وحدثني مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن عروة بن الزبير ، ان رجلا من الانصار يقال له احيحة بن الجلاح كان له عم صغير، هو اصغر من احيحة، وكان عند اخواله فاخذه احيحة فقتله، فقال اخواله: كنا اهل ثمه ورمه حتى إذا استوى على عممه غلبنا حق امرئ في عمه، قال عروة:" فلذلك لا يرث قاتل من قتل" . وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أُحَيْحَةُ بْنُ الْجُلَاحِ كَانَ لَهُ عَمٌّ صَغِيرٌ، هُوَ أَصْغَرُ مِنْ أُحَيْحَةَ، وَكَانَ عِنْدَ أَخْوَالِهِ فَأَخَذَهُ أُحَيْحَةُ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ أَخْوَالُهُ: كُنَّا أَهْلَ ثُمِّهِ وَرُمِّهِ حَتَّى إِذَا اسْتَوَى عَلَى عُمَمِهِ غَلَبَنَا حَقُّ امْرِئٍ فِي عَمِّهِ، قَالَ عُرْوَةُ:" فَلِذَلِكَ لَا يَرِثُ قَاتِلٌ مَنْ قَتَلَ" .
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ایک شخص انصار کا جس کا نام اُحیحہ بن جلاح تھا، اس سے چھوٹا چچا تھا، وہ اپنی ننہیال میں تھا، اس کو اُحیحہ نے لے کر مار ڈالا، اس کے ننہیال کے لوگوں نے کہا: ہم نے پالا، پرورش کیا، جب جوان ہوا تو اس کا بھتیجا ہم پر غالب آیا، اور اسی نے لے لیا۔ عروہ نے کہا: اسی وجہ سے (اب دینِ اسلام میں) قاتل مقتول کا وارث نہیں ہوتا۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 17799، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 32055، 32056، فواد عبدالباقي نمبر: 43 - كِتَابُ الْعُقُولِ-ح: 11»
قال مالك: الامر الذي لا اختلاف فيه عندنا، ان قاتل العمد لا يرث من دية من قتل شيئا ولا من ماله، ولا يحجب احدا وقع له ميراث، وان الذي يقتل خطا لا يرث من الدية شيئا، وقد اختلف في ان يرث من ماله لانه لا يتهم على انه قتله ليرثه ولياخذ ماله، فاحب إلي ان يرث من ماله ولا يرث من ديتهقَالَ مَالِك: الْأَمْرُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا، أَنَّ قَاتِلَ الْعَمْدِ لَا يَرِثُ مِنْ دِيَةِ مَنْ قَتَلَ شَيْئًا وَلَا مِنْ مَالِهِ، وَلَا يَحْجُبُ أَحَدًا وَقَعَ لَهُ مِيرَاثٌ، وَأَنَّ الَّذِي يَقْتُلُ خَطَأً لَا يَرِثُ مِنَ الدِّيَةِ شَيْئًا، وَقَدِ اخْتُلِفَ فِي أَنْ يَرِثَ مِنْ مَالِهِ لِأَنَّهُ لَا يُتَّهَمُ عَلَى أَنَّهُ قَتَلَهُ لِيَرِثَهُ وَلِيَأْخُذَ مَالَهُ، فَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَرِثَ مِنْ مَالِهِ وَلَا يَرِثُ مِنْ دِيَتِهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ قتلِ عمد کرنے والا مقتول کی دیت کا وارث نہیں ہوتا، نہ اس کے مال کا، نہ وہ کسی وارث کو محروم کر سکتا ہے، اور قتلِ خطاء کرنے والا دیت کا وارث نہیں ہوتا، لیکن اور مال کا وارث ہوتا ہے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے، میرے نزدیک اور مال کا وارث ہوگا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانور کسی کو صدمہ پہنچائے تو اس کا بدلہ نہیں، کنوئیں میں کوئی گر کر مر جائے تو اس کا بدلہ نہیں، اور کان کھودنے میں کوئی مزدور مر جائے تو بدلہ نہیں، اور (کافروں کے) گڑے خزانے میں پانچواں حصّہ لیا جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1499، 2355، 6912، 6913، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1710، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2326، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6005، 6006، 6007، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2497، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3085، 4593، 4594، والترمذي فى «جامعه» برقم: 642، 1377، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1710، 2422، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2509، 2673، 2676، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7734، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7253، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1110، 1111، فواد عبدالباقي نمبر: 43 - كِتَابُ الْعُقُولِ-ح: 12»
قال مالك: القائد والسائق والراكب كلهم ضامنون لما اصابت الدابة، إلا ان ترمح الدابة من غير ان يفعل بها شيء ترمح له. وقد قضى عمر بن الخطاب في الذي اجرى فرسه بالعقل. قَالَ مَالِكٌ: الْقَائِدُ وَالسَّائِقُ وَالرَّاكِبُ كُلُّهُمْ ضَامِنُونَ لِمَا أَصَابَتِ الدَّابَّةُ، إِلَّا أَنْ تَرْمَحَ الدَّابَّةُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُفْعَلَ بِهَا شَيْءٌ تَرْمَحُ لَهُ. وَقَدْ قَضَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي الَّذِي أَجْرَى فَرَسَهُ بِالْعَقْلِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص جانور کو آگے سے کھینچ رہا ہے، یا پیچھے سے ہانک رہا ہے، یا جو اس پر سوار ہے، وہ جرمانہ دے گا اگر جانور کسی کو صدمہ پہنچائے، لیکن خود بخود وہ لات سے کسی کو مار دے تو تاوان نہیں ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم کیا دیت کا اس شخص پر جس نے اپنا گھوڑا دوڑا کر کسی کو کچل ڈالا تھا۔
قال مالك: والامر عندنا في الذي يحفر البئر على الطريق، او يربط الدابة، او يصنع اشباه هذا على طريق المسلمين، ان ما صنع من ذلك مما لا يجوز له ان يصنعه على طريق المسلمين فهو ضامن لما اصيب في ذلك من جرح، او غيره فما كان من ذلك عقله دون ثلث الدية فهو في ماله خاصة، وما بلغ الثلث فصاعدا، فهو على العاقلة، وما صنع من ذلك مما يجوز له ان يصنعه على طريق المسلمين فلا ضمان عليه فيه، ولا غرم ومن ذلك البئر يحفرها الرجل للمطر والدابة ينزل عنها الرجل للحاجة فيقفها على الطريق، فليس على احد في هذا غرم. قَالَ مَالِكٌ: وَالْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي الَّذِي يَحْفِرُ الْبِئْرَ عَلَى الطَّرِيقِ، أَوْ يَرْبِطُ الدَّابَّةَ، أَوْ يَصْنَعُ أَشْبَاهَ هَذَا عَلَى طَرِيقِ الْمُسْلِمِينَ، أَنَّ مَا صَنَعَ مِنْ ذَلِكَ مِمَّا لَا يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَصْنَعَهُ عَلَى طَرِيقِ الْمُسْلِمِينَ فَهُوَ ضَامِنٌ لِمَا أُصِيبَ فِي ذَلِكَ مِنْ جَرْحٍ، أَوْ غَيْرِهِ فَمَا كَانَ مِنْ ذَلِكَ عَقْلُهُ دُونَ ثُلُثِ الدِّيَةِ فَهُوَ فِي مَالِهِ خَاصَّةً، وَمَا بَلَغَ الثُّلُثَ فَصَاعِدًا، فَهُوَ عَلَى الْعَاقِلَةِ، وَمَا صَنَعَ مِنْ ذَلِكَ مِمَّا يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَصْنَعَهُ عَلَى طَرِيقِ الْمُسْلِمِينَ فَلَا ضَمَانَ عَلَيْهِ فِيهِ، وَلَا غُرْمَ وَمِنْ ذَلِكَ الْبِئْرُ يَحْفِرُهَا الرَّجُلُ لِلْمَطَرِ وَالدَّابَّةُ يَنْزِلُ عَنْهَا الرَّجُلُ لِلْحَاجَةِ فَيَقِفُهَا عَلَى الطَّرِيقِ، فَلَيْسَ عَلَى أَحَدٍ فِي هَذَا غُرْمٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو کوئی راستے میں کنواں کھودے، یا جانور باندھے، یا مشابہ اس کے کوئی کام کرے، تو راہ میں کرنا درست نہیں ہے، اور اس کی وجہ سے کسی کو صدمہ پہنچے تو وہ ضامن ہوگا، تہائی دیت تک اپنے مال میں سے دے گا، جو تہائی سے زیادہ ہو تو اس کے عاقلہ سے وصول کی جائے گی، اور اگر ایسا کام کرے جو درست ہے تو اس پر ضمان نہ ہوگا، جیسے گڑھا کھودے بارش کے واسطے، یا اپنے جانور پر سے کسی کام کو اترے اور راہ پر کھڑا کر دے۔
قال مالك: في الرجل ينزل في البئر، فيدركه رجل آخر في اثره، فيجبذ الاسفل الاعلى، فيخران في البئر فيهلكان جميعا ان على عاقلة الذي جبذه الدية. قَالَ مَالِكٌ: فِي الرَّجُلِ يَنْزِلُ فِي الْبِئْرِ، فَيُدْرِكُهُ رَجُلٌ آخَرُ فِي أَثَرِهِ، فَيَجْبِذُ الْأَسْفَلُ الْأَعْلَى، فَيَخِرَّانِ فِي الْبِئْرِ فَيَهْلِكَانِ جَمِيعًا أَنَّ عَلَى عَاقِلَةِ الَّذِي جَبَذَهُ الدِّيَةَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص کنوئیں میں اترے، پھر دوسرا شخص اترے، اب نیچے والا اوپر والے کو کھینچے اور دونوں گر کر مر جائیں تو کھینچنے والے کے عاقلہ پر دیت لازم آئے گی۔
قال مالك: في الصبي يامره الرجل ينزل في البئر او يرقى في النخلة، فيهلك في ذلك ان الذي امره ضامن لما اصابه من هلاك او غيره. قَالَ مَالِكٌ: فِي الصَّبِيِّ يَأْمُرُهُ الرَّجُلُ يَنْزِلُ فِي الْبِئْرِ أَوْ يَرْقَى فِي النَّخْلَةِ، فَيَهْلِكُ فِي ذَلِكَ أَنَّ الَّذِي أَمَرَهُ ضَامِنٌ لِمَا أَصَابَهُ مِنْ هَلَاكٍ أَوْ غَيْرِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی بچے کو حکم کرے کنوئیں میں اترنے کا، یا درخت پر چڑھنے کا، اور وہ لڑکا ہلاک ہو جائے تو وہ شخص ضامن ہوگا اس کی دیت کا، یا نقصان کا۔
قال مالك: الامر الذي لا اختلاف فيه عندنا انه ليس على النساء والصبيان عقل يجب عليهم ان يعقلوه مع العاقلة فيما تعقله العاقلة من الديات، وإنما يجب العقل على من بلغ الحلم من الرجال. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا أَنَّهُ لَيْسَ عَلَى النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ عَقْلٌ يَجِبُ عَلَيْهِمْ أَنْ يَعْقِلُوهُ مَعَ الْعَاقِلَةِ فِيمَا تَعْقِلُهُ الْعَاقِلَةُ مِنَ الدِّيَاتِ، وَإِنَّمَا يَجِبُ الْعَقْلُ عَلَى مَنْ بَلَغَ الْحُلُمَ مِنَ الرِّجَالِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ عاقلہ میں عورتیں اور بچے داخل نہ ہوں گے، بلکہ بالغ مردوں سے دیت وصول کی جائے گی۔
قال مالك: في عقل الموالي، تلزمه العاقلة إن شاءوا، وإن ابوا كانوا اهل ديوان، او مقطعين، وقد تعاقل الناس في زمن رسول اللٰه صلى الله عليه وسلم، وفي زمان ابي بكر الصديق قبل ان يكون ديوان، وإنما كان الديوان في زمان عمر بن الخطاب، فليس لاحد ان يعقل عنه غير قومه ومواليه، لان الولاء لا ينتقل، ولان النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”الولاء لمن اعتق.“ قال مالك: والولاء نسب ثابت. قَالَ مَالِكٌ: فِي عَقْلِ الْمَوَالِي، تُلْزَمُهُ الْعَاقِلَةُ إِنْ شَاءُوا، وَإِنْ أَبَوْا كَانُوا أَهْلَ دِيوَانٍ، أَوْ مُقْطَعِينَ، وَقَدْ تَعَاقَلَ النَّاسُ فِي زَمَنِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِي زَمَانِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ قَبْلَ أَنْ يَكُونَ دِيوَانٌ، وَإِنَّمَا كَانَ الدِّيوَانُ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَعْقِلَ عَنْهُ غَيْرُ قَوْمِهِ وَمَوَالِيهِ، لِأَنَّ الْوَلَاءَ لَا يَنْتَقِلُ، وَلِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ.“ قَالَ مَالِكٌ: وَالْوَلَاءُ نَسَبٌ ثَابِتٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مولیٰ کی دیت اس کے عاقلہ پر ہوگی، اگرچہ وہ دفترِ سرکار میں ماہواری اب (ملازم) نہ ہوں، جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وقت تھا، کیونکہ دفتر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے نکلا، تو ہر ایک کی دیت اس کے موالی اور قوم ادا کریں گے، کیونکہ ولاء بھی انہیں کو ملتی ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولاء اسی کو ملے گی جو آزاد کرے۔“