قال مالك: في هذه الآية إنها منسوخة. قول اللٰه تبارك وتعالى: ﴿إذا حضر احدكم الموت إن ترك خيرا الوصية للوالدين والاقربين﴾ [البقرة: 180] نسخها ما نزل من قسمة الفرائض في كتاب اللٰه عز وجل. قَالَ مَالِكٌ: فِي هَذِهِ الْآيَةِ إِنَّهَا مَنْسُوخَةٌ. قَوْلُ اللّٰهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: ﴿إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ﴾ [البقرة: 180] نَسَخَهَا مَا نَزَلَ مِنْ قِسْمَةِ الْفَرَائِضِ فِي كِتَابِ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ جو آیت ہے: «﴿إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ﴾» یعنی: ”جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے اور مال چھوڑ جائے تو وصیت کرے والدین اور ناطے والوں کے واسطے۔“ یہ آیت منسوخ ہے آیاتِ میراث سے جن میں اللہ نے ہر ایک کا حصّہ مقرر کردیا۔
قال مالك: السنة الثابتة عندنا التي لا اختلاف فيها. انه لا تجوز وصية لوارث. إلا ان يجيز له ذلك ورثة الميت وانه إن اجاز له بعضهم. وابى بعض. جاز له حق من اجاز منهم. ومن ابى، اخذ حقه من ذلك. قَالَ مَالِكٌ: السُّنَّةُ الثَّابِتَةُ عِنْدَنَا الَّتِي لَا اخْتِلَافَ فِيهَا. أَنَّهُ لَا تَجُوزُ وَصِيَّةٌ لِوَارِثٍ. إِلَّا أَنْ يُجِيزَ لَهُ ذَلِكَ وَرَثَةُ الْمَيِّتِ وَأَنَّهُ إِنْ أَجَازَ لَهُ بَعْضُهُمْ. وَأَبَى بَعْضٌ. جَازَ لَهُ حَقُّ مَنْ أَجَازَ مِنْهُمْ. وَمَنْ أَبَى، أَخَذَ حَقَّهُ مِنْ ذَلِكَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک وارث کے واسطے وصیت درست نہیں ہے۔ مگر جب اور ورثاء اجازت دیں، اور اگر بعض ورثاء اجازت دیں اور بعض نہ دیں تو جو اجازت دیں گے ان کے حصّے میں سے وصیت ادا کی جائے گی۔
قال مالك في المريض الذي يوصي فيستاذن ورثته في وصيته وهو مريض: ليس له من ماله إلا ثلثه. فياذنون له ان يوصي لبعض ورثته باكثر من ثلثه. إنه ليس لهم ان يرجعوا في ذلك. ولو جاز ذلك لهم، صنع كل وارث ذلك فإذا هلك الموصي، اخذوا ذلك لانفسهم ومنعوه الوصية في ثلثه، وما اذن له به في ماله. قال: فاما ان يستاذن ورثته في وصية يوصي بها لوارث في صحته، فياذنون له. فإن ذلك لا يلزمهم. ولورثته ان يردوا ذلك إن شاءوا. وذلك ان الرجل إذا كان صحيحا كان احق بجميع ماله. يصنع فيه ما شاء إن شاء ان يخرج من جميعه، خرج فيتصدق به. او يعطيه من شاء وإنما يكون استئذانه ورثته جائزا على الورثة. إذا اذنوا له حين يحجب عنه ماله، ولا يجوز له شيء إلا في ثلثه. وحين هم احق بثلثي ماله منه. فذلك حين يجوز عليهم امرهم وما اذنوا له به. فإن سال بعض ورثته ان يهب له ميراثه حين تحضره الوفاة فيفعل. ثم لا يقضي فيه الهالك شيئا. فإنه رد على من وهبه إلا ان يقول له الميت: فلان، لبعض ورثته ضعيف، وقد احببت ان تهب له ميراثك فاعطاه إياه فإن ذلك جائز إذا سماه الميت له. قال: وإن وهب له ميراثه. ثم انفذ الهالك بعضه وبقي بعض فهو رد على الذي وهب يرجع إليه ما بقي بعد وفاة الذي اعطيه. قَالَ مَالِكٌ فِي الْمَرِيضِ الَّذِي يُوصِي فَيَسْتَأْذِنُ وَرَثَتَهُ فِي وَصِيَّتِهِ وَهُوَ مَرِيضٌ: لَيْسَ لَهُ مِنْ مَالِهِ إِلَّا ثُلُثُهُ. فَيَأْذَنُونَ لَهُ أَنْ يُوصِيَ لِبَعْضِ وَرَثَتِهِ بِأَكْثَرَ مِنْ ثُلُثِهِ. إِنَّهُ لَيْسَ لَهُمْ أَنْ يَرْجِعُوا فِي ذَلِكَ. وَلَوْ جَازَ ذَلِكَ لَهُمْ، صَنَعَ كُلُّ وَارِثٍ ذَلِكَ فَإِذَا هَلَكَ الْمُوصِي، أَخَذُوا ذَلِكَ لِأَنْفُسِهِمْ وَمَنَعُوهُ الْوَصِيَّةَ فِي ثُلُثِهِ، وَمَا أُذِنَ لَهُ بِهِ فِي مَالِهِ. قَالَ: فَأَمَّا أَنْ يَسْتَأْذِنَ وَرَثَتَهُ فِي وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا لِوَارِثٍ فِي صِحَّتِهِ، فَيَأْذَنُونَ لَهُ. فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَلْزَمُهُمْ. وَلِوَرَثَتِهِ أَنْ يَرُدُّوا ذَلِكَ إِنْ شَاءُوا. وَذَلِكَ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا كَانَ صَحِيحًا كَانَ أَحَقَّ بِجَمِيعِ مَالِهِ. يَصْنَعُ فِيهِ مَا شَاءَ إِنْ شَاءَ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ جَمِيعِهِ، خَرَجَ فَيَتَصَدَّقُ بِهِ. أَوْ يُعْطِيهِ مَنْ شَاءَ وَإِنَّمَا يَكُونُ اسْتِئْذَانُهُ وَرَثَتَهُ جَائِزًا عَلَى الْوَرَثَةِ. إِذَا أَذِنُوا لَهُ حِينَ يُحْجَبُ عَنْهُ مَالُهُ، وَلَا يَجُوزُ لَهُ شَيْءٌ إِلَّا فِي ثُلُثِهِ. وَحِينَ هُمْ أَحَقُّ بِثُلُثَيْ مَالِهِ مِنْهُ. فَذَلِكَ حِينَ يَجُوزُ عَلَيْهِمْ أَمْرُهُمْ وَمَا أَذِنُوا لَهُ بِهِ. فَإِنْ سَأَلَ بَعْضُ وَرَثَتِهِ أَنْ يَهَبَ لَهُ مِيرَاثَهُ حِينَ تَحْضُرُهُ الْوَفَاةُ فَيَفْعَلُ. ثُمَّ لَا يَقْضِي فِيهِ الْهَالِكُ شَيْئًا. فَإِنَّهُ رَدٌّ عَلَى مَنْ وَهَبَهُ إِلَّا أَنْ يَقُولَ لَهُ الْمَيِّتُ: فُلَانٌ، لِبَعْضِ وَرَثَتِهِ ضَعِيفٌ، وَقَدْ أَحْبَبْتُ أَنْ تَهَبَ لَهُ مِيرَاثَكَ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ فَإِنَّ ذَلِكَ جَائِزٌ إِذَا سَمَّاهُ الْمَيِّتُ لَهُ. قَالَ: وَإِنْ وَهَبَ لَهُ مِيرَاثَهُ. ثُمَّ أَنْفَذَ الْهَالِكُ بَعْضَهُ وَبَقِيَ بَعْضٌ فَهُوَ رَدٌّ عَلَى الَّذِي وَهَبَ يَرْجِعُ إِلَيْهِ مَا بَقِيَ بَعْدَ وَفَاةِ الَّذِي أُعْطِيَهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص بیمار ہو وہ اپنے وارثوں سے اجازت چاہے تہائی سے زیادہ وصیت کرنے کی، اور وارث اجازت دیں اس بات کی کہ تہائی سے زیادہ کسی وارث کے لیے وصیت کرے، تو پھر ان وارثوں کو رجوع کا اختیار نہیں، اگر رجوع درست ہوتا تو ہر وارث یہی کیا کرتا، جب موصی مرجاتا تو مال وصیت آپ لے لیا کرتے، اور اس کی وصیت روک دیتے، البتہ اگر کوئی شخص صحت کی حالت میں اپنے وارثوں سے اجازت چاہے وارث کے واسطے وصیت کرنے کی، اور وہ اجازت دے دے تو اس سے رجوع کر سکتے ہیں، کیونکہ جب آدمی صحیح ہے تو اپنے کل مال میں اختیار رکھتا ہے، چاہے سب صدقہ دے چاہے سب کسی کے حوالے کردے، تو یہ اذن لینا لغو ہوا، اور وارثوں کا اذن دینا بھی اپنے وقت سے پیشتر ہوا، اس واسطے ان کو رجوع درست ہے، بلکہ اذن لینا اس وقت درست ہے جب وہ اپنے مال میں اختیار نہ رکھتا ہو اور تہائی سے زیادہ صرف کرنے پر قادر نہ ہو، اس وقت وارثوں کو دو تہائی کا اختیار ہوگا، وہ اجازت بھی دے سکتے ہیں، اگر مریض نے اپنے وارث سے کہا: تو اپنا حصّہ میراث کا مجھے ہبہ کردے، اس نے ہبہ کردیا، لیکن مریض نے اس میں کچھ تصرف نہیں کیا، یوں ہی مر گیا، تو وہ حصّہ پھر اسی وارث کا ہو جائے گا، البتہ اگر میت یوں کہے ایک وارث سے کہ فلاں وارث بہت ضعیف ہے، تو بھی اپنا حصّہ اس کو ہبہ کردے، اور اگر وہ ہبہ کردے تو درست ہو جائے گا، اگر وارث نے اپنا حصّہ میراث میّت کو ہبہ کر دیا، اس نے کچھ اس میں سے کسی کو دلایا، کچھ بچ رہا، تو جو بچ رہا وہ اسی وارث کا ہو گا۔
قال مالك: فيمن اوصى بوصية فذكر انه قد كان اعطى بعض ورثته شيئا لم يقبضه فابى الورثة ان يجيزوا ذلك فإن ذلك يرجع إلى الورثة ميراثا على كتاب اللٰه لان الميت لم يرد ان يقع شيء من ذلك في ثلثه ولا يحاص اهل الوصايا في ثلثه بشيء من ذلك.قَالَ مَالِكٌ: فِيمَنْ أَوْصَى بِوَصِيَّةٍ فَذَكَرَ أَنَّهُ قَدْ كَانَ أَعْطَى بَعْضَ وَرَثَتِهِ شَيْئًا لَمْ يَقْبِضْهُ فَأَبَى الْوَرَثَةُ أَنْ يُجِيزُوا ذَلِكَ فَإِنَّ ذَلِكَ يَرْجِعُ إِلَى الْوَرَثَةِ مِيرَاثًا عَلَى كِتَابِ اللّٰهِ لِأَنَّ الْمَيِّتَ لَمْ يُرِدْ أَنْ يَقَعَ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ فِي ثُلُثِهِ وَلَا يُحَاصُّ أَهْلُ الْوَصَايَا فِي ثُلُثِهِ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس شخص نے وصیت کی، بعد اس کے معلوم ہوا کہ اس نے اپنے ایک وارث کو کچھ دیا تھا جس پر اس نے قبضہ نہیں کیا، اور ورثاء نے اس کی اجازت سے انکار کیا، تو وہ ورثاء کا حق ہو جائے گا، اور کتاب اللہ کے موافق تقسیم ہوگا۔
حدثني مالك، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، ان مخنثا كان عند ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، فقال لعبد الله بن ابي امية ورسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع: يا عبد الله، إن فتح الله عليكم الطائف غدا، فانا ادلك على ابنة غيلان، فإنها تقبل باربع وتدبر بثمان. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يدخلن هؤلاء عليكم" حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ مُخَنَّثًا كَانَ عِنْدَ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْمَعُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، إِنْ فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ الطَّائِفَ غَدًا، فَأَنَا أَدُلُّكَ عَلَى ابْنَةِ غَيْلَانَ، فَإِنَّهَا تُقْبِلُ بِأَرْبَعٍ وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَدْخُلَنَّ هَؤُلَاءِ عَلَيْكُمْ"
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ایک مخنّث (جو خلقی نامرد تھا نام اس کا ہیت تھا) سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا، اس نے عبداللہ بن امیہ سے کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سن رہے تھے: اے عبداللہ! اگر کل اللہ جل جلالہُ تمہارے ہاتھ سے طائف کو فتح کرا دے تو تم غیلان کی بیٹی کو ضرور لینا، جب وہ سامنے آتی ہے تو اس کے پیٹ پر چار بٹیں معلوم ہوتی ہیں، اور جب پیٹھ موڑ کر جاتی ہے تو چار کی آٹھ بٹیں معلوم ہوتی ہیں (دونوں جانب پہلو سے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ لوگ تمہارے پاس نہ آیا کریں۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4324، 5235، 5887، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2180، وأبو داود فى «سننه» برقم:4929، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9245، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1902، وأحمد فى «مسنده» برقم: 27023، فواد عبدالباقي نمبر: 37 - كِتَابُ الْوَصِيَّةِ-ح: 5»
وحدثني وحدثني مالك، عن يحيى بن سعيد ، انه قال: سمعت القاسم بن محمد ، يقول:" كانت عند عمر بن الخطاب امراة من الانصار، فولدت له عاصم بن عمر، ثم إنه فارقها، فجاء عمر قباء فوجد ابنه عاصما يلعب بفناء المسجد، فاخذ بعضده فوضعه بين يديه على الدابة، فادركته جدة الغلام فنازعته إياه، حتى اتيا ابا بكر الصديق، فقال عمر: ابني. وقالت المراة: ابني. فقال ابو بكر : " خل بينها وبينه". قال: فما راجعه عمر الكلام . قال: وسمعت مالكا، يقول: وهذا الامر الذي آخذ به في ذلكوَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ ، يَقُولُ:" كَانَتْ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَوَلَدَتْ لَهُ عَاصِمَ بْنَ عُمَرَ، ثُمَّ إِنَّهُ فَارَقَهَا، فَجَاءَ عُمَرُ قُبَاءً فَوَجَدَ ابْنَهُ عَاصِمًا يَلْعَبُ بِفِنَاءِ الْمَسْجِدِ، فَأَخَذَ بِعَضُدِهِ فَوَضَعَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ عَلَى الدَّابَّةِ، فَأَدْرَكَتْهُ جَدَّةُ الْغُلَامِ فَنَازَعَتْهُ إِيَّاهُ، حَتَّى أَتَيَا أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ، فَقَالَ عُمَرُ: ابْنِي. وَقَالَتِ الْمَرْأَةُ: ابْنِي. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : " خَلِّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ". قَالَ: فَمَا رَاجَعَهُ عُمَرُ الْكَلَامَ . قَالَ: وَسَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ: وَهَذَا الْأَمْرُ الَّذِي آخُذُ بِهِ فِي ذَلِكَ
حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا، کہتے تھے: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک انصاری عورت تھی، اس سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عاصم بن عمر رکھا تھا، پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو چھوڑ دیا، اور مسجدِ قبا میں آئے، وہاں عاصم کو لڑکوں کے ساتھ کھیلتا ہوا پایا مسجد کے صحن میں، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کا بازو پکڑ کر اپنے جانور پر سوار کر لیا، لڑکے کی نانی نے یہ دیکھ کر ان سے جھگڑا کیا اور اپنا لڑکا طلب کیا، پھر دونوں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا بیٹا ہے، عورت نے کہا: میرا بچہ ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے: چھوڑ دو بچے کو اور دے دو اس کی نانی کو۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ چپ ہو رہے اور کچھ تکرار نہ کی۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسی حدیث پر عمل ہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15765، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4775، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12602، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2269، فواد عبدالباقي نمبر: 37 - كِتَابُ الْوَصِيَّةِ-ح: 6»
قال مالك في الرجل يبتاع السلعة من الحيوان او الثياب او العروض: فيوجد ذلك البيع غير جائز فيرد ويؤمر الذي قبض السلعة ان يرد إلى صاحبه سلعته. قال مالك: فليس لصاحب السلعة إلا قيمتها يوم قبضت منه وليس يوم يرد ذلك إليه. وذلك انه ضمنها من يوم قبضها. فما كان فيها من نقصان بعد ذلك. كان عليه. فبذلك كان نماؤها وزيادتها له. وإن الرجل يقبض السلعة في زمان هي فيه نافقة مرغوب فيها ثم يردها في زمان هي فيه ساقطة لا يريدها احد فيقبض الرجل السلعة من الرجل فيبيعها بعشرة دنانير. ويمسكها وثمنها ذلك. ثم يردها وإنما ثمنها دينار فليس له ان يذهب من مال الرجل بتسعة دنانير او يقبضها منه الرجل فيبيعها بدينار. او يمسكها. وإنما ثمنها دينار. ثم يردها وقيمتها يوم يردها عشرة دنانير. فليس على الذي قبضها ان يغرم لصاحبها من ماله تسعة دنانير. إنما عليه قيمة ما قبض يوم قبضه. قَالَ مَالِكٌ فِي الرَّجُلِ يَبْتَاعُ السِّلْعَةَ مِنَ الْحَيَوَانِ أَوِ الثِّيَابِ أَوِ الْعُرُوضِ: فَيُوجَدُ ذَلِكَ الْبَيْعُ غَيْرَ جَائِزٍ فَيُرَدُّ وَيُؤْمَرُ الَّذِي قَبَضَ السِّلْعَةَ أَنْ يَرُدَّ إِلَى صَاحِبِهِ سِلْعَتَهُ. قَالَ مَالِكٌ: فَلَيْسَ لِصَاحِبِ السِّلْعَةِ إِلَّا قِيمَتُهَا يَوْمَ قُبِضَتْ مِنْهُ وَلَيْسَ يَوْمَ يَرُدُّ ذَلِكَ إِلَيْهِ. وَذَلِكَ أَنَّهُ ضَمِنَهَا مِنْ يَوْمَ قَبَضَهَا. فَمَا كَانَ فِيهَا مِنْ نُقْصَانٍ بَعْدَ ذَلِكَ. كَانَ عَلَيْهِ. فَبِذَلِكَ كَانَ نِمَاؤُهَا وَزِيَادَتُهَا لَهُ. وَإِنَّ الرَّجُلَ يَقْبِضُ السِّلْعَةَ فِي زَمَانٍ هِيَ فِيهِ نَافِقَةٌ مَرْغُوبٌ فِيهَا ثُمَّ يَرُدُّهَا فِي زَمَانٍ هِيَ فِيهِ سَاقِطَةٌ لَا يُرِيدُهَا أَحَدٌ فَيَقْبِضُ الرَّجُلُ السِّلْعَةَ مِنَ الرَّجُلِ فَيَبِيعُهَا بِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ. وَيُمْسِكُهَا وَثَمَنُهَا ذَلِكَ. ثُمَّ يَرُدُّهَا وَإِنَّمَا ثَمَنُهَا دِينَارٌ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَذْهَبَ مِنْ مَالِ الرَّجُلِ بِتِسْعَةِ دَنَانِيرَ أَوْ يَقْبِضُهَا مِنْهُ الرَّجُلُ فَيَبِيعُهَا بِدِينَارٍ. أَوْ يُمْسِكُهَا. وَإِنَّمَا ثَمَنُهَا دِينَارٌ. ثُمَّ يَرُدُّهَا وَقِيمَتُهَا يَوْمَ يَرُدُّهَا عَشَرَةُ دَنَانِيرَ. فَلَيْسَ عَلَى الَّذِي قَبَضَهَا أَنْ يَغْرَمَ لِصَاحِبِهَا مِنْ مَالِهِ تِسْعَةَ دَنَانِيرَ. إِنَّمَا عَلَيْهِ قِيمَةُ مَا قَبَضَ يَوْمَ قَبْضِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک شخص جانور یا کپڑا یا اور کوئی اسباب خریدے، پھر یہ بیع ناجائز معلوم ہو اور مشتری کو حکم ہو کہ وہ چیز بائع کو پھیر دے (حالانکہ اس شئے میں کوئی عیب ہو جائے)، تو بائع کو اس شئے کی قیمت ملے گی اس دن کی جس دن کہ وہ شئے مشتری کے قبضے میں آئی تھی، نہ کہ اس دن کی جس دن وہ پھیرتا ہے، کیونکہ جس دن سے وہ شئے مشتری کے قبضے میں آئی تھی اس دن سے وہ اس کا ضامن ہو گیا تھا، اب جو کچھ اس میں نقصان ہو جائے وہ اسی پر ہوگا، اور جو کچھ زیادتی ہو جائے وہ بھی اسی کی ہوگی، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی مال ایسے وقت میں لیتا ہے جب اس کی قدر اور تلاش ہو، پھر اس کو ایسے وقت میں پھیر دیتا ہے جب کہ وہ بے قدر ہو، کوئی اس کو نہ پوچھے، تو آدمی ایک شئے خریدتا ہے دس دینار کو، پھر اس کو رکھ چھوڑتا ہے، اور پھیرتا ہے ایسے وقت میں جب اس کی قیمت ایک دینار ہو، تو یہ نہیں ہو سکتا کہ بے چارے بائع کا نو دینار کا نقصان کرے، یا جس دن خریدا اسی دن اس کی قیمت ایک دینار تھی، پھر پھیرتے وقت اس کی قیمت دس دینار ہوگئی، تو بائع مشتری کو ناحق نو دینار کا نقصان دے، اسی واسطے وہ قیمت اس دن کی واجب ہوئی جس دن کہ وہ شئے مشتری کے قبضے میں آئی ہو۔
قال مالك: ومما يبين ذلك ان السارق إذا سرق السلعة فإنما ينظر إلى ثمنها يوم يسرقها. فإن كان يجب فيه القطع كان ذلك عليه وإن استاخر قطعه إما في سجن يحبس فيه حتى ينظر في شانه وإما ان يهرب السارق ثم يؤخذ بعد ذلك فليس استئخار قطعه بالذي يضع عنه حدا قد وجب عليه يوم سرق وإن رخصت تلك السلعة بعد ذلك. ولا بالذي يوجب عليه قطعا لم يكن وجب عليه يوم اخذها إن غلت تلك السلعة بعد ذلك. قَالَ مَالِكٌ: وَمِمَّا يُبَيِّنُ ذَلِكَ أَنَّ السَّارِقَ إِذَا سَرَقَ السِّلْعَةَ فَإِنَّمَا يُنْظَرُ إِلَى ثَمَنِهَا يَوْمَ يَسْرِقُهَا. فَإِنْ كَانَ يَجِبُ فِيهِ الْقَطْعُ كَانَ ذَلِكَ عَلَيْهِ وَإِنِ اسْتَأْخَرَ قَطْعُهُ إِمَّا فِي سِجْنٍ يُحْبَسُ فِيهِ حَتَّى يُنْظَرَ فِي شَأْنِهِ وَإِمَّا أَنْ يَهْرُبَ السَّارِقُ ثُمَّ يُؤْخَذَ بَعْدَ ذَلِكَ فَلَيْسَ اسْتِئْخَارُ قَطْعِهِ بِالَّذِي يَضَعُ عَنْهُ حَدًّا قَدْ وَجَبَ عَلَيْهِ يَوْمَ سَرَقَ وَإِنْ رَخُصَتْ تِلْكَ السِّلْعَةُ بَعْدَ ذَلِكَ. وَلَا بِالَّذِي يُوجِبُ عَلَيْهِ قَطْعًا لَمْ يَكُنْ وَجَبَ عَلَيْهِ يَوْمَ أَخَذَهَا إِنْ غَلَتْ تِلْكَ السِّلْعَةُ بَعْدَ ذَلِكَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی دلیل یہ ہے کہ چور جب کسی کا اسباب چرائے تو اس کی قیمت چوری کے روز کی لگائی جائے گی، تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ورنہ نہیں، اگر اس کا ہاتھ کاٹنے میں دیر ہوئی اور اس چیز کی قیمت گھٹ بڑھ گئی تو اس کا اعتبار نہ ہو گا۔
حدثني حدثني مالك، عن يحيى بن سعيد ، ان ابا الدرداء كتب إلى سلمان الفارسي ان:" هلم إلى الارض المقدسة"، فكتب إليه سلمان :" إن الارض لا تقدس احدا، وإنما يقدس الإنسان عمله، وقد بلغني انك جعلت طبيبا تداوي، فإن كنت تبرئ فنعما لك، وإن كنت متطببا فاحذر ان تقتل إنسانا فتدخل النار". فكان ابو الدرداء إذا قضى بين اثنين ثم ادبرا عنه نظر إليهما، وقال:" ارجعا إلي اعيدا علي قصتكما متطبب والله" . حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّ أَبَا الدَّرْدَاءِ كَتَبَ إِلَى سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ أَنْ:" هَلُمَّ إِلَى الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ"، فَكَتَبَ إِلَيْهِ سَلْمَانُ :" إِنَّ الْأَرْضَ لَا تُقَدِّسُ أَحَدًا، وَإِنَّمَا يُقَدِّسُ الْإِنْسَانَ عَمَلُهُ، وَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّكَ جُعِلْتَ طَبِيبًا تُدَاوِي، فَإِنْ كُنْتَ تُبْرِئُ فَنِعِمَّا لَكَ، وَإِنْ كُنْتَ مُتَطَبِّبًا فَاحْذَرْ أَنْ تَقْتُلَ إِنْسَانًا فَتَدْخُلَ النَّارَ". فَكَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِذَا قَضَى بَيْنَ اثْنَيْنِ ثُمَّ أَدْبَرَا عَنْهُ نَظَرَ إِلَيْهِمَا، وَقَالَ:" ارْجِعَا إِلَيَّ أَعِيدَا عَلَيَّ قِصَّتَكُمَا مُتَطَبِّبٌ وَاللَّهِ" .
حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ چلے آؤ مقدس زمین میں۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے جواب لکھا کہ زمین کسی کو مقدس نہیں کرتی، بلکہ آدمی کو اس کے عمل مقدس کرتے ہیں (جس زمین میں ہو)، اور میں نے سنا ہے تم طبیب بنے ہو، لوگوں کی دوا کرتے ہو، اگر تم لوگوں کو دوا سے اچھا کرتے ہو تو بہتر ہے، اور اگر تم طب نہیں جانتے تو خواہ مخواہ طبیب بن گئے ہو، بچو کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی آدمی کو مار ڈالو تو جہنم میں جاؤ۔ پھر سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ جب فیصلہ کیا کرتے دو شخصوں میں، اور وہ جانے لگتے تو دوبارہ ان کو بلاتے اور کہتے: پھر بیان کرو اپنا قصّہ، میں تو واللہ! طب نہیں جانتا، یوں ہی علاج کرتا ہوں۔