ابوعمرو اوزاعی نے مجھے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ابونجاشی سے حدیث بیان کی اور انہوں نے حضرت رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کی ظُہیر بن رافع ان کے چچا تھے، کہا: ظہیر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے کام سے منع فرمایا ہے جو ہمیں سہولت دینے والا تھا۔ میں نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا وہ برحق ہے۔ کہا: آپ نے مجھ سے پوچھا: "تم اپنے کھیتوں کا کیا معاملہ کرتے ہو؟" میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم انہیں چھوٹی نہر (کے کناروں کی پیداوار) پر یا کھجور یا جو کے (متعینہ) وسقوں پر اجرت پر دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "تو ایسا نہ کرو، اسے خود کاشت کرو یا کاشت کے لیے کسی کو دے دو یا ویسے ہی اپنے ہاتھ میں رکھو
حضرت حنظلہ بن قیس انصاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے زمین سونے، چاندی کے عوض ٹھیکہ پر دینے کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے جواب دیا، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تو لوگ صرف ماذنایات کے کنارے والی زمین، کھال کے شروع والی زمین (جہاں پانی خوب لگتا ہے) اور کچھ معین کھیتی کے عوض زمین اجرت پر دیتے تھے، کبھی مالک کا حصہ تباہ ہو جاتا اور مزارع کا حصہ محفوظ رہتا اور کبھی اس کے برعکس مالک کا حصہ محفوظ رہتا اور مزارع کا تباہ ہو جاتا، لوگوں میں اجرت کی شکل یہی تھی، اس لیے آپ نے اس سے روک دیا، اگر کرایہ کوئی معین چیز ہو، جس کے تلف نہ ہونے کی ضمانت ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔