حدثني مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر ، كان يقول: " المكاتب عبد ما بقي عليه من كتابته شيء" حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، كَانَ يَقُولُ: " الْمُكَاتَبُ عَبْدٌ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ كِتَابَتِهِ شَيْءٌ"
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے: مکاتب غلام رہے گا جب تک اس پر کچھ بھی بدل کتابت میں سے باقی رہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، و أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: قبل از حديث: 2564، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21644، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 15722، 15725، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 20557، 20943، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 4723، فواد عبدالباقي نمبر: 39 - كِتَابُ الْمُكَاتَبِ-ح: 1»
قال مالك: وهو رايي. قال مالك: فإن هلك المكاتب وترك مالا اكثر مما بقي عليه من كتابته، وله ولد ولدوا في كتابته او كاتب عليهم، ورثوا ما بقي من المال بعد قضاء كتابتهقَالَ مَالِك: وَهُوَ رَأْيِي. قَالَ مَالِك: فَإِنْ هَلَكَ الْمُكَاتَبُ وَتَرَكَ مَالًا أَكْثَرَ مِمَّا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ كِتَابَتِهِ، وَلَهُ وَلَدٌ وُلِدُوا فِي كِتَابَتِهِ أَوْ كَاتَبَ عَلَيْهِمْ، وَرِثُوا مَا بَقِيَ مِنَ الْمَالِ بَعْدَ قَضَاءِ كِتَابَتِهِ
_x000D_ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میری رائے یہی ہے۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر مکاتب اپنی بدل کتابت سے زیادہ مال چھوڑ کر مر جائے، اور اپنی اولاد کو جو حالت کتابت میں پیدا ہوئی تھی، یا عقد کتابت میں داخل تھی، چھوڑ جائے، تو پہلے اس کے مال میں سے بدل کتابت ادا کریں گے، پھر جس قدر بچ رہے گا اس کی وارث مکاتب کی اولاد ہوگی۔
وحدثني مالك، عن حميد بن قيس المكي، ان مكاتبا كان لابن المتوكل، هلك بمكة وترك عليه بقية من كتابته وديونا للناس وترك ابنته، فاشكل على عامل مكة القضاء فيه، فكتب إلى عبد الملك بن مروان يساله عن ذلك، فكتب إليه عبد الملك:" ان ابدا بديون الناس، ثم اقض ما بقي من كتابته، ثم اقسم ما بقي من ماله بين ابنته ومولاه" . وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ قَيْسٍ الْمَكِّيِّ، أَنّ مُكَاتَبًا كَانَ لِابْنِ الْمُتَوَكِّلِ، هَلَكَ بِمَكَّةَ وَتَرَكَ عَلَيْهِ بَقِيَّةً مِنْ كِتَابَتِهِ وَدُيُونًا لِلنَّاسِ وَتَرَكَ ابْنَتَهُ، فَأَشْكَلَ عَلَى عَامِلِ مَكَّةَ الْقَضَاءُ فِيهِ، فَكَتَبَ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ يَسْأَلُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ الْمَلِكِ:" أَنْ ابْدَأْ بِدُيُونِ النَّاسِ، ثُمَّ اقْضِ مَا بَقِيَ مِنْ كِتَابَتِهِ، ثُمَّ اقْسِمْ مَا بَقِيَ مِنْ مَالِهِ بَيْنَ ابْنَتِهِ وَمَوْلَاهُ" .
حضرت حمید بن قیس مکی سے روایت ہے کہ ایک مکاتب ابنِ متوکل کا مکّہ میں مر گیا، اور کچھ بدل کتابت اس پر باقی رہ گیا تھا، اور لوگوں کا قرض بھی تھا، اور ایک بیٹی چھوڑ گیا، تو مکّہ کے عامل کو اس باب میں حکم کرنا دشوار ہوا، تو اس نے عبدالملک بن مروان کو لکھا۔ عبدالملک نے اس کے جواب میں لکھا کہ پہلے لوگوں کا قرض ادا کر، پھر جس قدر بدل کتابت باقی رہ گیا ہے اس کو ادا کر، بعد اس کے جو کچھ بچے وہ اس کی بیٹی اور مولیٰ کو تقسیم کر دے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 15659، فواد عبدالباقي نمبر: 39 - كِتَابُ الْمُكَاتَبِ-ح: 3»
قال مالك: الامر عندنا انه ليس على سيد العبد ان يكاتبه إذا ساله ذلك، ولم اسمع ان احدا من الائمة اكره رجلا على ان يكاتب عبده، وقد سمعت بعض اهل العلم إذا سئل عن ذلك، فقيل له: إن الله تبارك وتعالى، يقول:«فكاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا» (سورة النور آية 33)، «يتلو هاتين الآيتين وإذا حللتم فاصطادوا» (سورة المائدة آية 2)،«فإذا قضيت الصلاة فانتشروا في الارض وابتغوا من فضل الله» (سورة الجمعة آية 10). قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّهُ لَيْسَ عَلَى سَيِّدِ الْعَبْدِ أَنْ يُكَاتِبَهُ إِذَا سَأَلَهُ ذَلِكَ، وَلَمْ أَسْمَعْ أَنَّ أَحَدًا مِنَ الْأَئِمَّةِ أَكْرَهَ رَجُلًا عَلَى أَنْ يُكَاتِبَ عَبْدَهُ، وَقَدْ سَمِعْتُ بَعْضَ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا سُئِلَ عَنْ ذَلِكَ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، يَقُولُ:«فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا» (سورة النور آية 33)، «يَتْلُو هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا» (سورة المائدة آية 2)،«فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ» (سورة الجمعة آية 10).
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے: اگر غلام اپنے مولیٰ کو کہے: مجھ کو مکاتب کر دے، تو مولیٰ پر ضروری نہیں خواہ مخواہ مکاتب کرے، اور میں نے کسی عالم سے نہیں سنا کہ مولیٰ پر جبر ہوگا اپنے غلام کے مکاتب کرنے پر، اور جب وہ شخص ان سے اللہ جل جلالہُ کے اس قول کو بیان کرتا کہ ”مکاتب کرو اپنے غلاموں کو اگر اس میں بہتری جانو۔“ تو وہ یہ آیتیں پڑھتے: ”جب تم احرام کھول ڈالو شکار کرو۔“”جب نماز ہو جائے تو پھیل جاؤ زمین میں اور اللہ کا فضل ڈھونڈو۔“
قال مالك: وإنما ذلك امر اذن الله عز وجل فيه للناس وليس بواجب عليهم. قَالَ مَالِك: وَإِنَّمَا ذَلِكَ أَمْرٌ أَذِنَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ لِلنَّاسِ وَلَيْسَ بِوَاجِبٍ عَلَيْهِمْ.
ام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ بھی امر کا صیغہ ہے لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں لوگوں کو اجازت دی ہے۔ یہ امر ان کے لئے واجب قرار نہیں دیا۔
قال مالك: وسمعت بعض اهل العلم، يقول في قول الله تبارك وتعالى: «وآتوهم من مال الله الذي آتاكم» (سورة النور آية): إن ذلك ان يكاتب الرجل غلامه ثم يضع عنه من آخر كتابته شيئا مسمى. قَالَ مَالِك: وَسَمِعْتُ بَعْضَ أَهْلِ الْعِلْمِ، يَقُولُ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: «وَآتُوهُمْ مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ» (سورة النور آية): إِنَّ ذَلِكَ أَنْ يُكَاتِبَ الرَّجُلُ غُلَامَهُ ثُمَّ يَضَعُ عَنْهُ مِنْ آخِرِ كِتَابَتِهِ شَيْئًا مُسَمًّى.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے بعض اہلِ علم سے سنا اس آیت کی تفسیر میں ”دو تم اپنے مکاتبوں کو اس مال سے جو دیا تم کو اللہ تعالیٰ نے۔“ کہتے تھے: مراد اس آیت سے یہ ہے کہ آدمی اپنے غلام کو مکاتب کرے، پھر اس کے بدل کتابت میں سے کچھ معاف کردے۔
قال مالك: فهذا الذي سمعت من اهل العلم وادركت عمل الناس على ذلك عندنا. قَالَ مَالِك: فَهَذَا الَّذِي سَمِعْتُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَأَدْرَكْتُ عَمَلَ النَّاسِ عَلَى ذَلِكَ عِنْدَنَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے یہ اچھا سنا اور اسی پر لوگوں کو عمل کرتے ہوئے پایا۔
قال قال مالك: وقد بلغني، ان عبد الله بن عمر " كاتب غلاما له على خمسة وثلاثين الف درهم، ثم وضع عنه من آخر كتابته خمسة آلاف درهم" . قَالَ قَالَ مَالِك: وَقَدْ بَلَغَنِي، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ " كَاتَبَ غُلَامًا لَهُ عَلَى خَمْسَةٍ وَثَلَاثِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، ثُمَّ وَضَعَ عَنْهُ مِنْ آخِرِ كِتَابَتِهِ خَمْسَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ" .
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: مجھے یہ پہنچا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام کو مکاتب کیا پینتیس ہزار درہم پر، پھرآخر میں اسے پانچ ہزار درہم معاف کر دیئے۔
قال مالك: الامر عندنا ان المكاتب إذا كاتبه سيده تبعه ماله ولم يتبعه ولده، إلا ان يشترطهم في كتابته. قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّ الْمُكَاتَبَ إِذَا كَاتَبَهُ سَيِّدُهُ تَبِعَهُ مَالُهُ وَلَمْ يَتْبَعْهُ وَلَدُهُ، إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَهُمْ فِي كِتَابَتِهِ.
ہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جب غلام مکاتب ہو جائے، اس کا مال اسی کو ملے گا۔ مگر اولاد اس کے عقد کتابت میں داخل نہ ہوگی، البتہ جب شرط لگائے تو اولاد بھی داخل ہوگی۔