وحدثني، عن مالك، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، انه كان يقول لبنيه:" يا بني، لا يهدين احدكم من البدن شيئا، يستحيي، ان يهديه لكريمه فإن الله اكرم الكرماء، واحق من اختير له" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ لِبَنِيهِ:" يَا بَنِيَّ، لَا يُهْدِيَنَّ أَحَدُكُمْ مِنَ الْبُدْنِ شَيْئًا، يَسْتَحْيِي، أَنْ يُهْدِيَهُ لِكَرِيمِهِ فَإِنَّ اللَّهَ أَكْرَمُ الْكُرَمَاءِ، وَأَحَقُّ مَنِ اخْتِيرَ لَهُ"
حضرت عروہ بن زبیر اپنے بیٹوں سے کہتے تھے: اے میرے بیٹو! اللہ کے لیے تم میں سے کوئی ایسا اونٹ نہ دے جو اپنے دوست کو دیتے ہوئے شرماتے، اس لیے کہ اللہ جل جلالہُ سب کریموں سے کریم ہے اور زیادہ حقدار ہے اس امر کا کہ اس کے واسطے چیز چن کر دی جائے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 8158، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 147»
حدثني يحيى، عن مالك، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، ان صاحب هدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يا رسول الله، كيف اصنع بما عطب من الهدي؟ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كل بدنة عطبت من الهدي فانحرها، ثم الق قلادتها في دمها، ثم خل بينها وبين الناس ياكلونها" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ صَاحِبَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أَصْنَعُ بِمَا عَطِبَ مِنَ الْهَدْيِ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُلُّ بَدَنَةٍ عَطِبَتْ مِنَ الْهَدْيِ فَانْحَرْهَا، ثُمَّ أَلْقِ قِلَادَتَهَا فِي دَمِهَا، ثُمَّ خَلِّ بَيْنَهَا وَبَيْنَ النَّاسِ يَأْكُلُونَهَا"
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہدی لے جانے والے نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے: یا رسول اللہ! جو ہدی راستے میں ہلاک ہونے لگے اس کو کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اونٹ ہدی کا ہلاک ہونے لگے، اس کو نحر کر اور اس کے گلے میں جو قلادہ پڑا تھا وہ اس کے خون میں ڈال دے، پھر اس کو چھوڑ دے کہ لوگ کھا لیں اس کو۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه أبو داود: 1762، و ابن ماجه: 3106، و الترمذي: 910، وله شواهد من حديث عبد الله بن عباس، فأما حديث عبد الله بن عباس أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1325، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1763، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1894، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4024، 4025، والطبراني فى "الكبير"، 12897، 12898، 12899، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 15578، 37491، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10358، 10359، 10365، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 4122، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 148»
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، انه قال: " من ساق بدنة تطوعا، فعطبت فنحرها، ثم خلى بينها وبين الناس ياكلونها، فليس عليه شيء، وإن اكل منها، او امر من ياكل منها غرمها" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ سَاقَ بَدَنَةً تَطَوُّعًا، فَعَطِبَتْ فَنَحَرَهَا، ثُمَّ خَلَّى بَيْنَهَا وَبَيْنَ النَّاسِ يَأْكُلُونَهَا، فَلَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ، وَإِنْ أَكَلَ مِنْهَا، أَوْ أَمَرَ مَنْ يَأْكُلُ مِنْهَا غَرِمَهَا"
سعید بن مسیّب نے کہا: جو شخص ہدی کا اونٹ لے جائے، پھر وہ تلف ہونے لگے اور وہ اس کو نحر کر کے چھوڑ دے کہ لوگ اس میں سے کھائیں، تو اس پر کچھ الزام نہیں ہے، البتہ اگر خود اس میں سے کھائے یا کسی کو کھانے کا حکم دے تو تاوان لازم ہوگا۔
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، انه قال: " من اهدى بدنة، ثم ضلت او ماتت فإنها إن كانت نذرا ابدلها، وإن كانت تطوعا، فإن شاء ابدلها، وإن شاء تركها" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ أَهْدَى بَدَنَةً، ثُمَّ ضَلَّتْ أَوْ مَاتَتْ فَإِنَّهَا إِنْ كَانَتْ نَذْرًا أَبْدَلَهَا، وَإِنْ كَانَتْ تَطَوُّعًا، فَإِنْ شَاءَ أَبْدَلَهَا، وَإِنْ شَاءَ تَرَكَهَا" .
افع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جو شخص اونٹ ہدی کا لے جائے، پھر وہ راستے میں مر جائے یا گم ہو جائے، تو اگر نذر کا ہو تو اس کا عوض دے، اور جو نفل ہو تو چاہے عوض دے چاہے نہ دے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2579، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1647، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10256، 10367، 10368، 10369، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 1798، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2527، 2528، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 13362، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 150»
وحدثني، عن مالك انه سمع اهل العلم يقولون: لا ياكل صاحب الهدي من الجزاء والنسكوَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك أَنَّهُ سَمِعَ أَهْلَ الْعِلْمِ يَقُولُونَ: لَا يَأْكُلُ صَاحِبُ الْهَدْيِ مِنَ الْجَزَاءِ وَالنُّسُكِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے سنا اہلِ علم سے، کہتے تھے: مالک ہدی کا نہ کھائے اس ہدی سے جو جزاء ہو جنایت کی یا فدیہ ہو۔
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، انه بلغه، ان عمر بن الخطاب، وعلي بن ابي طالب، وابا هريرة سئلوا عن رجل اصاب اهله وهو محرم بالحج، فقالوا: " ينفذان يمضيان لوجههما حتى يقضيا حجهما، ثم عليهما حج قابل والهدي"، قال: وقال علي بن ابي طالب:" وإذا اهلا بالحج من عام قابل تفرقا، حتى يقضيا حجهما" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، وَعَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، وَأَبَا هُرَيْرَةَ سُئِلُوا عَنْ رَجُلٍ أَصَابَ أَهْلَهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ بِالْحَجِّ، فَقَالُوا: " يَنْفُذَانِ يَمْضِيَانِ لِوَجْهِهِمَا حَتَّى يَقْضِيَا حَجَّهُمَا، ثُمَّ عَلَيْهِمَا حَجُّ قَابِلٍ وَالْهَدْيُ"، قَالَ: وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ:" وَإِذَا أَهَلَّا بِالْحَجِّ مِنْ عَامٍ قَابِلٍ تَفَرَّقَا، حَتَّى يَقْضِيَا حَجَّهُمَا"
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے جماع کیا اپنی بی بی سے احرام میں، وہ کیا کرے؟ ان سب نے جواب دیا کہ وہ دونوں خاوند اور جورو حج کے ارکان ادا کیے جائیں یہاں تک کہ حج پورا ہو جائے، پھر سال آئندہ ان پر حج اور ہدی لازم ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ پھر سال آئندہ جب حج کریں تو دونوں جدا جدا رہیں یہاں تک کہ حج پورا ہو جائے۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9779، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 1554، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3112، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 13249، 13264، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 151»
وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، انه سمع سعيد بن المسيب ، يقول:" ما ترون في رجل وقع بامراته وهو محرم؟" فلم يقل له القوم شيئا، فقال سعيد:" إن رجلا وقع بامراته وهو محرم، فبعث إلى المدينة يسال عن ذلك، فقال بعض الناس: يفرق بينهما إلى عام قابل"، فقال سعيد بن المسيب: " لينفذا لوجههما فليتما حجهما الذي افسداه، فإذا فرغا رجعا. فإن ادركهما حج قابل فعليهما الحج والهدي، ويهلان من حيث اهلا بحجهما الذي افسداه، ويتفرقان حتى يقضيا حجهما" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ ، يَقُولُ:" مَا تَرَوْنَ فِي رَجُلٍ وَقَعَ بِامْرَأَتِهِ وَهُوَ مُحْرِمٌ؟" فَلَمْ يَقُلْ لَهُ الْقَوْمُ شَيْئًا، فَقَالَ سَعِيدٌ:" إِنَّ رَجُلًا وَقَعَ بِامْرَأَتِهِ وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَبَعَثَ إِلَى الْمَدِينَةِ يَسْأَلُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا إِلَى عَامٍ قَابِلٍ"، فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ: " لِيَنْفُذَا لِوَجْهِهِمَا فَلْيُتِمَّا حَجَّهُمَا الَّذِي أَفْسَدَاهُ، فَإِذَا فَرَغَا رَجَعَا. فَإِنْ أَدْرَكَهُمَا حَجٌّ قَابِلٌ فَعَلَيْهِمَا الْحَجُّ وَالْهَدْيُ، وَيُهِلَّانِ مِنْ حَيْثُ أَهَلَّا بِحَجِّهِمَا الَّذِي أَفْسَدَاهُ، وَيَتَفَرَّقَانِ حَتَّى يَقْضِيَا حَجَّهُمَا" .
حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے، انہوں نے سنا حضرت سعید بن مسیّب سے، وہ کہتے تھے لوگوں سے: تم کیا کہتے ہو اس شخص کے بارے میں جس نے جماع کیا اپنی عورت سے احرام کی حالت میں؟ تو لوگوں نے کچھ جواب نہ دیا۔ تب سعید نے کہا کہ ایک شخص نے ایسا ہی کیا تھا تو اس نے مدینہ میں کسی کو بھیجا دریافت کرنے کے لیے۔ بعض لوگوں نے کہا: خاوند اور جورو میں ایک سال تک جدائی کی جائے۔ سعید نے کہا: دونوں حج کرتے چلے جائیں اور اس حج کو پورا کریں جو فاسد کردیا ہے، جب فارغ ہو کر لوٹیں تو دوسرے سال اگر زندہ رہیں تو پھر حج کریں اور ہدی دیں، اور دوسرے حج کا احرام وہیں سے باندھیں جہاں سے پہلے حج کا احرام باندھا تھا، اور مرد عورت جدا رہیں جب تک فراغت ہو حج سے۔