صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر

صحيح مسلم
لین دین کے مسائل
The Book of Transactions
19. باب كِرَاءِ الأَرْضِ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ:
19. باب: سونے اور چاندی کے بدلے زمین کرایہ پر دینا۔
Chapter: Leasing out Land (Kira) for gold and silver
حدیث نمبر: 3952
Save to word اعراب
حدثنا حدثنا إسحاق ، اخبرنا عيسى بن يونس ، حدثنا الاوزاعي ، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن ، حدثني حنظلة بن قيس الانصاري ، قال: سالت رافع بن خديج : عن كراء الارض بالذهب والورق؟ فقال: " لا باس به، إنما كان الناس يؤاجرون على عهد النبي صلى الله عليه وسلم على الماذيانات، واقبال الجداول، واشياء من الزرع، فيهلك هذا ويسلم هذا، ويسلم هذا ويهلك هذا، فلم يكن للناس كراء إلا هذا، فلذلك زجر عنه، فاما شيء معلوم مضمون، فلا باس به ".حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي حَنْظَلَةُ بْنُ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيُّ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ : عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ؟ فَقَالَ: " لَا بَأْسَ بِهِ، إِنَّمَا كَانَ النَّاسُ يُؤَاجِرُونَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمَاذِيَانَاتِ، وَأَقْبَالِ الْجَدَاوِلِ، وَأَشْيَاءَ مِنَ الزَّرْعِ، فَيَهْلِكُ هَذَا وَيَسْلَمُ هَذَا، وَيَسْلَمُ هَذَا وَيَهْلِكُ هَذَا، فَلَمْ يَكُنْ لِلنَّاسِ كِرَاءٌ إِلَّا هَذَا، فَلِذَلِكَ زُجِرَ عَنْهُ، فَأَمَّا شَيْءٌ مَعْلُومٌ مَضْمُونٌ، فَلَا بَأْسَ بِهِ ".
ابوعمرو اوزاعی نے مجھے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ابونجاشی سے حدیث بیان کی اور انہوں نے حضرت رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کی ظُہیر بن رافع ان کے چچا تھے، کہا: ظہیر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے کام سے منع فرمایا ہے جو ہمیں سہولت دینے والا تھا۔ میں نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا وہ برحق ہے۔ کہا: آپ نے مجھ سے پوچھا: "تم اپنے کھیتوں کا کیا معاملہ کرتے ہو؟" میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم انہیں چھوٹی نہر (کے کناروں کی پیداوار) پر یا کھجور یا جو کے (متعینہ) وسقوں پر اجرت پر دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "تو ایسا نہ کرو، اسے خود کاشت کرو یا کاشت کے لیے کسی کو دے دو یا ویسے ہی اپنے ہاتھ میں رکھو
حضرت حنظلہ بن قیس انصاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے زمین سونے، چاندی کے عوض ٹھیکہ پر دینے کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے جواب دیا، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تو لوگ صرف ماذنایات کے کنارے والی زمین، کھال کے شروع والی زمین (جہاں پانی خوب لگتا ہے) اور کچھ معین کھیتی کے عوض زمین اجرت پر دیتے تھے، کبھی مالک کا حصہ تباہ ہو جاتا اور مزارع کا حصہ محفوظ رہتا اور کبھی اس کے برعکس مالک کا حصہ محفوظ رہتا اور مزارع کا تباہ ہو جاتا، لوگوں میں اجرت کی شکل یہی تھی، اس لیے آپ نے اس سے روک دیا، اگر کرایہ کوئی معین چیز ہو، جس کے تلف نہ ہونے کی ضمانت ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1547

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3952 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3952  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں زمین کرایہ (اجرت،
بٹائی)

پر دینے کی ممانعت کی اصل وجہ اور سبب بیان کر دیا گیا ہے کہ جس صورت میں ایک فریق کا نقصان ہو اور دوسرا فریق نقصان سے محفوظ رہے،
ظاہر ہے ایک سال کے ٹھیکے میں تو اس کا احتمال ہے،
لیکن مزارعت میں اس کا احتمال نہیں ہے،
کیونکہ نفع اور نقصان میں دونوں فریق شریک ہوتے ہیں،
لیکن (ٹھیکہ)
کی صورت میں اگر فصل آفت کا شکار ہو گئی تو ٹھیکیدار کا نقصان ہو گا اور مالک تو اپنا ٹھیکہ پہلے وصول کر چکا ہو گا،
اس لیے وہ نقصان سے محفوظ رہے گا،
اور مزارعت کی صورت میں نقصان میں دونوں شریک ہوں گے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3952   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.