امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو غلام گھر میں آجاتا ہو، یا لونڈی آجاتی ہو اور اس کے مالک کو اس پر اعتبار ہو وہ اگر کوئی چیز چرائے اپنے مالک کی تو اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا، اسی طرح جو غلام یا لونڈی آمد و رفت نہ رکھتے ہوں، نہ ان کا اعتبار ہو، وہ بھی اگر اپنے مالک کا مال چرائیں تو ہاتھ نہ کاٹا جائے گا، اور جو اپنے مالک کی بیوی کا مال چرائیں یا اپنی مالکہ کے خاوند کا مال چرائیں تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسی طرح مرد اپنی عورت کے اس مال کو چرائے جو اس گھر میں نہ ہو جہاں وہ دونوں رہتے ہیں، بلکہ ایک اور گھر میں محفوظ ہو، یا عورت اپنے خاوند کے ایسے مال کو چرائے جو اس گھر میں نہ ہو جہاں وہ دونوں رہتے ہیں بلکہ ایک اور گھر میں بند ہو، تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ چھوٹا بچہ یا غیر ملک کا آدمی جو بات نہیں کر سکتا، ان کو اگر کوئی ان کے گھر سے چرا لے جائے تو ہاتھ کاٹا جائے گا، اور جو راہ میں سے لے جائے یا گھر کے باہر سے تو ہاتھ نہ کاٹا جائے گا، اور ان کا حکم پہاڑ کی بکری اور درخت پر لگے ہوئے میوے کا ہوگا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ قبر کھود کر اگر چوتھائی دینار کے موافق کفن چرائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، کیونکہ قبر ایک محفوظ جگہ ہے جیسے گھر، لیکن جب تک کفن قبر سے باہر نکال نہ لے تب تک ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔
وحدثني يحيى، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن محمد بن يحيى بن حبان ، ان عبدا سرق وديا من حائط رجل فغرسه في حائط سيده، فخرج صاحب الودي يلتمس وديه، فوجده، فاستعدى على العبد مروان بن الحكم، فسجن مروان العبد واراد قطع يده، فانطلق سيد العبد إلى رافع بن خديج ، فساله عن ذلك فاخبره، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا قطع في ثمر ولا كثر، والكثر الجمار" . فقال الرجل: فإن مروان بن الحكم اخذ غلاما لي وهو يريد قطعه، وانا احب ان تمشي معي إليه فتخبره بالذي سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمشى معه رافع إلى مروان بن الحكم، فقال: اخذت غلاما لهذا؟ فقال: نعم. فقال: فما انت صانع به؟ قال: اردت قطع يده. فقال له رافع: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا قطع في ثمر ولا كثر"، فامر مروان بالعبد، فارسلوَحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، أَنَّ عَبْدًا سَرَقَ وَدِيًّا مِنْ حَائِطِ رَجُلٍ فَغَرَسَهُ فِي حَائِطِ سَيِّدِهِ، فَخَرَجَ صَاحِبُ الْوَدِيِّ يَلْتَمِسُ وَدِيَّهُ، فَوَجَدَهُ، فَاسْتَعْدَى عَلَى الْعَبْدِ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ، فَسَجَنَ مَرْوَانُ الْعَبْدَ وَأَرَادَ قَطْعَ يَدِهِ، فَانْطَلَقَ سَيِّدُ الْعَبْدِ إِلَى رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ ، فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ فَأَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَا كَثَرٍ، وَالْكَثَرُ الْجُمَّارُ" . فَقَالَ الرَّجُلُ: فَإِنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ أَخَذَ غُلَامًا لِي وَهُوَ يُرِيدُ قَطْعَهُ، وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ تَمْشِيَ مَعِيَ إِلَيْهِ فَتُخْبِرَهُ بِالَّذِي سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَشَى مَعَهُ رَافِعٌ إِلَى مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، فَقَالَ: أَخَذْتَ غُلَامًا لِهَذَا؟ فَقَالَ: نَعَمْ. فَقَالَ: فَمَا أَنْتَ صَانِعٌ بِهِ؟ قَالَ: أَرَدْتُ قَطْعَ يَدِهِ. فَقَالَ لَهُ رَافِعٌ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَا كَثَرٍ"، فَأَمَرَ مَرْوَانُ بِالْعَبْدِ، فَأُرْسِلَ
حضرت محمد بن یحییٰ بن حبان سے روایت ہے کہ ایک غلام نے ایک شخص کے باغ میں سے کھجور کا پودا چرا کر اپنے مولیٰ کے باغ میں لاکر لگا دیا، پودے والا اپنا پودا ڈھونڈنے نکلا، اس نے پالیا اور مروان بن حکم کے پاس غلام کی شکایت کی، مروان نے غلام کو بلا کر قید کیا اور اس کا ہاتھ کاٹنا چاہا، اس غلام کا مولی رافع بن خدیج کے پاس گیا اور ان سے یہ حال کہا۔ رافع نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ”نہیں کاٹا جائے گا ہاتھ پھل میں، نہ پودے میں۔“ وہ شخص بولا: مروان نے میرے غلام کو پکڑا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹنا چاہتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ چلیے اور مروان سے اس حدیث کو بیان کر دیجیے، رافع اس شخص کے ساتھ مروان کے پاس گئے اور پوچھا: کیا تو نے اس شخص کے غلام کو پکڑا ہے؟ مروان نے کہا: ہاں۔ رافع نے پوچھا: اس غلام کے ساتھ کیا کرے گا؟ مروان نے کہا ہاتھ کاٹوں گا۔ رافع نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے تھے کہ ”پھل اور پودے کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔“ مروان نے یہ سن کر حکم دیا کہ اس غلام کو چھوڑ دو۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 4388، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1449، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4963، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2593، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2350، 2351، 2352، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4466، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15907، والحميدي فى «مسنده» برقم: 411، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18916، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 32»
حدثني، عن حدثني، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن السائب بن يزيد ، ان عبد الله بن عمرو بن الحضرمي جاء بغلام له إلى عمر بن الخطاب، فقال له: اقطع يد غلامي هذا، فإنه سرق. فقال له عمر :" ماذا سرق؟" فقال: سرق مرآة لامراتي ثمنها ستون درهما. فقال عمر: " ارسله، فليس عليه قطع، خادمكم سرق متاعكم" حَدَّثَنِي، عَنْ حَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْحَضْرَمِيِّ جَاءَ بِغُلَامٍ لَهُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ: اقْطَعْ يَدَ غُلَامِي هَذَا، فَإِنَّهُ سَرَقَ. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ :" مَاذَا سَرَقَ؟" فَقَالَ: سَرَقَ مِرْآةً لِامْرَأَتِي ثَمَنُهَا سِتُّونَ دِرْهَمًا. فَقَالَ عُمَرُ: " أَرْسِلْهُ، فَلَيْسَ عَلَيْهِ قَطْعٌ، خَادِمُكُمْ سَرَقَ مَتَاعَكُمْ"
حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمرو بن حضرمی اپنے ایک غلام کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے لے کر آیا اور کہا: میرے اس غلام کا ہاتھ کاٹا جائے، اس نے چوری کی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا چرایا؟ وہ بولا: میری بیوی کا آئینہ چرایا جس کی قیمت ساٹھ درہم تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: چھوڑ دو اس کو، اس کا ہاتھ نہ کا ٹا جائے گا، تمہارا خادم تھا تمہارا مال چرایا۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17303، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 5189، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3412، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18866، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 29161، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 33»
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن ابن شهاب ، ان مروان بن الحكم اتي بإنسان قد اختلس متاعا، فاراد قطع يده، فارسل إلى زيد بن ثابت يساله عن ذلك، فقال زيد بن ثابت : " ليس في الخلسة قطع" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ أُتِيَ بِإِنْسَانٍ قَدِ اخْتَلَسَ مَتَاعًا، فَأَرَادَ قَطْعَ يَدِهِ، فَأَرْسَلَ إِلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ يَسْأَلُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ : " لَيْسَ فِي الْخُلْسَةِ قَطْعٌ"
ابن شہاب سے روایت ہے کہ مروان بن حکم کے پاس ایک شخص آیا جو کسی کا مال اُچک لے گیا تھا، مروان نے اس کا ہاتھ کاٹنا چاہا، پھر سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو بھیجا یہ مسئلہ پوچھنے کو۔ انہوں نے کہا: اُچکّے کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17296، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 5186، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18850، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 29255، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 34»
وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، انه قال: اخبرني ابو بكر بن محمد بن عمرو بن حزم ، انه اخذ نبطيا قد سرق خواتم من حديد فحبسه ليقطع يده، فارسلت إليه عمرة بنت عبد الرحمن مولاة لها، يقال لها: امية، قال ابو بكر: فجاءتني وانا بين ظهراني الناس، فقالت: تقول لك خالتك عمرة:" يا ابن اختي، اخذت نبطيا في شيء يسير ذكر لي، فاردت قطع يده". قلت: نعم. قالت: فإن عمرة تقول لك: " لا قطع إلا في ربع دينار فصاعدا". قال ابو بكر: فارسلت النبطي . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، أَنَّهُ أَخَذَ نَبَطِيًّا قَدْ سَرَقَ خَوَاتِمَ مِنْ حَدِيدٍ فَحَبَسَهُ لِيَقْطَعَ يَدَهُ، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ عَمْرَةُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَاةً لَهَا، يُقَالُ لَهَا: أُمَيَّةُ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَجَاءَتْنِي وَأَنَا بَيْنَ ظَهْرَانَيِ النَّاسِ، فَقَالَتْ: تَقُولُ لَكَ خَالَتُكَ عَمْرَةُ:" يَا ابْنَ أُخْتِي، أَخَذْتَ نَبَطِيًّا فِي شَيْءٍ يَسِيرٍ ذُكِرَ لِي، فَأَرَدْتَ قَطْعَ يَدِهِ". قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَتْ: فَإِنَّ عَمْرَةَ تَقُولُ لَكَ: " لَا قَطْعَ إِلَّا فِي رُبُعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَأَرْسَلْتُ النَّبَطِيَّ .
حضرت ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے ایک نبطی (نبط کا رہنے والا جو ایک قریہ ہے ملک عجم میں) کو پکڑا جس نے انگوٹھیاں لوہے کی چرائی تھیں، اور اس کو قید کیا ہاتھ کا ٹنے کے واسطے۔ عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے اپنی مولاۃ (آزاد لونڈی) کو جس کا نام اُمیہ تھا، ابوبکر کے پاس بھیجا، ابوبکر نے کہا: وہ مولاۃ میرے پاس چلی آئی اور میں لوگوں میں بیٹھا ہوا تھا، بولی: تمہاری خالہ عمرہ نے کہا ہے کہ اے میرے بھانجے! تو نے ایک نبطی کو پکڑا ہے تھوڑی چیز کے واسطے، اور تو چاہتا ہے اس کا ہاتھ کاٹنا۔ میں نے کہا: ہاں! اس نے کہا: عمرہ نے کہا ہے کہ قطع نہیں ہے مگر چوتھائی دینار کی مالیت میں، یا زیادہ میں۔ تو میں نے نبطی کو چھوڑ دیا۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 35»
قال مالك: والامر المجتمع عليه عندنا في اعتراف العبيد انه من اعترف منهم على نفسه بشيء. يقع الحد فيه او العقوبة فيه في جسده فإن اعترافه جائز عليه ولا يتهم ان يوقع على نفسه هذا. قَالَ مَالِكٌ: وَالْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا فِي اعْتِرَافِ الْعَبِيدِ أَنَّهُ مَنِ اعْتَرَفَ مِنْهُمْ عَلَى نَفْسِهِ بِشَيْءٍ. يَقَعُ الْحَدُّ فِيهِ أَوِ الْعُقُوبَةُ فِيهِ فِي جَسَدِهِ فَإِنَّ اعْتِرَافَهُ جَائِزٌ عَلَيْهِ وَلَا يُتَّهَمُ أَنْ يُوقِعَ عَلَى نَفْسِهِ هَذَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ غلام اگر ایسے قصور کا اقرار کرے جس میں اس کے بدن کا نقصان ہو تو درست ہے، اس کو تہمت نہ لگائیں گے اس بات کی کہ اس نے مولیٰ کے ضرر کے واسطے جھوٹا اقرار کرلیا۔
قال مالك: واما من اعترف منهم. بامر يكون غرما على سيده. فإن اعترافه غير جائز على سيده. قَالَ مَالِكٌ: وَأَمَّا مَنِ اعْتَرَفَ مِنْهُمْ. بِأَمْرٍ يَكُونُ غُرْمًا عَلَى سَيِّدِهِ. فَإِنَّ اعْتِرَافَهُ غَيْرُ جَائِزٍ عَلَى سَيِّدِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایسے قصور کا اقرار کرے جس کا تاوان مولیٰ کو دینا پڑے، تو اس کا اقرارصحیح نہ سمجھا جائے گا۔