حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن ابي الزناد ، عن سليمان بن يسار ، ان نفيعا مكاتبا كان لام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، او عبدا لها كانت تحته امراة حرة، فطلقها اثنتين ثم اراد ان يراجعها، فامره ازواج النبي صلى الله عليه وسلم ان ياتي عثمان بن عفان ، فيساله عن ذلك، فلقيه عند الدرج آخذا بيد زيد بن ثابت ، فسالهما، فابتدراه جميعا، فقالا: " حرمت عليك، حرمت عليك" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّ نُفَيْعًا مُكَاتَبًا كَانَ لِأُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ عَبْدًا لَهَا كَانَتْ تَحْتَهُ امْرَأَةٌ حُرَّةٌ، فَطَلَّقَهَا اثْنَتَيْنِ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُرَاجِعَهَا، فَأَمَرَهُ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْتِيَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، فَيَسْأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَلَقِيَهُ عِنْدَ الدَّرَجِ آخِذًا بِيَدِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، فَسَأَلَهُمَا، فَابْتَدَرَاهُ جَمِيعًا، فَقَالَا: " حَرُمَتْ عَلَيْكَ، حَرُمَتْ عَلَيْكَ"
حضرت سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ نفیع، سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کا مکاتب تھا یا غلام تھا، اس کے نکاح میں ایک عورت آزاد تھی، اس کو دو طلاق دیں پھر رجعت کرنا چاہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں نے اس کو حکم کیا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے جا کر مسئلہ پوچھ۔ وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے جا کر ملا درج میں (ایک مقام کا نام ہےمدینہ میں)، وہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، جب اس نے مسئلہ پوچھا دونوں نے کہا: وہ عورت تجھ پر حرام ہوگئی۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح لغيره، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15150، 15192، 15193، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4496، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 1328، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12944، 12947، 12948، 12949، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 18557، 18561، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 463/7، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 47»
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، ان نفيعا مكاتبا كان لام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم طلق امراة حرة تطليقتين، فاستفتى عثمان بن عفان ، فقال: " حرمت عليك" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ نُفَيْعًا مُكَاتَبًا كَانَ لِأُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَّقَ امْرَأَةً حُرَّةً تَطْلِيقَتَيْنِ، فَاسْتَفْتَى عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، فَقَالَ: " حَرُمَتْ عَلَيْكَ"
حضرت سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ نفیع جو مکاتب تھا اُم المؤمنین سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کا، اس نے اپنی بی بی کو دو طلاق دیں، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مسئلہ پوچھا، انہوں نے کہا: حرام ہوگئی تجھ پر۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15192، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4483، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 1328، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12944، 12947، 12948، 12949، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 18557، 18561، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 48»
حضرت محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی سے روایت ہے کہ نفیع جو مکاتب تھا سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کا، اس نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مسئلہ پوچھا کہ میں نے اپنی آزاد عورت کو دو طلاق دی ہیں؟ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ عورت تیرے اوپر حرام ہوگئی۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15195، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4482، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 1328، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12944، 12947، 12948، 12949، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 18557، 18561، والشافعي فى «الاُم» برقم: 258/5، والشافعي فى «المسنده» برقم: 76/2، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 49»
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر ، كان يقول: " إذا طلق العبد امراته تطليقتين، فقد حرمت عليه حتى تنكح زوجا غيره، حرة كانت او امة، وعدة الحرة ثلاث حيض، وعدة الامة حيضتان" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، كَانَ يَقُولُ: " إِذَا طَلَّقَ الْعَبْدُ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَتَيْنِ، فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْهِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ، حُرَّةً كَانَتْ أَوْ أَمَةً، وَعِدَّةُ الْحُرَّةِ ثَلَاثُ حِيَضٍ، وَعِدَّةُ الْأَمَةِ حَيْضَتَانِ"
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے: جب غلام اپنی عورت کو دو طلاق دے تو وہ اس پر حرام ہو جائے گی، یہاں تک کہ دوسرے خاوند سے نکاح کرے، خواہ اس کی بی بی لونڈی ہو یا آزاد۔ آزاد عورت کی عدت تین حیض ہے اور لونڈی کی عدت دو حیض ہیں۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 2079، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15198، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3954، 3995،3997، 4000، والبزار فى «مسنده» برقم: 5401، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12957، 12958، 12959، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 18562، 19102، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 4501، 4505، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» 465/7، والطبراني فى "الكبير"، 13868، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 50»
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر ، كان يقول: " من اذن لعبده ان ينكح، فالطلاق بيد العبد ليس بيد غيره من طلاقه شيء، فاما ان ياخذ الرجل امة غلامه، او امة وليدته، فلا جناح عليه" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، كَانَ يَقُولُ: " مَنْ أَذِنَ لِعَبْدِهِ أَنْ يَنْكِحَ، فَالطَّلَاقُ بِيَدِ الْعَبْدِ لَيْسَ بِيَدِ غَيْرِهِ مِنْ طَلَاقِهِ شَيْءٌ، فَأَمَّا أَنْ يَأْخُذَ الرَّجُلُ أَمَةَ غُلَامِهِ، أَوْ أَمَةَ وَلِيدَتِهِ، فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ"
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے: جو شخص اپنے غلام کو نکاح کی اجازت دے تو طلاق غلام کے اختیار میں ہو گی، نہ کہ اور کسی کے ہاتھ میں۔ اگر آدمی اپنے غلام کی لونڈی یا اس کی لونڈی چھین کر اس سے وطی کرے تو درست ہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15114، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 2696، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4480، 4481، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12968، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 18283، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 795، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 51»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ آزاد شخص یا غلام لونڈی کو طلاق دے، یا غلام آزاد بی بی کو طلاق دے اگرچہ وہ حاملہ ہو تو اس کا نفقہ اس پر لازم نہ آئے گا، جب طلاق بائن ہو جس میں رجعت نہیں ہو سکتی۔
مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر آزاد مرد کسی لونڈی سے نکاح کرے، اور اس سے بچہ پیدا ہو تو دودھ پلوائی کا خرچ خاوند پر نہ ہوگا، بلکہ اس کی ماں کے مالک پر ہوگا، کیونکہ وہ بچہ اس کا غلام ہے، اور اگر غلام کسی لونڈی سے نکاح کرے اور اس سے بچہ پیدا ہو تو دودھ پلوائی کا خرچ غلام پر نہ ہوگا، کیونکہ غلام کو مولیٰ کا مال صرف کرنا اس شخص پر جو مولیٰ کی ملک نہیں بغیر مولیٰ کی اجازت کے ناجائز ہے۔
عن سعيد بن المسيب، ان عمر بن الخطاب قال: ايما امراة فقدت زوجها فلم تدر اين هو؟ فإنها تنتظر اربع سنين، ثم تعتد اربعة اشهر وعشرا ثم تحل. _x000D_قالعَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: أَيُّمَا امْرَأَةٍ فَقَدَتْ زَوْجَهَا فَلَمْ تَدْرِ أَيْنَ هُوَ؟ فَإِنَّهَا تَنْتَظِرُ أَرْبَعَ سِنِينَ، ثُمَّ تَعْتَدُّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ثُمَّ تَحِلُّ. _x000D_قَالَ
سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: جس عورت کا خاوند گم ہو جائے اور اس کا پتہ معلوم نہ ہو کہاں ہے، تو جس روز سے اس کی خبر بند ہوئی ہے چار برس تک عورت انتظار کرے، چار برس کے بعد چار مہینے دس دن عدت کر کے اگر چاہے تو دوسرا نکاح کرے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15566، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4690، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3848، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 1751، 1752، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12323، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 16712، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 52»
قال مالك: وإن تزوجت بعد انقضاء عدتها، فدخل بها زوجها او لم يدخل بها، فلا سبيل لزوجها الاول إليها. وذلك الامر عندنا. قَالَ مَالِكٌ: وَإِنْ تَزَوَّجَتْ بَعْدَ انْقِضَاءِ عِدَّتِهَا، فَدَخَلَ بِهَا زَوْجُهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا، فَلَا سَبِيلَ لِزَوْجِهَا الْأَوَّلِ إِلَيْهَا. وَذَلِكَ الْأَمْرُ عِنْدَنَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر عورت کی عدت گزر گئی اور اس نے دوسرا نکاح کر لیا تو پھر پہلے خاوند کو اختیار نہ رہے گا۔ خواہ دوسرے خاوند نے اس سے صحبت کی ہو یا نہ کی ہو۔