سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہدی کے بعض جانوروں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور بعضوں کو اوروں نے ذبح کیا۔
وحدثني، عن مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر ، قال: " من نذر بدنة، فإنه يقلدها نعلين، ويشعرها، ثم ينحرها عند البيت، او بمنى يوم النحر ليس لها محل دون ذلك، ومن نذر جزورا من الإبل او البقر، فلينحرها حيث شاء" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ: " مَنْ نَذَرَ بَدَنَةً، فَإِنَّهُ يُقَلِّدُهَا نَعْلَيْنِ، وَيُشْعِرُهَا، ثُمَّ يَنْحَرُهَا عِنْدَ الْبَيْتِ، أَوْ بِمِنًى يَوْمَ النَّحْرِ لَيْسَ لَهَا مَحِلٌّ دُونَ ذَلِكَ، وَمَنْ نَذَرَ جَزُورًا مِنَ الْإِبِلِ أَوِ الْبَقَرِ، فَلْيَنْحَرْهَا حَيْثُ شَاءَ"
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جو شخص نذر کرے بدنہ کی (بدنہ اونٹ یا گائے یا بیل کو کہتے ہیں جو بھیجا جائے مکہ کو قربانی کے واسطے) تو اس کے گلے میں دو جوتیاں لٹکا دے، اور اشعار کرے، پھر نحر کرے اس کو بیت اللہ کے پاس یا منیٰ میں دسویں تاریخ ذی الحجہ کو، اس کے سوا اور کوئی جگہ نہیں ہے، اور جو شخص نذر کرے قربانی کی، اونٹ یا گائے کی اس کو اختیار ہے کہ جہاں چاہے نحر کرے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10166، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 15643، 15645، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 182»
قال مالك: لا يجوز لاحد ان يحلق راسه حتى ينحر هديه، ولا ينبغي لاحد ان ينحر قبل الفجر يوم النحر، وإنما العمل كله يوم النحر الذبح ولبس الثياب، وإلقاء التفث والحلاق لا يكون شيء من ذلك يفعل قبل يوم النحرقَالَ مَالِك: لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ أَنْ يَحْلِقَ رَأْسَهُ حَتَّى يَنْحَرَ هَدْيَهُ، وَلَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَنْحَرَ قَبْلَ الْفَجْرِ يَوْمَ النَّحْرِ، وَإِنَّمَا الْعَمَلُ كُلُّهُ يَوْمَ النَّحْرِ الذَّبْحُ وَلُبْسُ الثِّيَابِ، وَإِلْقَاءُ التَّفَثِ وَالْحِلَاقُ لَا يَكُونُ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ يُفْعَلُ قَبْلَ يَوْمِ النَّحْرِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کسی کو درست نہیں ہے کہ ہدی کی نحر سے پہلے سر منڈائے، اور نہ یہ درست ہے کہ یوم النحر کے طلوع فجر سے پیشتر نحر کرے، بلکہ نحر کرنا اور کپڑے بدلنا اور میل چھڑوانا اور سر منڈانا یہ سب کام دسویں تاریخ کو چاہییں، اس سے پہلے درست نہیں ہیں۔
حدثني يحيى، عن مالك، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " اللهم ارحم المحلقين"، قالوا: والمقصرين، يا رسول الله؟ قال:" اللهم ارحم المحلقين"، قالوا: والمقصرين، يا رسول الله؟ قال:" والمقصرين" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " اللَّهُمَّ ارْحَمْ الْمُحَلِّقِينَ"، قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِينَ، يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" اللَّهُمَّ ارْحَمْ الْمُحَلِّقِينَ"، قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِينَ، يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" وَالْمُقَصِّرِينَ"
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ رحم کرے حلق کرنے والوں پر۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: اور قصر کرنے والوں پر یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ رحم کرے حلق کرنے والوں پر۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: اور قصر کرنے والوں پر یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور قصر کرنے والوں پر۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1727، 1729، 4411، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1301، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2929، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3880، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4099، 4101، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1979، والترمذي فى «جامعه» برقم: 913، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1947، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3044، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9491، 9492، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4747، 4991، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 184»
وحدثني، عن مالك، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن ابيه ،" انه كان يدخل مكة ليلا وهو معتمر، فيطوف بالبيت وبين الصفا، والمروة، ويؤخر الحلاق حتى يصبح، قال: ولكنه لا يعود إلى البيت، فيطوف به حتى يحلق راسه، قال: وربما دخل المسجد، فاوتر فيه ولا يقرب البيت" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ،" أَنَّهُ كَانَ يَدْخُلُ مَكَّةَ لَيْلًا وَهُوَ مُعْتَمِرٌ، فَيَطُوفُ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، وَيُؤَخِّرُ الْحِلَاقَ حَتَّى يُصْبِحَ، قَالَ: وَلَكِنَّهُ لَا يَعُودُ إِلَى الْبَيْتِ، فَيَطُوفُ بِهِ حَتَّى يَحْلِقَ رَأْسَهُ، قَالَ: وَرُبَّمَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَأَوْتَرَ فِيهِ وَلَا يَقْرَبُ الْبَيْتَ" .
حضرت عبدالرحمٰن بن قاسم سے روایت ہے کہ ان کے باپ حضرت قاسم بن محمد مکہ میں عمرہ کا احرام باندھ کر رات کو آتے اور طواف وسعی کر کے حلق میں تاخیر کرتے صبح تک، لیکن جب تک حلق نہ کرتے بیت اللہ کا طواف نہ کرتے، اور کبھی مسجد میں آن کر وتر پڑھتے لیکن بیت اللہ کے قریب نہ جاتے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 185»
قال مالك: التفث حلاق الشعر، ولبس الثياب، وما يتبع ذلك.قَالَ مَالِك: التَّفَثُ حِلَاقُ الشَّعْرِ، وَلُبْسُ الثِّيَابِ، وَمَا يَتْبَعُ ذَلِكَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فر مایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «﴿ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ﴾»”پھر چاہیے کہ نکالیں تفث اپنا۔“ تفث کہتے ہیں سر منڈانے اور کپڑے بدلنے کو اور جو اس سے متعلق ہیں۔
قال يحيى: سئل مالك عن رجل نسي الحلاق بمنى في الحج، هل له رخصة في ان يحلق بمكة؟ قال: ذلك واسع. والحلاق بمنى احب إلي. قَالَ يَحْيَى: سُئِلَ مَالِك عَنْ رَجُلٍ نَسِيَ الْحِلَاقَ بِمِنًى فِي الْحَجِّ، هَلْ لَهُ رُخْصَةٌ فِي أَنْ يَحْلِقَ بِمَكَّةَ؟ قَالَ: ذَلِكَ وَاسِعٌ. وَالْحِلَاقُ بِمِنًى أَحَبُّ إِلَيَّ.
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص حلق بھول گیا حج میں، کیا وہ مکہ میں حلق کرے؟ جواب دیا: ہاں کرے، لیکن منیٰ میں حلق کرنا اچھا ہے۔
قال مالك: الامر الذي لا اختلاف فيه عندنا، ان احدا لا يحلق راسه، ولا ياخذ من شعره حتى ينحر هديا إن كان معه، ولا يحل من شيء حرم عليه، حتى يحل بمنى يوم النحر، وذلك ان الله تبارك وتعالى قال: «ولا تحلقوا رءوسكم حتى يبلغ الهدي محله» (سورة البقرة آية 196)قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا، أَنَّ أَحَدًا لَا يَحْلِقُ رَأْسَهُ، وَلَا يَأْخُذُ مِنْ شَعَرِهِ حَتَّى يَنْحَرَ هَدْيًا إِنْ كَانَ مَعَهُ، وَلَا يَحِلُّ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ عَلَيْهِ، حَتَّى يَحِلَّ بِمِنًى يَوْمَ النَّحْرِ، وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ: «وَلا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ» (سورة البقرة آية 196)
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ کوئی شخص سر نہ منڈائے اور بال نہ کتروائے یہاں تک کہ نحر کرے ہدی کو اگر اس کے ساتھ ہو، اور جو چیزیں احرام میں حرام تھیں ان کا استعمال نہ کرے جب تک کہ احرام نہ کھولے منیٰ میں یوم النحر کو۔ کیونکہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے: «﴿وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ﴾»”مت منڈواؤ سروں کو اپنے جب تک ہدی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔“
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن نافع ،" ان عبد الله بن عمر ، كان إذا افطر من رمضان وهو يريد الحج، لم ياخذ من راسه ولا من لحيته شيئا، حتى يحج" . قال مالك: ليس ذلك على الناسحَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ،" أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، كَانَ إِذَا أَفْطَرَ مِنْ رَمَضَانَ وَهُوَ يُرِيدُ الْحَجَّ، لَمْ يَأْخُذْ مِنْ رَأْسِهِ وَلَا مِنْ لِحْيَتِهِ شَيْئًا، حَتَّى يَحُجَّ" . قَالَ مَالِك: لَيْسَ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب رمضان کے روزوں سے فارغ ہوتے اور حج کا قصد ہوتا تو سر اور داڑھی کے بال نہ لیتے یہاں تک کہ حج کرتے۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: یہ امر سب لوگوں پر واجب نہیں ہے۔