حضرت علی بن حسین یعنی امام زین العابدین سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب ابو طالب مر گئے تو ان کے وارث عقیل اور طالب ہوئے(1)، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان کے وارث نہیں ہوئے(2)۔ علی بن حسین نے کہا: اسی واسطے ہم نے اپنا حصّہ مکہ کے گھروں میں سے چھوڑ دیا۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3835، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9853، والشافعي فى «المسنده» برقم:421/2، والشافعي فى «الاُم» برقم: 72/4، فواد عبدالباقي نمبر: 27 - كِتَابُ الْفَرَائِضِ-ح: 11»
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن سليمان بن يسار ، ان محمد بن الاشعث اخبره، ان عمة له يهودية او نصرانية توفيت، وان محمد بن الاشعث ذكر ذلك لعمر بن الخطاب، وقال له: من يرثها؟ فقال له عمر بن الخطاب : " يرثها اهل دينها" . ثم اتى عثمان بن عفان، فساله عن ذلك، فقال له عثمان : اتراني نسيت ما قال لك عمر بن الخطاب؟ يرثها اهل دينهاوَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ الْأَشْعَثِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَمَّةً لَهُ يَهُودِيَّةً أَوْ نَصْرَانِيَّةً تُوُفِّيَتْ، وَأَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ الْأَشْعَثِ ذَكَرَ ذَلِكَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَقَالَ لَهُ: مَنْ يَرِثُهَا؟ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : " يَرِثُهَا أَهْلُ دِينِهَا" . ثُمَّ أَتَى عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ : أَتُرَانِي نَسِيتُ مَا قَالَ لَكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ؟ يَرِثُهَا أَهْلُ دِينِهَا
حضرت محمد بن اشعث کی ایک پھوپھی یہودی تھی یا نصرانی مر گئی، محمد بن اشعث نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا اور پوچھا کہ اس کا کون وارث ہوگا؟ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے مذہب والے وارث ہوں گے۔ پھر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو ان سے پوچھا۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تو سمجھتا ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جو تجھ سے کہا تھا اس کو میں بھول گیا، وہی اس کے وارث ہوں گے جو اس کے مذہب والے ہیں۔
تخریج الحدیث: «موقوف حسن، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12359، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9859، والدارمي فى «مسنده» برقم: 3031، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 144، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 31795، فواد عبدالباقي نمبر: 27 - كِتَابُ الْفَرَائِضِ-ح: 12»
حضرت اسمعیل بن ابی حکیم سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کا ایک غلام نصرانی تھا، اس کو انہوں نے آزاد کر دیا، وہ مر گیا تو عمر بن عبدالعزیز نے مجھ سے کہا کہ اس کا مال بیت المال میں داخل کر دو۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21471، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم:6062، والشافعي فى «الاُم» برقم: 128/4، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 149، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9866، 9867، 10201، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 12694، 31447، فواد عبدالباقي نمبر: 27 - كِتَابُ الْفَرَائِضِ-ح: 13»
حضرت سعید بن مسیّب کہتے تھے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انکار کیا غیر ملک کے لوگوں کی میراث دلانے کا اپنے ملک والوں کو، مگر جو عرب میں پیدا ہوا ہو۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18336، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 31363، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 19173، والدارمي فى «سننه» برقم: 3095، فواد عبدالباقي نمبر: 27 - كِتَابُ الْفَرَائِضِ-ح: 14»
قال مالك: وإن جاءت امراة حامل من ارض العدو، فوضعته في ارض العرب، فهو ولدها، يرثها إن ماتت، وترثه إن مات، ميراثها في كتاب الله. قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا، والسنة التي لا اختلاف فيها، والذي ادركت عليه اهل العلم ببلدنا: انه لا يرث المسلم الكافر بقرابة، ولا ولاء، ولا رحم، ولا يحجب احدا عن ميراثه.قَالَ مَالِكٌ: وَإِنْ جَاءَتِ امْرَأَةٌ حَامِلٌ مِنْ أَرْضِ الْعَدُوِّ، فَوَضَعَتْهُ فِي أَرْضِ الْعَرَبِ، فَهُوَ وَلَدُهَا، يَرِثُهَا إِنْ مَاتَتْ، وَتَرِثُهُ إِنْ مَاتَ، مِيرَاثَهَا فِي كِتَابِ اللَّهِ. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا، وَالسُّنَّةُ الَّتِي لَا اخْتِلَافَ فِيهَا، وَالَّذِي أَدْرَكْتُ عَلَيْهِ أَهْلَ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا: أَنَّهُ لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ بِقَرَابَةٍ، وَلَا وَلَاءٍ، وَلَا رَحِمٍ، وَلَا يَحْجُبُ أَحَدًا عَنْ مِيرَاثِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک عورت حاملہ کفار کے ملک میں سے آکر عرب میں رہے، اور وہاں (بچہ) جنے تو وہ اپنے لڑکے کی وارث ہوگی اور لڑکا اس کا وارث ہو گا۔
قال مالك: وكذلك كل من لا يرث إذا لم يكن دونه وارث، فإنه لا يحجب احدا عن ميراثه قَالَ مَالِكٌ: وَكَذَلِكَ كُلُّ مَنْ لَا يَرِثُ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُ وَارِثٌ، فَإِنَّهُ لَا يَحْجُبُ أَحَدًا عَنْ مِيرَاثِهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اجماعی ہے اور اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ مسلمان کافر کا کسی رشتہ کی وجہ سے وارث نہیں ہو سکتا، خواہ وہ رشتہ ناطے کا ہو یا ولاء کا یا قرابت کا، اور نہ کسی کو اس کی وراثت سے محروم کر سکتا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسی طرح جو شخص میراث نہ پائے وہ دوسرے کو محروم نہیں کر سکتا۔
حدثني يحيى، عن مالك، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن ، عن غير واحد من علمائهم انه " لم يتوارث من قتل يوم الجمل، ويوم صفين، ويوم الحرة، ثم كان يوم قديد، فلم يورث احد من صاحبه شيئا، إلا من علم انه قتل قبل صاحبه" . حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ عُلَمَائِهِمْ أَنَّهُ " لَمْ يَتَوَارَثْ مَنْ قُتِلَ يَوْمَ الْجَمَلِ، وَيَوْمَ صِفِّينَ، وَيَوْمَ الْحَرَّةِ، ثُمَّ كَانَ يَوْمَ قُدَيْدٍ، فَلَمْ يُوَرَّثْ أَحَدٌ مِنْ صَاحِبِهِ شَيْئًا، إِلَّا مَنْ عُلِمَ أَنَّهُ قُتِلَ قَبْلَ صَاحِبِهِ" .
حضرت ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن اور بہت سے علماء سے روایت ہے کہ جتنے لوگ قتل ہوئے جنگِ جمل(1)، جنگِ صفین(2)، یوم الحرہ(3) میں، اور جو یوم القدید(4) میں مارے گئے، وہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوئے، مگر جس شخص کا حال معلوم ہو گیا کہ وہ اپنے وارث سے پہلے مارا گیا(5)(تو وہ ایک دوسرے کےوارث ہوئے)۔
قال مالك: وذلك الامر الذي لا اختلاف فيه، ولا شك عند احد من اهل العلم ببلدنا، وكذلك العمل في كل متوارثين هلكا بغرق او قتل او غير ذلك من الموت، إذا لم يعلم ايهما مات قبل صاحبه، لم يرث احد منهما من صاحبه شيئا، وكان ميراثهما لمن بقي من ورثتهما، يرث كل واحد منهما ورثته من الاحياء. قَالَ مَالِكٌ: وَذَلِكَ الْأَمْرُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ، وَلَا شَكَّ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا، وَكَذَلِكَ الْعَمَلُ فِي كُلِّ مُتَوَارِثَيْنِ هَلَكَا بِغَرَقٍ أَوْ قَتْلٍ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الْمَوْتِ، إِذَا لَمْ يُعْلَمْ أَيُّهُمَا مَاتَ قَبْلَ صَاحِبِهِ، لَمْ يَرِثْ أَحَدٌ مِنْهُمَا مِنْ صَاحِبِهِ شَيْئًا، وَكَانَ مِيرَاثُهُمَا لِمَنْ بَقِيَ مِنْ وَرَثَتِهِمَا، يَرِثُ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا وَرَثَتُهُ مِنَ الْأَحْيَاءِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہی حکم ہے، اگر کئی آدمی ڈوب جائیں، یا مکان سے گر کر مارے جائیں، یا قتل کیے جائیں، جب معلوم نہ ہو سکے کہ پہلے کون مرا اور بعد میں کون مرا، تو آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے، بلکہ ہر ایک کا ترکہ اس کے وارثوں کو جو زندہ ہوں پہنچے گا۔
قال مالك: لا ينبغي ان يرث احد احدا بالشك، ولا يرث احد احدا إلا باليقين من العلم، والشهداء، وذلك ان الرجل يهلك هو ومولاه الذي اعتقه ابوه، فيقول بنو الرجل العربي: قد ورثه ابونا. فليس ذلك لهم ان يرثوه بغير علم ولا شهادة. إنه مات قبله. وإنما يرثه اولى الناس به من الاحياء. قَالَ مَالِكٌ: لَا يَنْبَغِي أَنْ يَرِثَ أَحَدٌ أَحَدًا بِالشَّكِّ، وَلَا يَرِثُ أَحَدٌ أَحَدًا إِلَّا بِالْيَقِينِ مِنَ الْعِلْمِ، وَالشُّهَدَاءِ، وَذَلِكَ أَنَّ الرَّجُلَ يَهْلَكُ هُوَ وَمَوْلَاهُ الَّذِي أَعْتَقَهُ أَبُوهُ، فَيَقُولُ بَنُو الرَّجُلِ الْعَرَبِيِّ: قَدْ وَرِثَهُ أَبُونَا. فَلَيْسَ ذَلِكَ لَهُمْ أَنْ يَرِثُوهُ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا شَهَادَةٍ. إِنَّهُ مَاتَ قَبْلَهُ. وَإِنَّمَا يَرِثُهُ أَوْلَى النَّاسِ بِهِ مِنَ الْأَحْيَاءِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کوئی کسی کا وارث شک سے نہ ہوگا، بلکہ علم و یقین سے وارث ہوگا، مثلاً ایک شخص مر جائے اور اس کے باپ کا مولیٰ (غلام آزاد کیا ہوا) مر جائے، اب اس کے بیٹے یہ کہیں: اس مولیٰ کا وارث ہمارا باپ تھا تو یہ نہیں ہو سکتا، جب تک کہ علم ویقین یا گواہوں سے یہ ثابت نہ ہو کہ پہلے مولیٰ مرا تھا۔ اس وقت تک مولیٰ کے وارث جو زندہ ہوں اس ترکہ کو پائیں گے۔