اور عزیٰ کی قسم کھائی۔“ امام ابو الحسین مسلم فرماتے ہیں، یہ لفظ ”کہ آؤ میں تیرے ساتھ جوا کھیلوں۔“ زہری کے سوا کوئی اور راوی بیان نہیں کرتا، اور امام زھری سے تقریبا نوے (90) ایسے کلمات منقول ہیں، جسے سند جید سے کسی اور نے بیان نہیں کیا۔
حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم بتوں کی قسم نہ کھاؤ، نہ ہی اپنے آباء و اجداد کی
حضرت عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بتوں اور اپنے باپوں کی قسم نہ اٹھاؤ۔“
3. باب: جو شخص قسم کھائے کسی کام پر پھر اس کے خلاف کو بہتر سمجھے تو اس کو کرے اور قسم کا کفارہ دے۔
Chapter: It is recommended for the one who swears an oath then sees that something else is better than it; To do that which is better and offer expiation for his oath
حدثنا خلف بن هشام ، وقتيبة بن سعيد واللفظ لخلف، ويحيى بن حبيب الحارثي ، قالوا: حدثنا حماد بن زيد ، عن غيلان بن جرير ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم في رهط من الاشعريين نستحمله، فقال: " والله لا احملكم وما عندي ما احملكم عليه "، قال: فلبثنا ما شاء الله، ثم اتي بإبل فامر لنا بثلاث ذود غر الذرى، فلما انطلقنا قلنا، او قال بعضنا لبعض لا يبارك الله لنا اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم نستحمله، فحلف ان لا يحملنا، ثم حملنا فاتوه فاخبروه، فقال: ما انا حملتكم ولكن الله حملكم، وإني والله إن شاء الله لا احلف على يمين، ثم ارى خيرا منها إلا كفرت عن يميني واتيت الذي هو خير ".حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَاللَّفْظُ لِخَلَفٍ، وَيَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ: " وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ "، قَالَ: فَلَبِثْنَا مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أُتِيَ بِإِبِلٍ فَأَمَرَ لَنَا بِثَلَاثِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى، فَلَمَّا انْطَلَقْنَا قُلْنَا، أَوَ قَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ لَا يُبَارِكُ اللَّهُ لَنَا أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَسْتَحْمِلُهُ، فَحَلَفَ أَنْ لَا يَحْمِلَنَا، ثُمَّ حَمَلَنَا فَأَتَوْهُ فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ: مَا أَنَا حَمَلْتُكُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَمَلَكُمْ، وَإِنِّي وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ، ثُمَّ أَرَى خَيْرًا مِنْهَا إِلَّا كَفَّرْتُ عَنْ يَمِينِي وَأَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ ".
غیلان بن جریر نے ابو بردہ سے اور انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں اشعریوں کی ایک جماعت کے ساتھ تھا۔ ہم آپ سے سواری کے طلبگار تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کی قسم! میں تمہیں سواری مہیا نہیں کروں گا اور نہ میرے پاس (کوئی سواری) ہے جس پر میں تمہیں سوار کروں۔" کہا: جتنی دیر اللہ نے چاہا ہم ٹھہرے، پھر (آپ کے پاس) اونٹ لائے گئے تو آپ نے ہمیں سفید کوہان والے تین (جوڑے) اونٹ دینے کا حکم دیا، جب ہم چلے، ہم نے کہا: یا ہم نے ایک دوسرے سے کہا۔۔ اللہ ہمیں برکت نہیں دے گا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سواری حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے تھے تو آپ نے ہمیں سواری نہ دینے کی قسم کھائی، پھر آپ نے ہمیں سواری دے دی، چنانچہ وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات عرض کی تو آپ نے فرمایا: "میں نے تمہیں سوار نہیں کیا، بلکہ اللہ نے تمہیں سواری مہیا کی ہے اور اللہ کی قسم! اگر اللہ چاہے، میں کسی چیز پر قسم نہیں کھاتا اور پھر (کسی دوسرے کام کو) اس سے بہتر خیال کرتا ہوں، تو میں اپنی قسم کا کفارہ دیتا ہوں اور وہی کام کرتا ہوں جو بہتر ہے
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں اشعریوں کے ایک گروہ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سواری طلب کرنے کی خاطر حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں تمہیں سواری نہیں دوں گا، کیونکہ میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے، جس پر تمہیں سوار کروں۔“ ابو موسیٰ بیان کرتے ہیں، پھر جتنا عرصہ اللہ کو منظور تھا، ہم ٹھہرے رہے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اونٹ لائے گئے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین (جوڑے) سفید کوہان والے اونٹ دینے کا حکم دیا، تو جب ہم لے کر چلے، ہم نے کہا، یا ہم میں سے بعض نے بعض کو کہا، اللہ ہمارے لیے برکت پیدا نہیں فرمائے گا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سواریوں کے حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھائی کہ ہمیں سواری نہیں دیں گے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سواری دے دی ہے، تو وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس بات کا تذکرہ کیا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں سوار نہیں کیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں سوار کیا ہے، اور میں اللہ کی قسم! ان شاءاللہ، کسی چیز پر نہیں اٹھاتا کہ پھر اس کا خلاف کرنا بہتر سمجھوں، تو میں اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں، اور وہ کام کرتا ہوں جو بہتر ہو۔“