جریر بن حازم نے یعلیٰ بن حکیم کی اسی سند کے ساتھ روایت کی، انہوں نے (سلیمان کے واسطے سے) رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، انہوں نے (اپنے چچاؤں میں سے ایک) کے الفاظ نہیں کہے
حضرت حنظلہ بن قیس رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، میں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے زمین کے کرایہ کے بارے میں سوال کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کا کرایہ لینے سے منع فرمایا ہے، تو میں نے پوچھا، کیا سونے اور چاندی کے عوض؟ تو انہوں نے کہا، سونے اور چاندی کے عوض دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ابوعمرو اوزاعی نے مجھے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ابونجاشی سے حدیث بیان کی اور انہوں نے حضرت رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کی ظُہیر بن رافع ان کے چچا تھے، کہا: ظہیر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے کام سے منع فرمایا ہے جو ہمیں سہولت دینے والا تھا۔ میں نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا وہ برحق ہے۔ کہا: آپ نے مجھ سے پوچھا: "تم اپنے کھیتوں کا کیا معاملہ کرتے ہو؟" میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم انہیں چھوٹی نہر (کے کناروں کی پیداوار) پر یا کھجور یا جو کے (متعینہ) وسقوں پر اجرت پر دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "تو ایسا نہ کرو، اسے خود کاشت کرو یا کاشت کے لیے کسی کو دے دو یا ویسے ہی اپنے ہاتھ میں رکھو
حضرت حنظلہ بن قیس انصاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے زمین سونے، چاندی کے عوض ٹھیکہ پر دینے کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے جواب دیا، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تو لوگ صرف ماذنایات کے کنارے والی زمین، کھال کے شروع والی زمین (جہاں پانی خوب لگتا ہے) اور کچھ معین کھیتی کے عوض زمین اجرت پر دیتے تھے، کبھی مالک کا حصہ تباہ ہو جاتا اور مزارع کا حصہ محفوظ رہتا اور کبھی اس کے برعکس مالک کا حصہ محفوظ رہتا اور مزارع کا تباہ ہو جاتا، لوگوں میں اجرت کی شکل یہی تھی، اس لیے آپ نے اس سے روک دیا، اگر کرایہ کوئی معین چیز ہو، جس کے تلف نہ ہونے کی ضمانت ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
عکرمہ بن عمار نے ابونجاشی سے، انہوں نے حضرت رافع رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کی اور انہوں نے اپنے چچا ظہیر رضی اللہ عنہ سے روایت کا تذکرہ نہیں کیا
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار میں سب سے زیادہ کھیت ہمارے خاندان کے تھے، اور ہم زمین اس شرط پر کرایہ یا بٹائی پر دیتے تھے کہ زمین کے اس حصہ کی پیداوار ہو گی، اور اس حصہ کی پیداوار کاشت کار کی ہو گی، بسا اوقات ہمارے حصہ کی زمین سے پیداوار حاصل ہو جاتی اور دوسرے حصہ سے پیداوار حاصل نہ ہوتی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس صورت سے منع فرما دیا، لیکن چاندی کے عوض دینے سے منع نہیں فرمایا۔
امام مالک نے ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن سے اور انہوں نے حنظلہ بن قیس سے روایت کی کہ انہوں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زمین کو کرائے پر دینے کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ کہا: میں نے پوچھا: کیا سونے اور چاندی کے عوض بھی؟ انہوں نے جواب دیا: البتہ سونے اور چاندی کے عوض دینے میں کوئی حرج نہیں
امام صاحب مذکورہ بالا روایت اپنے دو اور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں۔
اوزاعی نے ہمیں ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے حنظلہ بن قیس انصاری نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سونے اور چاندی (دینار اور درہم) کے عوض زمین کو بٹائی پر دینے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں۔ (امر واقع یہ ہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں لوگ نہروں کی زمین، چھوٹے نالوں کے کناروں کی زمین اور (متعین مقدار میں) فصل کی کچھ اشیاء کے عوض زمین اجرت پر دیتے تھے۔ کبھی یہ (حصہ) تباہ ہو جاتا اور وہ محفوظ رہتا اور کبھی یہ محفوظ رہتا اور وہ تباہ ہو جاتا، لوگوں میں بٹائی (کرائے پر دینے) کی صرف یہی صورت تھی، اسی لیے اس سے منع کیا گیا، البتہ معلوم اور محفوظ چیز جس کی ادایگی کی ضمانت دی جا سکتی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں
حضرت عبداللہ بن سائب بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت عبداللہ بن معقل رضی اللہ تعالی عنہ سے مزارعت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا، مجھے ثابت بن ضحاک رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت سے منع کیا ہے، ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے، اس سے منع کیا ہے، اور اس میں ابن معقل ہے، عبداللہ کا نام نہیں ہے۔
سفیان بن عیینہ نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے حدیث بیان کی، انہوں نے حنظلہ زُرَقی سے روایت کی کہ انہوں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: انصار میں سب سے زیادہ ہمارے کھیت تھے۔ کہا: ہم زمین کو اس شرط پر کرائے پر دیتے کہ یہ (حصہ) ہمارے لیے ہے اور وہ (حصہ) ان کے لیے ہے، بسا اوقات اس حصے میں پیداوار ہوتی اور اس میں نہ ہوتی، تو آپ نے ہمیں اس سے منع کر دیا۔ البتہ آپ نے ہمیں چاندی کے عوض دینے سے منع نہیں کیا
حضرت عبداللہ بن سائب بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن معقل رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاں گئے اور ان سے مزارعت کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے جواب دیا، ثابت کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت سے روکا ہے، اور ٹھیکے کا حکم دیا ہے اور فرمایا: ”اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔“
حدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا حماد بن زيد ، عن عمرو ، ان مجاهدا، قال لطاوس : انطلق بنا إلى ابن رافع بن خديج، فاسمع منه الحديث، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: فانتهره، قال: إني والله لو اعلم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عنه، ما فعلته، ولكن حدثني من هو اعلم به منهم يعني ابن عباس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لان يمنح الرجل اخاه ارضه، خير له من ان ياخذ عليها خرجا معلوما ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، أَنَّ مُجَاهِدًا، قَالَ لِطَاوُسٍ : انْطَلِقْ بِنَا إِلَى ابْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، فَاسْمَعْ مِنْهُ الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَانْتَهَرَهُ، قَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ أَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُ، مَا فَعَلْتُهُ، وَلَكِنْ حَدَّثَنِي مَنْ هُوَ أَعْلَمُ بِهِ مِنْهُمْ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَأَنْ يَمْنَحَ الرَّجُلُ أَخَاهُ أَرْضَهُ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهَا خَرْجًا مَعْلُومًا ".
حماد اور یزید بن ہارون نے یحییٰ بن سعید سے اسی سند کے ساتھ اسی کے ہم معنی حدیث بیان کی
امام مجاہد نے، امام طاؤس سے کہا، رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے کے ہاں میرے ساتھ چلو، اس سے اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت سنو! تو طاؤس نے اسے جھڑکا، کہا، اللہ کی قسم! اگر میں یہ جان لوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بٹائی پر زمین دینے سے منع فرمایا ہے، تو میں یہ کام نہ کروں، لیکن مجھے اس شخصیت (ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ) نے جو ان سب سے زیادہ اس مسئلہ سے آگاہ ہیں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی کو زمین کاشت کے لیے دے دے، تو اس کے لیے بہتر ہے کہ اس سے متعین مقدار میں پیداوار لے۔“
وحدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، عن عمرو ، وابن طاوس ، عن طاوس ، انه كان يخابر، قال عمرو: فقلت له: يا ابا عبد الرحمن: لو تركت هذه المخابرة، فإنهم يزعمون ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن المخابرة، فقال: اي عمرو، اخبرني اعلمهم بذلك يعني ابن عباس ، ان النبي صلى الله عليه وسلم لم ينه عنها، إنما قال: " يمنح احدكم اخاه خير له، من ان ياخذ عليها خرجا معلوما "،وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، وَابْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، أَنَّهُ كَانَ يُخَابِرُ، قَالَ عَمْرٌو: فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ: لَوْ تَرَكْتَ هَذِهِ الْمُخَابَرَةَ، فَإِنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْمُخَابَرَةِ، فَقَالَ: أَيْ عَمْرُو، أَخْبَرَنِي أَعْلَمُهُمْ بِذَلِكَ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنْهَ عَنْهَا، إِنَّمَا قَالَ: " يَمْنَحُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ خَيْرٌ لَهُ، مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهَا خَرْجًا مَعْلُومًا "،
یحییٰ بن یحییٰ نے کہا: ہمیں عبدالواحد بن زیاد نے خبر دی، نیز ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں علی بن مسہر نے حدیث بیان کی، ان دونوں (عبدالواحد اور علی) نے (سلیمان) شیبانی سے اور انہوں نے عبداللہ بن سائب سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے عبداللہ بن معقل سے مزارعت (زمین کی پیداوار کی متعین مقدار پر بٹائی) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: مجھے حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت سے منع فرمایا۔ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے: آپ نے اس سے منع فرمایا۔ اور انہوں نے کہا: میں نے ابن معقل سے پوچھا۔ عبداللہ کا نام نہیں لیا
امام طاؤس مخابرہ پر زمین دیتے تھے، تو انہیں عمرو بن دینار نے کہا، اے ابو عبدالرحمٰن! اے کاش! آپ مخابرہ کو ترک کر دیں، کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخابرہ سے منع فرمایا ہے، تو انہوں نے جواب دیا، اے عمرو! مجھے اس مسئلہ کو سب سے بہتر طور پر جاننے والے یعنی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے بتایا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے تو بس یہ فرمایا تھا، ”تم میں سے کوئی پیداوار اٹھانے کے لیے اپنے بھائی کو دے دے تو اس کے لیے، اس پر معین مقدار میں پیداوار لینے سے بہتر ہے۔“
ابوعوانہ نے ہمیں سلیمان شیبانی سے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن سائب سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم عبداللہ بن معقل کے پاس گئے، ہم نے ان سے مزارعت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت سے منع فرمایا اور مؤاجرت (نقدی کے عوض کرائے پر دینے) کا حکم دیا ہے اور فرمایا: "اس میں کوئی حرج نہیں
امام صاحب اپنے پانچ اساتذہ کی سندوں سے عمرو بن دینار کی مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
وحدثني عبد بن حميد ، ومحمد بن رافع ، قال عبد: اخبرنا، وقال ابن رافع: حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن ابن طاوس ، عن ابيه ، عن ابن عباس : ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لان يمنح احدكم اخاه ارضه، خير له من ان ياخذ عليها كذا وكذا لشيء معلوم "، قال: وقال ابن عباس: هو الحقل، وهو بلسان الانصار: المحاقلة.وحَدَّثَنِي عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، قَالَ عبدَ: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَأَنْ يَمْنَحَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ أَرْضَهُ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهَا كَذَا وَكَذَا لِشَيْءٍ مَعْلُومٍ "، قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ الْحَقْلُ، وَهُوَ بِلِسَانِ الْأَنْصَارِ: الْمُحَاقَلَةُ.
حماد بن زید نے ہمیں عمرو (بن دینار) سے خبر دی کہ مجاہد نے طاوس سے کہا: ہمارے ساتھ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے بیٹے کے پاس چلو اور ان سے ان کے والد کے واسطے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کردہ حدیث سنو، کہا: انہوں (طاوس) نے انہیں ڈانٹا اور کہا: اللہ کی قسم: اگر مجھے علم ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے تو میں یہ کام (کبھی) نہ کرتا لیکن مجھے اس شخص نے حدیث بیان کی جو اسے ان سب سے زیادہ جاننے والا ہے، ان کی مراد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی اپنی زمین اپنے بھائی کو عاریتا دے، یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ اس پر متعین پیداوار وصول کرے۔" (اس سے اللہ کی رضا بھی حاصل ہو گی اور جھگڑوں سے محفوظ بھی رہے گا
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا اپنی زمین اپنے بھائی کو پیداوار اٹھانے کے لیے دینا، تمہارے حق میں اس سے بہتر ہے کہ اس پر اتنا اتنا (معین مقدار میں) حصہ لو۔“ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، یہی صورت حقل ہے، انصار اسے محاقلہ کہتے ہیں۔