امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اجماعی ہے کہ جب ماں یا باپ مر جائے اور لڑکے اور لڑکیاں چھوڑ جائے تو لڑکے کو دوہرا حصّہ اور لڑکی کو ایک حصّہ ملے گا۔ اگر میّت کی صرف لڑکیاں ہوں دو یا دو سے زیادہ تو دو تہائی ترکے کے ان کو ملیں گے، اگر ایک ہی لڑکی ہے اس کو آدھا ترکہ ملے گا۔ اگر میت کے ذوی الفروض میں سے بھی کوئی ہو اور لڑکے لڑکیاں بھی ہوں، تو پہلے ذوی الفروض کا حصّہ دے کر جو بچ رہے گا اس میں سے دوہرا حصّہ لڑکے کو اور ایک حصّہ لڑکی کو ملے گا(1)، اور جب بیٹے بیٹیاں نہ ہوں تو پوتے پوتیاں ان کی مثل ہوں گے، جیسے وہ وارث ہوتے ہیں یہ بھی وارث ہوں گے، اور جیسے وہ محجوب (محروم) ہوتے ہیں یہ بھی محجوب ہوں گے۔ اگر ایک بیٹا بھی موجود ہوگا تو بیٹے کی اولاد کو یعنی پوتے اور پوتیوں کو ترکہ نہ ملے گا، اگر کوئی بیٹا نہ ہو لیکن دو بیٹیاں یا زیادہ موجود ہوں تو پوتیوں کو کچھ نہ پہنچے گا، مگر جس صورت میں ان پوتیوں کے ساتھ کوئی پوتا بھی ہو، خواہ انہی کے ہمرتبہ ہو یا ان سے بھی زیادہ دور ہو (مثلاً پوتے کا بیٹا یا پوتا ہو)، تو بعد بیٹیوں کے حصّے دینے کے اور باقی ذوی الفروض کے جو کچھ بچ رہے گا اس کو «﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾» کے بانٹ لیں گے، اور اس پوتے کے ساتھ وہ پوتیاں جو اس سے زیادہ میّت کے (رشتہ وترکہ میں) قریب ہیں، یا اس کے برابر ہیں وارث ہوں گی، جو اس سے بھی زیادہ پوتیاں دور ہیں وہ وارث نہ ہوں گی۔ اور جو کچھ نہ بچے گا تو پوتیوں اور پوتے کو کچھ نہ ملے گا(2)۔ اگر میّت کی صرف ایک بیٹی ہو تو اس کو آدھا مال ملے گا اور پوتیوں کو جتنی ہوں چھٹا حصّہ ملے گا۔ اگر ان پوتیوں کے ساتھ کوئی پوتا بھی ہو تو اس صورت میں ذوی الفورض کے حصّے ادا کر دیں گے اور جو بچ رہے گا وہ «﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾» کے یہ پوتا اور پوتیاں تقسیم کرلیں گے، اور یہ پوتا ان پوتیوں کو حصّہ دلادے گا جو اس کے ہمرتبہ ہوں یا اس سے زیادہ قریب ہوں، مگر جو اس سے بعید ہوں گی وہ محروم ہوں گی، اگر ذوی الفروض سے کچھ نہ بچے تو ان پوتے پوتیوں کو کچھ نہ ملے گا، کیونکہ اللہ جل جلالہُ اپنی کتاب میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ”وصیت کرتا ہے تم کو اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد میں مرد کو دوہرا حصّہ اور عورت کو ایک، اگر سب بیٹیاں ہوں دو سے زیادہ تو ان کو دوتہائی مال ملے گا، اگر ایک بیٹی ہو تو اس کو نصف ملے گا۔“
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب میّت کا لڑکا لڑکی یا پوتا پوتی نہ ہو تو اس کے خاوند کو آدھا مال ملے گا، اگر میّت کی اولاد ہے یا میّت کے بیٹے کی اولاد ہے مرد ہو یا عورت تو خاوند کو چوتھائی حصّہ ملے گا بعد ادا کرنے وصیت اور دین (قرض) کے، اور خاوند جب مر جائے اور اولاد نہ ہو اور نہ اس کے بیٹے کی اولاد ہو تو اس کی بی بی کو چوتھائی حصّہ ملے گا۔ اگر اولاد ہو یا بیٹے کی اولاد ہو مرد ہو یا عورت تو بیوی کو آٹھواں حصّہ ملے گا بعد وصیت اور دین (قرض) ادا کرنے کے، کیونکہ اللہ جل جلالہُ ارشاد فرماتا ہے: ”تمہارے واسطے آدھا ترکہ ہے تمہاری بیویوں کا اگر ان کی اولاد نہ ہو، اور اگر ان کی اولاد ہو تو تم کو چوتھائی ملے گا بعد وصیت اور دین کے، اور عورتوں کو تمہارے ترکہ سے چوتھائی ملے گا اگر تمہاری اولاد نہ ہو، اور اگر اولاد ہو تو ان کو آٹھواں ملے گا بعد وصیت اور دین (قرض) ادا کرنے کے۔“
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزد یک یہ حکم اتفاتی ہے کہ میّت اگر بیٹا یا پوتا چھوڑ جائے تو اس کے باپ کو چھٹا حصّہ ملے گا، اگر میّت کا بیٹا یا پوتا نہ ہو تو جتنے ذوی الفروض اور ہوں ان کا حصّہ دے کر جو بچ رہے گا، چھٹا ہو یا چھٹے سے زیادہ وہ باپ کو ملے گا۔ اگر ذوی الغرض کے حصّے ادا کر کے (چھٹا حصّہ) نہ بچے تو باپ کو چھٹا حصّہ فرض کے طور پر دلا دیں گے(1)۔ میّت کی ماں کو جب میّت کی اولاد، یا اس کے بیٹے کی اولاد، یا دو یا زیادہ بھائی بہنیں سگے یا سوتیلے، یا مادری(2) ہوں تو چھٹا حصّہ ملے گا۔ ورنہ پورا تہائی ماں کو ملے گا جب میّت کی اولاد نہ ہو، اس کے بیٹے کی اولاد نہ ہو،، اس کے دو بھائی یا دو بہنیں ہوں۔ مگر دو مسئلوں میں ایک یہ کہ میّت زوجہ اور ماں باپ چھوڑ جائے تو زوجہ کو چوتھائی ملے گا اور ماں کو جو بچ رہا اس کا تہائی، یعنی كل مال کا چوتھائی ملے گا۔ دوسرا یہ کہ ایک عورت مر جائے اور خاوند اور ماں باپ کو چھوڑ جائے، تو خاوند کو آدھا ملے گا، بعد اس کے جو بچ رہے گا اس کا تہائی ماں کو ملے گا، یعنی کل مال کا چھٹا، کیونکہ اللہ جل جلالہُ فرماتا ہے اپنی کتاب میں: ”میّت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصّہ ملے گا ترکے میں سے اگرمیّت کی اولاد ہو، اگر اس کی اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوں تو ماں کو تہائی حصّہ ملے گا اور باقی باپ کو، اگر میّت کے بھائی ہوں یا نہیں تو ماں کو چھٹا حصّہ ملے گا۔“ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ سنت جاری ہے اس امر پر کہ بھائیوں سے مراد دو بھائی یا دو بہنیں یا دو سے ز یادہ۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اخیانی بھائی اور اخیانی بہنیں جب کہ میّت کی اولاد ہو یا اس کے بیٹے کی اولاد ہو، یعنی پوتے یا پوتیاں، یا میّت کا باپ یا دادا موجود ہو تو ترکے سے محروم رہیں گے، البتہ اگر یہ لوگ نہ ہوں تو ترکہ پائیں گے، اگر ایک بھائی اخیانی یا ایک بہن اخیانی ہو تو اس کو چھٹا حصّہ ملے گا، اگر دو ہوں تو ہر ایک کو چھٹا حصّہ ملے گا، اگر دو سے زیادہ ہوں تو تہائی مال میں سب شریک ہوں گے، برابر برابر بانٹ لیں گے، بہن بھی بھائی کے برابر لے گی، کیونکہ اللہ جل جلالہُ فرماتا ہے: ”اگر کوئی شخص مر جائے جو کلالہ ہو، یا کوئی عورت مر جائے کلالہ ہو کر اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن (اخیانی جیسے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی قراءت میں ہے) ہو تو ہر ایک کو چھٹا حصّہ ملے گا، اگر اس سے زیادہ ہوں (یعنی ایک بھائی اور ایک بہن یا دو بہنیں دو بھائی یا اس سے زیادہ ہوں) تو وہ سب تہائی میں شریک ہوں گے۔“ یعنی مرد اور عورت سب برابرپائیں گے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ سگے بھائی بہن بیٹے یا پوتے کے ہوتے ہوئے، یا باپ کے ہوتے ہوئے، کچھ نہ پائیں گے، بلکہ سگے بھائی بہن بیٹیوں یا پوتیوں کے ساتھ وارث ہوتے ہیں۔ جب میّت کا دادایعنی باپ کا باپ زندہ نہ ہو تو جس قدر مال بعد ذوی الفروض کے حصّہ دینے کے بچ رہے گا وہ سگے بہن بھائیوں کا ہوگا، بانٹ لیں گے اس کو اللہ کی کتاب کے موافق «﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾» کے طور پر، اور اگر کچھ نہ بچے گا تو کچھ نہ پائیں گے۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر میت کا باپ اور دادا یعنی باپ کا باپ نہ ہو، نہ اس کا بیٹا ہو، نہ پوتا ہو، نہ بیٹے نہ پوتے صرف ایک بہن ہو سگی، تو اس کو آدھا مال ملے گا، اگر دو سگی بہنیں ہوں یا زیادہ تو دو تہائی ملیں گے، اگر ان بہنوں کے ساتھ کوئی بھائی بھی ہو تو بہنوں کو کوئی معین حصّہ نہ ملے گا، بلکہ اور ذوی الفروض کا فرض ادا کر کے جو بچ رہے گا وہ «﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾» کے طور پر بھائی بہن بانٹ لیں گے، مگر ایک مسئلہ میں سگے بھائی یا بہنوں کے لیے کچھ نہیں بچتا تو وہ اخیانی بھائی بہنوں کے شریک ہوجائیں گے۔ صورت اس مسئلے کی یہ ہے: ایک عورت مر جائے اور خاوند اور ماں اور سگے بھائی بہنیں اور اخیانی بھائی بہنیں چھوڑ جائے، تو خاوند کو آدھا، اور ماں کو چھٹا، اور اخیانی بھائی بہنوں کو تہائی ملے گا، اب سگے بہن بھائیوں کے واسطے کچھ نہ بچا تو تہائی میں وہ اخیانی بھائی بہنوں کے شریک ہو جائیں گے، مگر مرد اور عورت سب کو برابر پہنچے گا، اس واسطے کہ سب بھائی بہن مادری ہیں، ماں سب کی ایک ہے۔ کیونکہ اللہ جل جلالہُ فرماتا ہے: ”اگر کوئی شخص کلالہ مرے اس کا بھائی ہو یا بہن تو ہر ایک کو چھٹا ملے گا، اگر زیادہ ہوں تو سب شریک ہوں گے تہائی میں۔“ پس حقیقی بہن بھائی بھی اخیانی بہن بھائیوں کے ساتھ شریک ہو گئے تہائی میں اس مسئلے میں اس لیے کہ وہ بھی مادری بھائی ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جب سگے بھائی بہنیں نہ ہوں تو سوتیلے بھائی بہنیں ان کی مثل ہوں گے، ان کا مرد ان کے مرد کے برابر ہے اور ان کی عورت ان کی عورت کے برابر ہے۔ (اگر میّت کا صرف ایک سوتیلا بھائی ہو تو کل مال لے لے گا، اگر صرف ایک سوتیلی بہن ہو تو آدھا لے گی، اگر دو یا تین سوتیلی بہنیں ہوں تو دو تہائی لیں گی، اگر سوتیلے بھائی اور بہن بھی ہوں تو «﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾» کے طور پر تقسیم ہوگا) مگر سگے بھائی بہنوں میں یہ فرق ہے کہ سوتیلے بھائی بہن اخیانی بھائی بہنوں کے اس مسئلے میں شریک نہ ہوں گے جو ابھی بیان ہوا، کیونکہ ان کی ماں جدا ہے۔ اگر سگی بہنیں اور سوتیلی بہنیں جمع ہوں، اور سگی بہنوں کے ساتھ کوئی سگا بھائی بھی ہو، تو سوتیلی بہنوں کو کچھ نہیں ملے گا، اگر سگا بھائی نہ ہو بلکہ ایک سگی بہن ہو اور باقی سوتیلی بہنیں تو سگی بہن کو آدھا ملے گا اور سوتیلی بہنوں کو چھٹا، دو تہائی کے پورا کرنے کے واسطے۔ اگر سوتیلی بہنوں کے ساتھ کوئی سوتیلا بھائی بھی ہو تو ان کا کوئی حصّہ معین نہ ہوگا، بلکہ ذوی الفروض کو دے کر جو بچ رہے ہوں یا زیادہ، تو دو تہائی ان کو ملیں گے، اور سوتیلی بہنوں کو کچھ نہ ملے گا، مگر جب سوتیلی بہنوں کے ساتھ کوئی سوتیلا بھائی بھی ہو تو ذوی الفروض کا حصّہ ادا کر کے جو کچھ بچے گا اس کو «﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾» کے طور پر بانٹ لیں گے۔ اگر کچھ نہ بچے گا تو کچھ نہ ملے گا اخیانی بھائی بہنوں کو خواہ سگے بھائی بہنوں کے ساتھ ہوں یا سوتیلے بھائی بہنوں کے۔ ایک کو چھٹا ملے گا اور دو کو تہائی، مرد اور عورت ان کے سب برابر ہیں۔
عن يحيى بن سعيد، انه بلغه ان معاوية بن ابي سفيان كتب إلى زيد بن ثابت يساله عن الجد، فكتب إليه زيد بن ثابت: إنك كتبت إلي تسالني عن الجد، واللٰه اعلم، وذلك مما لم يكن يقضي فيه إلا الامراء - يعني الخلفاء - وقد حضرت الخليفتين قبلك يعطيانه، النصف مع الاخ الواحد، والثلث مع الاثنين، فإن كثرت الإخوة لم ينقصوه من الثلث.عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ كَتَبَ إِلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ يَسْأَلُهُ عَنِ الْجَدِّ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: إِنَّكَ كَتَبْتَ إِلَيَّ تَسْأَلُنِي عَنِ الْجَدِّ، وَاللّٰهُ أَعْلَمُ، وَذَلِكَ مِمَّا لَمْ يَكُنْ يَقْضِي فِيهِ إِلَّا الْأُمَرَاءُ - يَعْنِي الْخُلَفَاءَ - وَقَدْ حَضَرْتُ الْخَلِيفَتَيْنِ قَبْلَكَ يُعْطِيَانِهِ، النِّصْفَ مَعَ الْأَخِ الْوَاحِدِ، وَالثُّلُثَ مَعَ الِاثْنَيْنِ، فَإِنْ كَثُرَتِ الْإِخْوَةُ لَمْ يُنَقِّصُوهُ مِنَ الثُّلُثِ.
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے (خط) لکھا سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اور پوچھا دادا کی میراث کے متعلق، سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جواب لکھا کہ تم نے مجھ سے پوچھا دادا کی میراث کے متعلق، اور یہ وہ مسئلہ ہے جس میں خلفاء حکم کرتے تھے، میں حاضر تھا تم سے پہلے دو خلفاؤں کے سامنے (سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما) تو ایک بھائی کے ساتھ وہ دادا کو آدھا دلاتے تھے، اور دو بھائیوں کے ساتھ تہائی، اگر بہت بھائی بہن ہوتے تب بھی دادا کو تہائی سے کم نہ دلاتے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12434، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 19062، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 31218، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 63، فواد عبدالباقي نمبر: 27 - كِتَابُ الْفَرَائِضِ-ح: 1»
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، انه بلغه، ان معاوية بن ابي سفيان كتب إلى زيد بن ثابت يساله عن الجد، فكتب إليه زيد بن ثابت :" إنك كتبت إلي تسالني عن الجد والله اعلم، وذلك مما لم يكن يقضي فيه إلا الامراء يعني الخلفاء، وقد حضرت الخليفتين قبلك يعطيانه النصف مع الاخ الواحد، والثلث مع الاثنين، فإن كثرت الإخوة لم ينقصوه من الثلث حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ كَتَبَ إِلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ يَسْأَلُهُ عَنِ الْجَدِّ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ :" إِنَّكَ كَتَبْتَ إِلَيَّ تَسْأَلُنِي عَنِ الْجَدِّ وَاللَّهُ أَعْلَمُ، وَذَلِكَ مِمَّا لَمْ يَكُنْ يَقْضِي فِيهِ إِلَّا الْأُمَرَاءُ يَعْنِي الْخُلَفَاءَ، وَقَدْ حَضَرْتُ الْخَلِيفَتَيْنِ قَبْلَكَ يُعْطِيَانِهِ النِّصْفَ مَعَ الْأَخِ الْوَاحِدِ، وَالثُّلُثَ مَعَ الْاثْنَيْنِ، فَإِنْ كَثُرَتِ الْإِخْوَةُ لَمْ يُنَقِّصُوهُ مِنَ الثُّلُثِ
حضرت سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے دادا کے واسطے بھائی بہنوں کے ساتھ ایک تہائی دلایا۔
قال مالك: والامر المجتمع عليه عندنا، والذي ادركت عليه اهل العلم ببلدنا، ان الجد ابا الاب، لا يرث مع الاب دنيا شيئا، وهو يفرض له مع الولد الذكر، ومع ابن الابن الذكر، السدس فريضة. وهو فيما سوى ذلك، ما لم يترك المتوفى اما او اختا لابيه، يبدا باحد إن شركه بفريضة مسماة فيعطون فرائضهم. فإن فضل من المال السدس فما فوقه، فرض للجد السدس فريضة. قَالَ مَالِكٌ: وَالْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا، وَالَّذِي أَدْرَكْتُ عَلَيْهِ أَهْلَ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا، أَنَّ الْجَدَّ أَبَا الْأَبِ، لَا يَرِثُ مَعَ الْأَبِ دِنْيَا شَيْئًا، وَهُوَ يُفْرَضُ لَهُ مَعَ الْوَلَدِ الذَّكَرِ، وَمَعَ ابْنِ الِابْنِ الذَّكَرِ، السُّدُسُ فَرِيضَةً. وَهُوَ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ، مَا لَمْ يَتْرُكِ الْمُتَوَفَّى أُمًّا أَوْ أُخْتًا لِأَبِيهِ، يُبَدَّأُ بِأَحَدٍ إِنْ شَرَّكَهُ بِفَرِيضَةٍ مُسَمَّاةٍ فَيُعْطَوْنَ فَرَائِضَهُمْ. فَإِنْ فَضَلَ مِنَ الْمَالِ السُّدُسُ فَمَا فَوْقَهُ، فُرِضَ لِلْجَدِّ السُّدُسُ فَرِيضَةً.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ دادا باپ کے ہوتے ہوئے محروم ہو، لیکن بیٹے اور پوتے کے ساتھ دادا کو چھٹا حصّہ بطورِ فرض کے ملتا ہے، اگر بیٹا یا پوتا نہ ہو، نہ سگے بھائی بہن ہوں، نہ سوتیلے بہن بھائی، مگر اور ذوی الفروض ہوں تو ان کا حصّہ دے کر اگر چھٹا حصّہ بچ رہے گا یا اس سے زیادہ تو دادا کو مل جائے گا، اگر اتنا نہ بچے تو دادا کا چھٹا حصّہ بطورِ فرض کے مقرر ہوگا۔