حضرت سعید بن مسیّب کہتے تھے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انکار کیا غیر ملک کے لوگوں کی میراث دلانے کا اپنے ملک والوں کو، مگر جو عرب میں پیدا ہوا ہو۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18336، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 31363، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 19173، والدارمي فى «سننه» برقم: 3095، فواد عبدالباقي نمبر: 27 - كِتَابُ الْفَرَائِضِ-ح: 14»
قال مالك: وإن جاءت امراة حامل من ارض العدو، فوضعته في ارض العرب، فهو ولدها، يرثها إن ماتت، وترثه إن مات، ميراثها في كتاب الله. قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا، والسنة التي لا اختلاف فيها، والذي ادركت عليه اهل العلم ببلدنا: انه لا يرث المسلم الكافر بقرابة، ولا ولاء، ولا رحم، ولا يحجب احدا عن ميراثه.قَالَ مَالِكٌ: وَإِنْ جَاءَتِ امْرَأَةٌ حَامِلٌ مِنْ أَرْضِ الْعَدُوِّ، فَوَضَعَتْهُ فِي أَرْضِ الْعَرَبِ، فَهُوَ وَلَدُهَا، يَرِثُهَا إِنْ مَاتَتْ، وَتَرِثُهُ إِنْ مَاتَ، مِيرَاثَهَا فِي كِتَابِ اللَّهِ. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا، وَالسُّنَّةُ الَّتِي لَا اخْتِلَافَ فِيهَا، وَالَّذِي أَدْرَكْتُ عَلَيْهِ أَهْلَ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا: أَنَّهُ لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ بِقَرَابَةٍ، وَلَا وَلَاءٍ، وَلَا رَحِمٍ، وَلَا يَحْجُبُ أَحَدًا عَنْ مِيرَاثِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک عورت حاملہ کفار کے ملک میں سے آکر عرب میں رہے، اور وہاں (بچہ) جنے تو وہ اپنے لڑکے کی وارث ہوگی اور لڑکا اس کا وارث ہو گا۔
قال مالك: وكذلك كل من لا يرث إذا لم يكن دونه وارث، فإنه لا يحجب احدا عن ميراثه قَالَ مَالِكٌ: وَكَذَلِكَ كُلُّ مَنْ لَا يَرِثُ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُ وَارِثٌ، فَإِنَّهُ لَا يَحْجُبُ أَحَدًا عَنْ مِيرَاثِهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اجماعی ہے اور اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ مسلمان کافر کا کسی رشتہ کی وجہ سے وارث نہیں ہو سکتا، خواہ وہ رشتہ ناطے کا ہو یا ولاء کا یا قرابت کا، اور نہ کسی کو اس کی وراثت سے محروم کر سکتا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسی طرح جو شخص میراث نہ پائے وہ دوسرے کو محروم نہیں کر سکتا۔