قال مالك: ما كان من ذلك هديا، فلا يكون إلا بمكة، وما كان من ذلك نسكا فهو يكون حيث احب صاحب النسك قَالَ مَالِك: مَا كَانَ مِنْ ذَلِكَ هَدْيًا، فَلَا يَكُونُ إِلَّا بِمَكَّةَ، وَمَا كَانَ مِنْ ذَلِكَ نُسُكًا فَهُوَ يَكُونُ حَيْثُ أَحَبَّ صَاحِبُ النُّسُكِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اس دم میں سے جو ہدی ہو وہ تو خواہ مخواہ مکہ میں جائے گی، جو کوئی اور عبادت ہو تو اختیار ہے جہاں چاہے کرے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص چاہے ایسے کپڑے پہننا جو احرام میں درست نہیں ہیں، یا بال کم کرنا چاہے، یا خوشبو لگانا چاہے بغیر ضرورت کے، فدیہ کو آسان سمجھ کر، تو یہ جائز نہیں ہے، بلکہ رخصت ضرورت کے وقت ہے، جو کوئی ایسا کرے فدیہ دے۔
سوال ہوا امام مالک رحمہ اللہ سے کہ الله تعالی نے جو فرمایا: «﴿فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ﴾» تو اس شخص کو اختیار ہے اس میں؟ اور نسک کیا چیز ہے؟ اور طعام کتنا واجب ہے؟ اور کس مد سے چاہیے؟ اور روزے کتنے چاہئیں؟ اور اس میں تاخیر کرنا درست ہے یا فی الفور کرنا چاہیے؟ امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا: جتنے کفاروں میں اللہ جل جلالہُ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ یا یہ ہو یا یہ ہو، اس میں اختیار ہے جونسا امر چاہے کرے، اور نسک سے ایک بکری مراد ہے، اور روزے سے تین روز ے مقصود ہیں، اور طعام سے چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا منظور ہے، ہر مسکین کو دو مد دینا چاہیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اور سنا میں نے بعض اہلِ علم سے، کہتے تھے کہ اگر محرم نے کسی چیز کو کچھ مارا اور وہ کسی جانور چرند یا پرند کو جو شکاری ہے جا لگا، اور وہ مر گیا، مگر محرم کا ارادہ اس کے مارنے کا نہ تھا، تو اس پر فدیہ لازم ہو گا، کیونکہ قصد اور خطا دونوں اس باب میں یکساں ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر چند لوگ مل کر ایک شکار ماریں، اور سب احرام باندھے ہوں، تو ہر ایک شخص پر ان میں سے جزاء لازم ہوگی، اور ہر ایک کو پوری جزاء دینی ہوگی، اگر ان پر ہدی کا حکم ہوگا تو ہر ایک کو ہدی دینا ہوگی، اگر روزوں کا حکم ہوگا تو ہر ایک کو روزہ رکھنا ہو گا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ چند آدمی مل کر ایک شخص کو خطا سے مار ڈالیں، تو کفارہ قتل کا یعنی ایک غلام آزاد کرنا ہر ایک پر واجب ہوگا، یا دو مہینے پے در پے روزے ہر ایک کو رکھنے ہوں گے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جس شخص نے شکار مارا بعد کنکریاں مارنے کے اور سر منڈانے سے قبل طواف الافاضہ کے، تو اس پر جزاء اس شکار کی لازم ہوگی، کیونکہ الله تعالی نے فرمایا ہے: «﴿وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا﴾» یعنی ”جب تم احرام کھول ڈالو تو شکار کرو۔“ اور جس شخص نے طوافِ افاضہ نہیں کیا اس کا پورا احرام نہیں کھلا، کیونکہ اس کو صحبت عورتوں سے اور خوشبو لگانا درست نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص حج میں تین روزے رکھنا بھول جائے، یا بیماری کی وجہ سے نہ رکھ سکے، یہاں تک کہ اپنے شہر چلا جائے، تو اس کو اگر ہدی کی قدرت ہو تو ہدی دے، ورنہ تین روز ے اپنے گھر میں رکھ کر پھر سات روزے رکھے۔
حدثني يحيى، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن عيسى بن طلحة ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، انه قال: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم للناس بمنى، والناس يسالونه، فجاءه رجل، فقال له: يا رسول الله، لم اشعر فحلقت قبل ان انحر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انحر ولا حرج". ثم جاءه آخر، فقال: يا رسول الله، لم اشعر، فنحرت قبل ان ارمي، قال:" ارم ولا حرج". قال: فما سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شيء قدم ولا اخر، إلا قال:" افعل ولا حرج" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّهُ قَالَ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلنَّاسِ بِمِنًى، وَالنَّاسُ يَسْأَلُونَهُ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَشْعُرْ فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " انْحَرْ وَلَا حَرَجَ". ثُمَّ جَاءَهُ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَشْعُرْ، فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ:" ارْمِ وَلَا حَرَجَ". قَالَ: فَمَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ، إِلَّا قَالَ:" افْعَلْ وَلَا حَرَجَ"
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرے منیٰ میں حجۃ الوداع میں، اور لوگ مسئلے پوچھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے، سو ایک شخص آیا، اس نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے سر منڈا لیا قبل نحر کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب ذبح کر لے کچھ حرج نہیں ہے۔“ پھر دوسرا شخص آیا، وہ بولا: یا رسول اللہ! میں نے نادانی سے نحر کیا قبل رمی کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمی کر لے کچھ حرج نہیں ہے۔“ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر جب سوال ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کو مقدم یا مؤخر کرنے کا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کر لے کچھ حرج نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 83، 124، 1736، 1737، 1738، 6665، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1306، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2949، 2951، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3877، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4091، 4092،، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2014، والترمذي فى «جامعه» برقم: 916، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1948، 1949، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3051، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9713، 9714، وأحمد فى «مسنده» برقم: 6595، 6600،، والحميدي فى «مسنده» برقم: 591، والبزار فى «مسنده» برقم: 2418، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 15194، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 242»
وحدثني، عن مالك، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قفل من غزو او حج او عمرة، يكبر على كل شرف من الارض ثلاث تكبيرات، ثم يقول: " لا إله إلا الله، وحده لا شريك له له الملك، وله الحمد وهو على كل شيء قدير آيبون تائبون، عابدون ساجدون لربنا حامدون صدق الله وعده، ونصر عبده، وهزم الاحزاب وحده" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَفَلَ مِنْ غَزْوٍ أَوْ حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ، يُكَبِّرُ عَلَى كُلِّ شَرَفٍ مِنَ الْأَرْضِ ثَلَاثَ تَكْبِيرَاتٍ، ثُمَّ يَقُولُ: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ آيِبُونَ تَائِبُونَ، عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ"
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوٹتے جہاد یا حج یا عمرہ سے تو تکبیر کہتے۔ ہر چڑھاؤ پر تین بار فرماتے: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ. لِرَبِّنَا حَامِدُونَ. صَدَقَ اللّٰهُ وَعْدَهُ. وَنَصَرَ عَبْدَهُ. وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ»”ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، اللہ کی طرف پوجنے والے ہیں، سجدہ کرنے والے ہیں، اللہ کو اپنے پروردگار کی طرف کرنے والے ہیں، سچا کیا اللہ نے وعدہ اپنا اور مدد کی اپنے بندے کی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اور بھگا دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوجوں کو اکیلے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1797، 2995، 3084، 4116، 6385، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1342، 1344، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2542، ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2695، 2696، 2707، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3022، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4229، 4230، 8773، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2599، 2770، والترمذي فى «جامعه» برقم: 950، 3447، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2715، 2724، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10425، 10473، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4583، 4658، والحميدي فى «مسنده» برقم: 657، 658، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5513، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 243»