موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
کتاب: خرید و فروخت کے احکام میں
حدیث نمبر: 1385
Save to word اعراب
وحدثني مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم ، عن عمر بن عبد العزيز ، عن ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ايما رجل افلس فادرك الرجل ماله بعينه، فهو احق به من غيره" . وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَيُّمَا رَجُلٍ أَفْلَسَ فَأَدْرَكَ الرَّجُلُ مَالَهُ بِعَيْنِهِ، فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ غَيْرِهِ" .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنا مال بیچا کسی کے ہاتھ، پھر مشتری مفلس ہو گیا اور بائع نے اپنی چیز بعینہ مشتری کے پاس پائی، تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2402، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1559، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2327، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4680، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6228، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3519، 3520، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1262، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2632، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2358، 2359، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11357، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7245، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1065، 1066، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6470، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 88»
حدیث نمبر: 1385B1
Save to word اعراب
قال مالك: في رجل باع من رجل متاعا فافلس المبتاع، فإن البائع إذا وجد شيئا من متاعه بعينه اخذه، وإن كان المشتري قد باع بعضه، وفرقه فصاحب المتاع احق به من الغرماء، لا يمنعه ما فرق المبتاع منه، ان ياخذ ما وجد بعينه، فإن اقتضى من ثمن المبتاع شيئا فاحب ان يرده ويقبض ما وجد من متاعه، ويكون فيما لم يجد اسوة الغرماء فذلك له.
قَالَ مَالِكٌ: فِي رَجُلٍ بَاعَ مِنْ رَجُلٍ مَتَاعًا فَأَفْلَسَ الْمُبْتَاعُ، فَإِنَّ الْبَائِعَ إِذَا وَجَدَ شَيْئًا مِنْ مَتَاعِهِ بِعَيْنِهِ أَخَذَهُ، وَإِنْ كَانَ الْمُشْتَرِي قَدْ بَاعَ بَعْضَهُ، وَفَرَّقَهُ فَصَاحِبُ الْمَتَاعِ أَحَقُّ بِهِ مِنَ الْغُرَمَاءِ، لَا يَمْنَعُهُ مَا فَرَّقَ الْمُبْتَاعُ مِنْهُ، أَنْ يَأْخُذَ مَا وَجَدَ بِعَيْنِهِ، فَإِنِ اقْتَضَى مِنْ ثَمَنِ الْمُبْتَاعِ شَيْئًا فَأَحَبَّ أَنْ يَرُدَّهُ وَيَقْبِضَ مَا وَجَدَ مِنْ مَتَاعِهِ، وَيَكُونَ فِيمَا لَمْ يَجِدْ أُسْوَةَ الْغُرَمَاءِ فَذَلِكَ لَهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس شخص نے کوئی اسباب بیچا، پھر مشتری مفلس ہوگیا اور بائع نے اپنی چیز بعینہ مشتری کے پاس پائی، تو بائع اس کو لے لے گا، اگر مشتری نے اس میں سے کچھ بیچ ڈالا ہے، تو جس قدر باقی ہے اس کا بائع زیادہ حقدار ہے، بہ نسبت اور قرض خواہوں کے۔ اگر بائع تھوڑی سی ثمن پا چکا ہے، پھر بائع یہ چاہے کہ اس ثمن کو پھیر کر جس قدر اسباب اپنا باقی ہے اس کو لے لے، اور جو کچھ باقی رہ جائے اس میں اور قرض خواہوں کے برابر رہے، تو ہو سکتا ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 88»
حدیث نمبر: 1385B2
Save to word اعراب
قال مالك: ومن اشترى سلعة من السلع غزلا او متاعا او بقعة من الارض ثم احدث في ذلك المشترى عملا بنى البقعة دارا، او نسج الغزل ثوبا، ثم افلس الذي ابتاع ذلك، فقال: رب البقعة انا آخذ البقعة وما فيها من البنيان، إن ذلك ليس له، ولكن تقوم البقعة وما فيها، مما اصلح المشتري ثم ينظر كم ثمن البقعة؟ وكم ثمن البنيان من تلك القيمة؟ ثم يكونان شريكين في ذلك لصاحب البقعة، بقدر حصته ويكون للغرماء بقدر حصة البنيان.
قَالَ مَالِكٌ: وَمَنِ اشْتَرَى سِلْعَةً مِنَ السِّلَعِ غَزْلًا أَوْ مَتَاعًا أَوْ بُقْعَةً مِنَ الْأَرْضِ ثُمَّ أَحْدَثَ فِي ذَلِكَ الْمُشْتَرَى عَمَلًا بَنَى الْبُقْعَةَ دَارًا، أَوْ نَسَجَ الْغَزْلَ ثَوْبًا، ثُمَّ أَفْلَسَ الَّذِي ابْتَاعَ ذَلِكَ، فَقَالَ: رَبُّ الْبُقْعَةِ أَنَا آخُذُ الْبُقْعَةَ وَمَا فِيهَا مِنَ الْبُنْيَانِ، إِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ لَهُ، وَلَكِنْ تُقَوَّمُ الْبُقْعَةُ وَمَا فِيهَا، مِمَّا أَصْلَحَ الْمُشْتَرِي ثُمَّ يُنْظَرُ كَمْ ثَمَنُ الْبُقْعَةِ؟ وَكَمْ ثَمَنُ الْبُنْيَانِ مِنْ تِلْكَ الْقِيمَةِ؟ ثُمَّ يَكُونَانِ شَرِيكَيْنِ فِي ذَلِكَ لِصَاحِبِ الْبُقْعَةِ، بِقَدْرِ حِصَّتِهِ وَيَكُونُ لِلْغُرَمَاءِ بِقَدْرِ حِصَّةِ الْبُنْيَانِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے سوت یا زمین خریدی پھر سوت کا کپڑا بن لیا اور زمین پر مکان بنایا، بعد اس کے مشتری مفلس ہوگیا، اب زمین کا بائع یہ کہے کہ میں زمین اور مکان سب لیے لیتا ہوں، تو یہ نہیں ہو سکتا، بلکہ زمین کی اور عملے کی قیمت لگائیں گے، پھر دیکھیں گے اس قیمت کا حصّہ زمین پر کتنا آتا ہے، اور عملے پر کتنا آتا ہے، اب بائع اور مشتری دونوں اس میں شریک رہیں گے، زمین کا مالک اپنے حصّہ کے موافق اور باقی قرض خواہ عملے کے موافق۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 88»
حدیث نمبر: 1385B3
Save to word اعراب
قال مالك: وتفسير ذلك ان تكون قيمة ذلك كله الف درهم وخمسمائة درهم، فتكون قيمة البقعة خمسمائة درهم، وقيمة البنيان الف درهم، فيكون لصاحب البقعة الثلث، ويكون للغرماء الثلثان.
قَالَ مَالِكٌ: وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ أَنْ تَكُونَ قِيمَةُ ذَلِكَ كُلِّهِ أَلْفَ دِرْهَمٍ وَخَمْسَمِائَةِ دِرْهَمٍ، فَتَكُونُ قِيمَةُ الْبُقْعَةِ خَمْسَمِائَةِ دِرْهَمٍ، وَقِيمَةُ الْبُنْيَانِ أَلْفَ دِرْهَمٍ، فَيَكُونُ لِصَاحِبِ الْبُقْعَةِ الثُّلُثُ، وَيَكُونُ لِلْغُرَمَاءِ الثُّلُثَانِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی مثال یہ ہے: جیسے زمین اور عملے کی قیمت پندرہ سو ہوئی، اس میں سے زمین کی قیمت پانچ سو ہے اور عملے کی ہزار ہے، تو زمین والے کا ایک تہائی ہوگا، اور باقی قرض خواہوں کے دو تہائی ہوں گے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 88»
حدیث نمبر: 1385B4
Save to word اعراب
قال مالك: وكذلك الغزل وغيره مما اشبهه، إذا دخله هذا، ولحق المشتري دين لا وفاء له عنده، وهذا العمل فيه.
قَالَ مَالِكٌ: وَكَذَلِكَ الْغَزْلُ وَغَيْرُهُ مِمَّا أَشْبَهَهُ، إِذَا دَخَلَهُ هَذَا، وَلَحِقَ الْمُشْتَرِيَ دَيْنٌ لَا وَفَاءَ لَهُ عِنْدَهُ، وَهَذَا الْعَمَلُ فِيهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہی حکم سوت میں ہے جب کہ مشتری نے اس کو بن لیا، بعد اس کے قرضدار ہو کر مفلس ہوگیا۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 88»
حدیث نمبر: 1385B5
Save to word اعراب
قال مالك: فاما ما بيع من السلع التي لم يحدث فيها المبتاع شيئا، إلا ان تلك السلعة نفقت، وارتفع ثمنها، فصاحبها يرغب فيها، والغرماء يريدون إمساكها، فإن الغرماء يخيرون بين ان: يعطوا رب السلعة الثمن الذي باعها به، ولا ينقصوه شيئا، وبين ان يسلموا إليه سلعته، وإن كانت السلعة قد نقص ثمنها، فالذي باعها بالخيار إن شاء ان ياخذ سلعته، ولا تباعة له في شيء من مال غريمه، فذلك له. وإن شاء ان يكون غريما من الغرماء يحاص بحقه، ولا ياخذ سلعته فذلك له.
قَالَ مَالِكٌ: فَأَمَّا مَا بِيعَ مِنَ السِّلَعِ الَّتِي لَمْ يُحْدِثْ فِيهَا الْمُبْتَاعُ شَيْئًا، إِلَّا أَنَّ تِلْكَ السِّلْعَةَ نَفَقَتْ، وَارْتَفَعَ ثَمَنُهَا، فَصَاحِبُهَا يَرْغَبُ فِيهَا، وَالْغُرَمَاءُ يُرِيدُونَ إِمْسَاكَهَا، فَإِنَّ الْغُرَمَاءَ يُخَيَّرُونَ بَيْنَ أَنْ: يُعْطُوا رَبَّ السِّلْعَةِ الثَّمَنَ الَّذِي بَاعَهَا بِهِ، وَلَا يُنَقِّصُوهُ شَيْئًا، وَبَيْنَ أَنْ يُسَلِّمُوا إِلَيْهِ سِلْعَتَهُ، وَإِنْ كَانَتِ السِّلْعَةُ قَدْ نَقَصَ ثَمَنُهَا، فَالَّذِي بَاعَهَا بِالْخِيَارِ إِنْ شَاءَ أَنْ يَأْخُذَ سِلْعَتَهُ، وَلَا تِبَاعَةَ لَهُ فِي شَيْءٍ مِنْ مَالِ غَرِيمِهِ، فَذَلِكَ لَهُ. وَإِنْ شَاءَ أَنْ يَكُونَ غَرِيمًا مِنَ الْغُرَمَاءِ يُحَاصُّ بِحَقِّهِ، وَلَا يَأْخُذُ سِلْعَتَهُ فَذَلِكَ لَهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مشتری نے اس چیز میں تصرف نہیں کیا، مگر اس چیز کی قیمت بڑھ گئی، اب بائع یہ چاہتا ہے کہ اپنی شئے پھیر لے، اور قرض خواہ چاہتے ہیں کہ وہ شئے بائع کو نہ دیں، تو قرض خواہوں کو اختیار ہے، خواہ بائع کی ثمن پوری پوری حوالے کردیں۔ اگر اس چیز کی قیمت گھٹ گئی تو بائع کو اختیار ہے، خواہ اپنی چیز لے لے، پھر اس کو مشتری کے مال سے کچھ غرض نہ ہوگی، خواہ اپنی چیز نہ لے اور قرض خواہوں کے ساتھ شریک ہوجائے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 88»
حدیث نمبر: 1385B6
Save to word اعراب
قال مالك: فيمن اشترى جارية او دابة فولدت عنده، ثم افلس المشتري، فإن الجارية او الدابة وولدها للبائع، إلا ان يرغب الغرماء في ذلك فيعطونه حقه كاملا، ويمسكون ذلك. قَالَ مَالِكٌ: فِيمَنِ اشْتَرَى جَارِيَةً أَوْ دَابَّةً فَوَلَدَتْ عِنْدَهُ، ثُمَّ أَفْلَسَ الْمُشْتَرِي، فَإِنَّ الْجَارِيَةَ أَوِ الدَّابَّةَ وَوَلَدَهَا لِلْبَائِعِ، إِلَّا أَنْ يَرْغَبَ الْغُرَمَاءُ فِي ذَلِكَ فَيُعْطُونَهُ حَقَّهُ كَامِلًا، وَيُمْسِكُونَ ذَلِكَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے لونڈی خریدی یا جانور خریدا، پھر اس لونڈی یا جانور کا مشتری کے پاس آن کر بچہ پیدا ہوا، بعد اس کے مشتری مفلس ہوگیا، تو وہ بچہ بائع کا ہوگا، البتہ اگر قرض خواہ بائع کی پوری ثمن ادا کردیں تو بچہ کو اور اس کی ماں کو دونوں کو رکھ سکتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 88»
43. بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ السَّلَفِ
43. جس چیز میں سلف درست ہے
حدیث نمبر: 1386
Save to word اعراب
حدثني يحيى، عن مالك، عن زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي رافع مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: استسلف رسول الله صلى الله عليه وسلم بكرا، فجاءته إبل من الصدقة، قال ابو رافع: فامرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان اقضي الرجل بكره، فقلت: لم اجد في الإبل إلا جملا خيارا رباعيا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اعطه إياه فإن خيار الناس احسنهم قضاء" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: اسْتَسْلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكْرًا، فَجَاءَتْهُ إِبِلٌ مِنَ الصَّدَقَةِ، قَالَ أَبُو رَافِعٍ: فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقْضِيَ الرَّجُلَ بَكْرَهُ، فَقُلْتُ: لَمْ أَجِدْ فِي الْإِبِلِ إِلَّا جَمَلًا خِيَارًا رَبَاعِيًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَعْطِهِ إِيَّاهُ فَإِنَّ خِيَارَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَاءً"
سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ، جو مولیٰ (غلام آزاد کیے ہوئے) تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض لیا ایک چھوٹا اونٹ، جب صدقے کے وقت اونٹ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمجھ کو حکم کیا ویسا ہی اونٹ اد اکرنے کو۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! صدقے کے اونٹوں میں سب اونٹ اچھے بڑے بڑے ہیں، چھ چھ برس کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں سے دے دے، اچھے وہ لوگ ہیں جو قرض اچھے طور سے ادا کریں۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1600، 1600، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2332، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4621، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6167، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3346، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1318، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2607، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2285، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7458، وأحمد فى «مسنده» برقم: 27723، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1014، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14158، 14159، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 5733، والطبراني فى «الكبير» برقم: 913، 914، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 89»
حدیث نمبر: 1387
Save to word اعراب
وحدثني وحدثني مالك، عن حميد بن قيس المكي ، عن مجاهد ، انه قال:" استسلف عبد الله بن عمر من رجل دراهم ثم قضاه دراهم خيرا منها. فقال الرجل: يا ابا عبد الرحمن، هذه خير من دراهمي التي اسلفتك. فقال عبد الله بن عمر : " قد علمت ولكن نفسي بذلك طيبة" . وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ قَيْسٍ الْمَكِّيِّ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، أَنَّهُ قَالَ:" اسْتَسْلَفَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ مِنْ رَجُلٍ دَرَاهِمَ ثُمَّ قَضَاهُ دَرَاهِمَ خَيْرًا مِنْهَا. فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، هَذِهِ خَيْرٌ مِنْ دَرَاهِمِي الَّتِي أَسْلَفْتُكَ. فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ : " قَدْ عَلِمْتُ وَلَكِنْ نَفْسِي بِذَلِكَ طَيِّبَةٌ" .

تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10944، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 90»
حدیث نمبر: 1387B1
Save to word اعراب
. قال مالك: لا باس بان يقبض من اسلف شيئا من الذهب او الورق او الطعام او الحيوان ممن اسلفه ذلك افضل مما اسلفه إذا لم يكن ذلك على شرط منهما او عادة، فإن كان ذلك على شرط او واي او عادة، فذلك مكروه ولا خير فيه. . قَالَ مَالِك: لَا بَأْسَ بِأَنْ يُقْبِضَ مَنْ أُسْلِفَ شَيْئًا مِنَ الذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ أَوِ الطَّعَامِ أَوِ الْحَيَوَانِ مِمَّنْ أَسْلَفَهُ ذَلِكَ أَفْضَلَ مِمَّا أَسْلَفَهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ عَلَى شَرْطٍ مِنْهُمَا أَوْ عَادَةٍ، فَإِنْ كَانَ ذَلِكَ عَلَى شَرْطٍ أَوْ وَأْيٍ أَوْ عَادَةٍ، فَذَلِكَ مَكْرُوهٌ وَلَا خَيْرَ فِيهِ.

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 90»

Previous    19    20    21    22    23    24    25    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.