امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص جانور کرایہ پر لے اس اقرار سے کہ فلاں مقام تک جاؤں گا پھر اس سے آگے بڑھ جائے تو جانور کے مالک کو اختیار ہے کہ اگر چاہے جتنا آگے گیا ہے اتنی دور کا کرایہ دستور کے موافق اور لے لے، نہیں تو اپنے جانور کی قیمت اس دن کی اور اس مقام کی جہاں تک جانا ٹھہرا تھا کرایہ دار سے لے لے، اور کرایہ جو پہلے ٹھہرچکا تھا وہ بھی لے لے، اگر صرف جانے پر کرایہ ہوا تھا اور جو آنے پر کرایہ ہوا تھا تو جو کرایہ ٹھہرا تھا اس کا آدھا لے، کیونکہ آدھا کرایہ جانے کا تھا اور آدھا آنے کا، اور جس وقت کرایہ دار نے زیادتی کی اس وقت اس پر آدھا ہی کرایہ واجب ہوا تھا۔ اگر کرایہ دار نے آنے جانے کے لیے جانور کرایہ پر لیا، اور جب جانے کی جگہ پہنچا تو وہ جانور مر گیا، تو کرایہ دار پر تاوان نہ ہوگا، اور مالک کو آدھا کرایہ ملے گا، اسی طرح اگر رب المال مضارب کو منع کر دے کہ فلاں فلاں مال نہ خریدنا، اور مضارب وہی خریدے اس خیال سے کہ میں ضمان دے دوں گا، اور نفع سارا مار کھاؤں گا، تو رب المال کو اختیار ہے چاہے اس سے مال میں مضاربت قائم رکھے، چاہے اپنا رأس المال پھیر لے، اسی طرح بضاعت میں صاحب مال اگر یہ کہے کہ فلاں فلاں مال خریدنا، اور وہ شخص دوسرا مال خریدے تو صاحب مال کو اختیار ہے چاہے اسی مال کو اپنا سمجھے یا اپنا رأس المال پھیر لے۔
قال يحيى: سمعت مالكا، يقول: الامر عندنا في الرجل يغتصب المراة بكرا كانت او ثيبا، إنها إن كانت حرة فعليه صداق مثلها، وإن كانت امة فعليه ما نقص من ثمنها، والعقوبة في ذلك على المغتصب ولا عقوبة على المغتصبة في ذلك كله، وإن كان المغتصب عبدا فذلك على سيده إلا ان يشاء ان يسلمهقَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي الرَّجُلِ يَغْتَصِبُ الْمَرْأَةَ بِكْرًا كَانَتْ أَوْ ثَيِّبًا، إِنَّهَا إِنْ كَانَتْ حُرَّةً فَعَلَيْهِ صَدَاقُ مِثْلِهَا، وَإِنْ كَانَتْ أَمَةً فَعَلَيْهِ مَا نَقَصَ مِنْ ثَمَنِهَا، وَالْعُقُوبَةُ فِي ذَلِكَ عَلَى الْمُغْتَصِبِ وَلَا عُقُوبَةَ عَلَى الْمُغْتَصَبَةِ فِي ذَلِكَ كُلِّهِ، وَإِنْ كَانَ الْمُغْتَصِبُ عَبْدًا فَذَلِكَ عَلَى سَيِّدِهِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ أَنْ يُسَلِّمَهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہ حکم ہے: جو شخص کسی عورت کو غصب کرے بکر ہو یا ثیبہ، اگر وہ آزاد ہے تو اس پر مہر مثل لازم ہے، اور اگر لونڈی ہے تو جتنی قیمت اس کی جماع کی وجہ سے کم ہوگئی دینا ہوگا، اور اس کے ساتھ غصب کرنے والے کو سزا بھی ہوگی، لیکن لونڈی کو سزا نہ ہوگی۔ اگر غلام نے کسی کی لونڈی غصب کر کے یہ کام کیا تو تاوان اس کے مولیٰ پر ہوگا، مگر جب مولیٰ اس غلام کو جنایت کے بدلے میں دے ڈالے۔
ال مالك: الامر عندنا فيمن استهلك شيئا من الحيوان بغير إذن صاحبه، ان عليه قيمته يوم استهلكه، ليس عليه ان يؤخذ بمثله من الحيوان، ولا يكون له ان يعطي صاحبه، فيما استهلك شيئا من الحيوان، ولكن عليه قيمته يوم استهلكه، القيمة اعدل ذلك فيما بينهما في الحيوان والعروض. َالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِيمَنِ اسْتَهْلَكَ شَيْئًا مِنَ الْحَيَوَانِ بِغَيْرِ إِذْنِ صَاحِبِهِ، أَنَّ عَلَيْهِ قِيمَتَهُ يَوْمَ اسْتَهْلَكَهُ، لَيْسَ عَلَيْهِ أَنْ يُؤْخَذَ بِمِثْلِهِ مِنَ الْحَيَوَانِ، وَلَا يَكُونُ لَهُ أَنْ يُعْطِيَ صَاحِبَهُ، فِيمَا اسْتَهْلَكَ شَيْئًا مِنَ الْحَيَوَانِ، وَلَكِنْ عَلَيْهِ قِيمَتُهُ يَوْمَ اسْتَهْلَكَهُ، الْقِيمَةُ أَعْدَلُ ذَلِكَ فِيمَا بَيْنَهُمَا فِي الْحَيَوَانِ وَالْعُرُوضِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص مالک سے بن پوچھے اس کے جانور کو ہلاک کر دے تو اسے اس دن کی قیمت دینی ہوگی نہ کہ اس کے مانند اور جانور، اور اسی طرح مالک کو جانور کے بدلے میں ہمیشہ اسی دن کی قیمت دی جائے گی نہ کہ جانور، یہی حکم ہے اور اسباب کا۔
قال مالك: فيمن استهلك شيئا من الطعام بغير إذن صاحبه فإنما يرد على صاحبه، مثل طعامه بمكيلته من صنفه، وإنما الطعام بمنزلة الذهب والفضة، إنما يرد من الذهب الذهب، ومن الفضة الفضة، وليس الحيوان بمنزلة الذهب في ذلك. فرق بين ذلك السنة، والعمل المعمول به. قَالَ مَالِكٌ: فِيمَنِ اسْتَهْلَكَ شَيْئًا مِنَ الطَّعَامِ بِغَيْرِ إِذْنِ صَاحِبِهِ فَإِنَّمَا يَرُدُّ عَلَى صَاحِبِهِ، مِثْلَ طَعَامِهِ بِمَكِيلَتِهِ مِنْ صِنْفِهِ، وَإِنَّمَا الطَّعَامُ بِمَنْزِلَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، إِنَّمَا يَرُدُّ مِنَ الذَّهَبِ الذَّهَبَ، وَمِنَ الْفِضَّةِ الْفِضَّةَ، وَلَيْسَ الْحَيَوَانُ بِمَنْزِلَةِ الذَّهَبِ فِي ذَلِكَ. فَرَقَ بَيْنَ ذَلِكَ السُّنَّةُ، وَالْعَمَلُ الْمَعْمُولُ بِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ البتہ اگر کسی کا اناج تلف کر دے تو اسی قسم کا اتنا ہی اناج دے دے، کیونکہ اناج چاندی سونے (جن کا مثل اور بدل ہوا کرتا ہے) کے مشابہ ہے، نہ کہ جانور کے۔