امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ دادا بھائیوں کے ساتھ وارث ہوگا، اس لیے کہ وہ ان سے اولیٰ ہے، کیونکہ دادا بیٹے کے ساتھ بھی چھٹے حصّہ کا وارث ہوتا ہے برخلاف بھائی اور بہنوں کے، اور کیونکہ دادا بھائی کے برابر نہ ہوگا وہ میّت کے بیٹے کے ہوتے ہوئے بھی ایک چھٹا لیتا ہے، تو بھائی بہنوں کے ساتھ تہائی کیوں نہ ملے گا، اس لیے کہ اخیانی بھائی بہن سگے بھائی بہنوں کے ساتھ تہائی لیتے ہیں، اگر دادا بھی موجود ہو تو وہ اخیانی بھائی بہنوں کو محروم کردے گا، پھر وہ تہائی اپنے آپ لے لے گا، کیونکہ اسی نے ان کو محروم کیا ہے، اگر وہ نہ ہو تو اس تہائی کو اخیانی بھائی بہن لیتے، تو دادا نے وہ مال لیا جو سگے یا سوتیلے بھائی بہنوں کو نہیں مل سکتا تھا، بلکہ اخیانی بھائی بہنوں کا حق تھا، اور دادا ان سے اولیٰ تھا اس واسطے اس نے لے لیا، اور اخیانی بھائی بہن کو محروم کیا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: پھر ہم نے کسی ایسے شخص کو نہیں جانا جس نے اسلام کے آغاز سے لے کر آج تک ان دونوں جدات (کے ساتھ ان) کے علاوہ (کسی اور جدہ) کو بھی وارث بنایا ہو۔
حدثني يحيى، عن مالك، عن محمد بن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن عبد الرحمن بن حنظلة الزرقي، انه اخبره عن مولى لقريش كان قديما، يقال له: ابن مرسى انه قال: كنت جالسا عند عمر بن الخطاب فلما صلى الظهر، قال:" يا يرفا هلم ذلك الكتاب. لكتاب كتبه في شان العمة، فنسال عنها ونستخبر عنها، فاتاه به يرفا. فدعا بتور او قدح فيه ماء. فمحا ذلك الكتاب فيه. ثم قال: «لو رضيك الله وارثة اقرك لو رضيك الله اقرك» حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَنْظَلَةَ الزُّرَقِيّ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ مَوْلًى لِقُرَيْشٍ كَانَ قَدِيمًا، يُقَالُ لَهُ: ابْنُ مِرْسَى أَنَّهُ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَلَمَّا صَلَّى الظُّهْرَ، قَالَ:" يَا يَرْفَا هَلُمَّ ذَلِكَ الْكِتَابَ. لِكِتَابٍ كَتَبَهُ فِي شَأْنِ الْعَمَّةِ، فَنَسْأَلَ عَنْهَا وَنَسْتَخْبِرَ عَنْهَا، فَأَتَاهُ بِهِ يَرْفَا. فَدَعَا بِتَوْرٍ أَوْ قَدَحٍ فِيهِ مَاءٌ. فَمَحَا ذَلِكَ الْكِتَابَ فِيهِ. ثُمَّ قَالَ: «لَوْ رَضِيَكِ اللَّهُ وَارِثَةً أَقَرَّكِ لَوْ رَضِيَكِ اللَّهُ أَقَرَّكِ»
ایک مولیٰ سے قریش کے روایت ہے کہ جس کو ابن موسیٰ کہتے تھے، کہا کہ میں بیٹھا تھا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس، انہوں نے ظہر کی نماز پڑھ کر یرفا (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے غلام) سے کہا: میری کتاب لے آنا، وہ کتاب جو انہوں نے لکھی تھی پھوپھی کی میراث کے بارے میں (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے سے پھوپھی کے واسطے میراث تجویز کی تھی، اس قیاس سے کہ پھوپھی کا وارث بھتیجا ہوتا ہے وہ بھی اس کی وارث ہوگی)۔ تو ہم لوگوں سے پوچھیں اور مشورہ لیں (بعد مشورے کے معلوم ہوا کہ پھوپھی کو میراث نہیں)۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک کڑائی یا پیالہ منگایا جس میں پانی تھا، اور اس کتاب کو دھو ڈلا، اور فرمایا: اگر پھوپھی کو حصّہ دلانا اللہ کو منظور ہوتا تو اپنی کتاب میں ذکر فرماتا۔
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا، الذي لا اختلاف فيه، والذي ادركت عليه اهل العلم ببلدنا، في ولاية العصبة، ان الاخ للاب والام، اولى بالميراث من الاخ للاب. والاخ للاب، اولى بالميراث من بني الاخ للاب والام. وبنو الاخ للاب والام، اولى من بني الاخ للاب. وبنو الاخ للاب، اولى من بني ابن الاخ للاب والام. وبنو ابن الاخ للاب، اولى من العم اخي الاب للاب والام. والعم اخو الاب للاب والام، اولى من العم اخي الاب للاب. والعم اخو الاب للاب، اولى من بني العم اخي الاب للاب والام. وابن العم للاب، اولى من عم الاب اخي ابي الاب للاب والام. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا، الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ، وَالَّذِي أَدْرَكْتُ عَلَيْهِ أَهْلَ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا، فِي وِلَايَةِ الْعَصَبَةِ، أَنَّ الْأَخَ لِلْأَبِ وَالْأُمِّ، أَوْلَى بِالْمِيرَاثِ مِنَ الْأَخِ لِلْأَبِ. وَالْأَخُ لِلْأَبِ، أَوْلَى بِالْمِيرَاثِ مِنْ بَنِي الْأَخِ لِلْأَبِ وَالْأُمِّ. وَبَنُو الْأَخِ لِلْأَبِ وَالْأُمِّ، أَوْلَى مِنْ بَنِي الْأَخِ لِلْأَبِ. وَبَنُو الْأَخِ لِلْأَبِ، أَوْلَى مِنْ بَنِي ابْنِ الْأَخِ لِلْأَبِ وَالْأُمِّ. وَبَنُو ابْنِ الْأَخِ لِلْأَبِ، أَوْلَى مِنَ الْعَمِّ أَخِي الْأَبِ لِلْأَبِ وَالْأُمِّ. وَالْعَمُّ أَخُو الْأَبِ لِلْأَبِ وَالْأُمِّ، أَوْلَى مِنَ الْعَمِّ أَخِي الْأَبِ لِلْأَبِ. وَالْعَمُّ أَخُو الْأَبِ لِلْأَبِ، أَوْلَى مِنْ بَنِي الْعَمِّ أَخِي الْأَبِ لِلْأَبِ وَالْأُمِّ. وَابْنُ الْعَمِّ لِلْأَبِ، أَوْلَى مِنْ عَمِّ الْأَبِ أَخِي أَبِي الْأَبِ لِلْأَبِ وَالْأُمِّ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس امر میں کچھ اختلاف نہیں ہے، اور ہم نے اپنے شہر والوں کو اسی پر پایا کہ سگا بھائی مقدم ہے سوتیلے بھائی پر، اور سوتیلا بھائی مقدم ہے سگے بھائی کے بیٹے پر، اور سگے بھائی کا بیٹا مقدم ہے سوتیلے بھائی کے بیٹے پر، اور سوتیلے بھائی کا بیٹا مقدم ہے سگے بھائی کے پوتے پر، اور سوتیلے بھائی کا بیٹا مقدم ہے سگے چچا پر، اور سگا چچا مقدم ہے سوتیلے چچا پر (جو باپ کا سوتیلا بھائی ہو)، اور سوتیلا چچا سگے چچا کے بیٹوں پر مقدم ہے، اور سوتیلے چچا کے بیٹے باپ کے چچا پر مقدم ہیں (جو دادا کا سگا بھائی ہو)۔
قال مالك: وكل شيء سئلت عنه من ميراث العصبة فإنه على نحو هذا: انسب المتوفى ومن ينازع في ولايته من عصبته. فإن وجدت احدا منهم يلقى المتوفى إلى اب لا يلقاه احد منهم إلى اب دونه. فاجعل ميراثه للذي يلقاه إلى الاب الادنى، دون من يلقاه إلى فوق ذلك. فإن وجدتهم كلهم يلقونه إلى اب واحد يجمعهم جميعا، فانظر اقعدهم في النسب. فإن كان ابن اب فقط، فاجعل الميراث له دون الاطراف. وإن كان ابن اب وام. وإن وجدتهم مستوين، ينتسبون من عدد الآباء إلى عدد واحد. حتى يلقوا نسب المتوفى جميعا، وكانوا كلهم جميعا بني اب، او بني اب وام. فاجعل الميراث بينهم سواء. وإن كان والد بعضهم اخا والد المتوفى للاب والام. وكان من سواه منهم إنما هو اخو ابي المتوفى لابيه فقط، فإن الميراث لبني اخي المتوفى لابيه وامه، دون بني الاخ للاب. وذلك ان اللٰه تبارك وتعالى قال: ﴿واولو الارحام بعضهم اولى ببعض في كتاب اللٰه، إن اللٰه بكل شيء عليم﴾. قَالَ مَالِكٌ: وَكُلُّ شَيْءٍ سُئِلْتَ عَنْهُ مِنْ مِيرَاثِ الْعَصَبَةِ فَإِنَّهُ عَلَى نَحْوِ هَذَا: انْسُبِ الْمُتَوَفَّى وَمَنْ يُنَازِعُ فِي وِلَايَتِهِ مِنْ عَصَبَتِهِ. فَإِنْ وَجَدْتَ أَحَدًا مِنْهُمْ يَلْقَى الْمُتَوَفَّى إِلَى أَبٍ لَا يَلْقَاهُ أَحَدٌ مِنْهُمْ إِلَى أَبٍ دُونَهُ. فَاجْعَلْ مِيرَاثَهُ لِلَّذِي يَلْقَاهُ إِلَى الْأَبِ الْأَدْنَى، دُونَ مَنْ يَلْقَاهُ إِلَى فَوْقِ ذَلِكَ. فَإِنْ وَجَدْتَهُمْ كُلَّهُمْ يَلْقَوْنَهُ إِلَى أَبٍ وَاحِدٍ يَجْمَعُهُمْ جَمِيعًا، فَانْظُرْ أَقْعَدَهُمْ فِي النَّسَبِ. فَإِنْ كَانَ ابْنَ أَبٍ فَقَطْ، فَاجْعَلِ الْمِيرَاثَ لَهُ دُونَ الْأَطْرَافِ. وَإِنْ كَانَ ابْنَ أَبٍ وَأُمٍّ. وَإِنْ وَجَدْتَهُمْ مُسْتَوِينَ، يَنْتَسِبُونَ مِنْ عَدَدِ الْآبَاءِ إِلَى عَدَدٍ وَاحِدٍ. حَتَّى يَلْقَوْا نَسَبَ الْمُتَوَفَّى جَمِيعًا، وَكَانُوا كُلُّهُمْ جَمِيعًا بَنِي أَبٍ، أَوْ بَنِي أَبٍ وَأُمٍّ. فَاجْعَلِ الْمِيرَاثَ بَيْنَهُمْ سَوَاءً. وَإِنْ كَانَ وَالِدُ بَعْضِهِمْ أَخَا وَالِدِ الْمُتَوَفَّى لِلْأَبِ وَالْأُمِّ. وَكَانَ مَنْ سِوَاهُ مِنْهُمْ إِنَّمَا هُوَ أَخُو أَبِي الْمُتَوَفَّى لِأَبِيهِ فَقَطْ، فَإِنَّ الْمِيرَاثَ لِبَنِي أَخِي الْمُتَوَفَّى لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ، دُونَ بَنِي الْأَخِ لِلْأَبِ. وَذَلِكَ أَنَّ اللّٰهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ: ﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللّٰهِ، إِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾.
امام مالک نے فرمایا کہ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ جتنے عصبات موجود ہوں ان کو میّت کی طرف نسبت دیں، یعنی یہ میّت کا کون ہے(1)، جو شخص اُن میں سے ایسے باپ میں میّت کے ساتھ مل جائے کہ اس سے قریب کے باپ میں دوسرا کوئی نہ ملے تو اسی کو میراث ملے گی، نہ کہ ان کو جو اوپر کے باپ میں ملتے ہیں(2)۔ اگر کئی ایک ان میں سے ایک ہی باپ میں جا کر شریک ہوں تو یہ دیکھا جائے گا کہ رشتہ کس کا نزدیک ہے، اگرچہ نزدیک والا سو تیلا ہو تب بھی میراث اسی کو ملے گی، اور دور والا سگا بھی ہو تب بھی میراث اس کو نہ ملے گی(3)۔ اور جو رشتے میں سب برابر ہوں اور سب سگے ہوں، یا سب سوتیلے ہوں، تو ترکے میں سے برابر برابر حصّہ پائیں گے۔ اگر اُن میں سے بعضوں کا باپ میّت کے باپ کا سگا بھائی ہو اور بعضوں کا باپ میّت کے باپ کا سوتیلا بھائی ہو تو میراث سگے بھائی کی اولاد کو ملے گی، نہ کہ سوتیلے کی اولاد کو، کیونکہ اللہ جل جلالہُ فرماتا ہے: ”ناطے والے ایک دوسرے کے قریب ہیں اللہ کی کتاب میں، اللہ خوب جانتا ہے۔“
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا، الذي لا اختلاف فيه، والذي ادركت عليه اهل العلم ببلدنا، ان ابن الاخ للام، والجد ابا الام، والعم اخا الاب للام، والخال، والجدة ام ابي الام، وابنة الاخ للاب والام، والعمة، والخالة، لا يرثون بارحامهم شيئا. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا، الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ، وَالَّذِي أَدْرَكْتُ عَلَيْهِ أَهْلَ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا، أَنَّ ابْنَ الْأَخِ لِلْأُمِّ، وَالْجَدَّ أَبَا الْأُمِّ، وَالْعَمَّ أَخَا الْأَبِ لِلْأُمِّ، وَالْخَالَ، وَالْجَدَّةَ أُمَّ أَبِي الْأُمِّ، وَابْنَةَ الْأَخِ لِلْأَبِ وَالْأُمِّ، وَالْعَمَّةَ، وَالْخَالَةَ، لَا يَرِثُونَ بِأَرْحَامِهِمْ شَيْئًا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اخیانی بھائی کا بیٹا اور نانا اور باپ کا اخیانی بھائی اور ماموں اور نانا کی ماں اور سگے بھائی کے بیٹے اور پھوبھی اور خالہ وارث نہ ہوں گے۔
قال مالك: وإنه لا ترث امراة، هي ابعد نسبا من المتوفى، ممن سمي في هذا الكتاب، برحمها شيئا. وإنه لا يرث احد من النساء شيئا. إلا حيث سمين. وإنما ذكر اللٰه تبارك وتعالى في كتابه. ميراث الام من ولدها، وميراث البنات من ابيهن، وميراث الزوجة من زوجها، وميراث الاخوات للاب والام، وميراث الاخوات للاب، وميراث الاخوات للام، وورثت الجدة بالذي جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم فيها، والمراة ترث من اعتقت هي نفسها. لان اللٰه تبارك وتعالى قال في كتابه: ﴿فإخوانكم في الدين ومواليكم﴾ [الاحزاب: 5]. قَالَ مَالِكٌ: وَإِنَّهُ لَا تَرِثُ امْرَأَةٌ، هِيَ أَبْعَدُ نَسَبًا مِنَ الْمُتَوَفَّى، مِمَّنْ سُمِّيَ فِي هَذَا الْكِتَابِ، بِرَحِمِهَا شَيْئًا. وَإِنَّهُ لَا يَرِثُ أَحَدٌ مِنَ النِّسَاءِ شَيْئًا. إِلَّا حَيْثُ سُمِّينَ. وَإِنَّمَا ذَكَرَ اللّٰهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كِتَابِهِ. مِيرَاثَ الْأُمِّ مِنْ وَلَدِهَا، وَمِيرَاثَ الْبَنَاتِ مِنْ أَبِيهِنَّ، وَمِيرَاثَ الزَّوْجَةِ مِنْ زَوْجِهَا، وَمِيرَاثَ الْأَخَوَاتِ لِلْأَبِ وَالْأُمِّ، وَمِيرَاثَ الْأَخَوَاتِ لِلْأَبِ، وَمِيرَاثَ الْأَخَوَاتِ لِلْأُمِّ، وَوَرِثَتِ الْجَدَّةُ بِالَّذِي جَاءَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا، وَالْمَرْأَةُ تَرِثُ مَنْ أَعْتَقَتْ هِيَ نَفْسُهَا. لِأَنَّ اللّٰهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ فِي كِتَابِهِ: ﴿فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ﴾ [الأحزاب: 5].
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو عورت دور کے رشتے کی ہو ان عورتوں میں سے، وہ وارث نہ ہوگی اور عورتوں میں کوئی وارث نہیں مگر جن کو اللہ جل جلالہُ نے بیان کردیا ہے اپنی کتاب میں، وہ ماں ہے اور بیٹی اور بیوی اور بہن سگی اور سوتیلی اور بہن اخیانی، اور نانی دادی کی میراث حدیث سے ثابت ہے، اسی طرح عورت اپنے اس غلام کی وارث ہوگی جس کو وہ آزاد کرے۔
سیدنا اُسامہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1588، 3058، 4282، 6764، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1614، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2985، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5149، 6033، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2962، 4200، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 4241،، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2010، 2909، 2910، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2107، 2107 م، والدارمي فى «مسنده» برقم: 3041، 3043، 3044، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2729، 2730، 2942، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 135، 136، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9838، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22157، والحميدي فى «مسنده» برقم: 551، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9851، فواد عبدالباقي نمبر: 27 - كِتَابُ الْفَرَائِضِ-ح: 10»