قال مالك: فاما ما لا يؤكل رطبا، وإنما يؤكل بعد حصاده من الحبوب كلها فإنه لا يخرص، وإنما على اهلها فيها إذا حصدوها ودقوها وطيبوها وخلصت حبا، فإنما على اهلها فيها الامانة يؤدون زكاتها إذا بلغ ذلك ما تجب فيه الزكاة، وهذا الامر الذي لا اختلاف فيه عندناقَالَ مَالِك: فَأَمَّا مَا لَا يُؤْكَلُ رَطْبًا، وَإِنَّمَا يُؤْكَلُ بَعْدَ حَصَادِهِ مِنَ الْحُبُوبِ كُلِّهَا فَإِنَّهُ لَا يُخْرَصُ، وَإِنَّمَا عَلَى أَهْلِهَا فِيهَا إِذَا حَصَدُوهَا وَدَقُّوهَا وَطَيَّبُوهَا وَخَلُصَتْ حَبًّا، فَإِنَّمَا عَلَى أَهْلِهَا فِيهَا الْأَمَانَةُ يُؤَدُّونَ زَكَاتَهَا إِذَا بَلَغَ ذَلِكَ مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، وَهَذَا الْأَمْرُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو پھل ایسے ہیں کہ کچے کھائے نہیں جاتے ہیں، اُن کا اندازہ کرنا درست نہیں، بلکہ جب مالک اُن کو کاٹ کاٹ کر صاف کر کے دانے نکالیں، تو جو واجبی طور سے اس کی زکوٰۃ ہو لی جائے۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ہمارے نزدیک اس مسئلہ میں اختلاف نہیں ہے۔
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا، ان النخل يخرص على اهلها وثمرها في رءوسها إذا طاب وحل بيعه، ويؤخذ منه صدقته تمرا عند الجداد، فإن اصابت الثمرة جائحة بعد ان تخرص على اهلها وقبل ان تجذ، فاحاطت الجائحة بالثمر كله فليس عليهم صدقة، فإن بقي من الثمر شيء يبلغ خمسة اوسق فصاعدا بصاع النبي صلى الله عليه وسلم، اخذ منهم زكاته وليس عليهم فيما اصابت الجائحة زكاة، وكذلك العمل في الكرم ايضا قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا، أَنَّ النَّخْلَ يُخْرَصُ عَلَى أَهْلِهَا وَثَمَرُهَا فِي رُءُوسِهَا إِذَا طَابَ وَحَلَّ بَيْعُهُ، وَيُؤْخَذُ مِنْهُ صَدَقَتُهُ تَمْرًا عِنْدَ الْجِدَادِ، فَإِنْ أَصَابَتِ الثَّمَرَةَ جَائِحَةٌ بَعْدَ أَنْ تُخْرَصَ عَلَى أَهْلِهَا وَقَبْلَ أَنْ تُجَذَّ، فَأَحَاطَتِ الْجَائِحَةُ بِالثَّمَرِ كُلِّهِ فَلَيْسَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةٌ، فَإِنْ بَقِيَ مِنَ الثَّمَرِ شَيْءٌ يَبْلُغُ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ فَصَاعِدًا بِصَاعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُخِذَ مِنْهُمْ زَكَاتُهُ وَلَيْسَ عَلَيْهِمْ فِيمَا أَصَابَتِ الْجَائِحَةُ زَكَاةٌ، وَكَذَلِكَ الْعَمَلُ فِي الْكَرْمِ أَيْضًا
کہا: ہمارے نزدیک اتفاقی مسئلہ یہ ہے کہ کھجور کا تخمینہ کیا جائے، جب وہ درخت میں لگی ہو، لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کی پیدائش کا بہتری کے ساتھ حال معلوم ہو جائے اور اس کی بیع درست ہو جائے، پھر لی جائے زکوٰۃ اس کی جب کٹنے کا موسم آئے، اگر بعد تخمینے کے اُن پھلوں پر کوئی آفت آئے جس سے تمام پھل تلف ہو جائیں تو زکوٰۃ واجب نہ ہوگی، البتہ اگر پانچ وسق کے مقدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاع سے باقی رہ جائیں تو اس مقدار کی زکوٰۃ واجب ہوگی، اس جس قدر تلف ہو جائے اُن کی زکوٰۃ نہ ہوگی۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: انگور کا بھی یہی حکم ہے۔
وإذا كان لرجل قطع اموال متفرقة او اشتراك في اموال متفرقة لا يبلغ مال كل شريك او قطعه ما تجب فيه الزكاة، وكانت إذا جمع بعض ذلك إلى بعض يبلغ ما تجب فيه الزكاة، فإنه يجمعها ويؤدي زكاتهاوَإِذَا كَانَ لِرَجُلٍ قِطَعُ أَمْوَالٍ مُتَفَرِّقَةٌ أَوِ اشْتِرَاكٌ فِي أَمْوَالٍ مُتَفَرِّقَةٍ لَا يَبْلُغُ مَالُ كُلِّ شَرِيكٍ أَوْ قِطَعُهُ مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، وَكَانَتْ إِذَا جُمِعَ بَعْضُ ذَلِكَ إِلَى بَعْضٍ يَبْلُغُ مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، فَإِنَّهُ يَجْمَعُهَا وَيُؤَدِّي زَكَاتَهَا
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر کسی شخص کے متفرق قطعات ہوں یا متفرق اموال میں کئی شریک ہوں اور مال ہر شریک کا یا قطعہ کا اس مقدار کو نہ پہنچا ہو جس میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے تو اگر ہر شریک کے سب حصے یا تمام قطعات ملا کر نصاب کو پہنچیں تو زکوٰۃ واجب ہوگی ورنہ واجب نہ ہوگی۔
حدثني يحيى، عن مالك، انه سال ابن شهاب عن الزيتون، فقال: " فيه العشر" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ شِهَابٍ عَنِ الزَّيْتُونِ، فَقَالَ: " فِيهِ الْعُشْرُ"
امام مالک رحمہ اللہ نے پوچھا ابن شہاب سے کہ زیتون میں کیا واجب ہے؟ بولے: دسواں حصہ۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7547، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2327، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7193، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10141، شركة الحروف نمبر: 559، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 35»
قال مالك: وإنما يؤخذ من الزيتون العشر، بعد ان يعصر ويبلغ زيتونه خمسة اوسق، فما لم يبلغ زيتونه خمسة اوسق فلا زكاة فيهقَالَ مَالِك: وَإِنَّمَا يُؤْخَذُ مِنَ الزَّيْتُونِ الْعُشْرُ، بَعْدَ أَنْ يُعْصَرَ وَيَبْلُغَ زَيْتُونُهُ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ، فَمَا لَمْ يَبْلُغْ زَيْتُونُهُ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ فَلَا زَكَاةَ فِيهِ
والزيتون بمنزلة النخيل ما كان منه سقته السماء والعيون، او كان بعلا ففيه العشر، وما كان يسقى بالنضح ففيه نصف العشر، ولا يخرص شيء من الزيتون في شجره وَالزَّيْتُونُ بِمَنْزِلَةِ النَّخِيلِ مَا كَانَ مِنْهُ سَقَتْهُ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ، أَوْ كَانَ بَعْلًا فَفِيهِ الْعُشْرُ، وَمَا كَانَ يُسْقَى بِالنَّضْحِ فَفِيهِ نِصْفُ الْعُشْرِ، وَلَا يُخْرَصُ شَيْءٌ مِنَ الزَّيْتُونِ فِي شَجَرِهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: زیتون مثل کھجور کے ہے، اگر وہ باران یا چشمہ سے پیدا ہوتا ہو یا خود بخود پیدا ہوتا ہو اور اس میں پانی کی حاجت نہ ہو تو اس میں دسواں حصہ لازم ہوگا، اور جو پانی سینچ کر اس میں دیا جائے تو بیسواں حصہ لازم ہوگا، اور زیتون کا خرص کرنا جب وہ درخت میں لگا ہو درست ہے۔
والسنة عندنا في الحبوب التي يدخرها الناس، وياكلونها انه يؤخذ مما سقته السماء من ذلك، وما سقته العيون وما كان بعلا العشر وما سقي بالنضح نصف العشر إذا بلغ ذلك خمسة اوسق بالصاع الاول، صاع النبي صلى الله عليه وسلم، وما زاد على خمسة اوسق ففيه الزكاة بحساب ذلك. وَالسُّنَّةُ عِنْدَنَا فِي الْحُبُوبِ الَّتِي يَدَّخِرُهَا النَّاسُ، وَيَأْكُلُونَهَا أَنَّهُ يُؤْخَذُ مِمَّا سَقَتْهُ السَّمَاءُ مِنْ ذَلِكَ، وَمَا سَقَتْهُ الْعُيُونُ وَمَا كَانَ بَعْلًا الْعُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ إِذَا بَلَغَ ذَلِكَ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ بِالصَّاعِ الْأَوَّلِ، صَاعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا زَادَ عَلَى خَمْسَةِ أَوْسُقٍ فَفِيهِ الزَّكَاةُ بِحِسَابِ ذَلِكَ.
کہا: جتنے قسم کے غلے میں جن کو لوگ کھاتے ہیں یا رکھ چھوڑتے ہیں، اگر بارش سے یا چشمہ کے پانی سے پیدا ہوں یا ان کو پانی کی احتیاج نہ ہو، اس میں دسواں حصہ لازم ہے، اور جن میں پانی سینچ کر دیا جائے ان میں بیسواں حصہ لازم ہے، جب وہ پانچ وسق کے مقدار ہوں، ہر وسق ساٹھ صاع کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاع سے، اور جو اس سے زیادہ ہوں تو بھی اسی کے حساب سے زکوٰۃ لی جائے۔
قال مالك: والحبوب التي فيها الزكاة الحنطة والشعير والسلت والذرة والدخن والارز والعدس والجلبان واللوبيا والجلجلان وما اشبه ذلك من الحبوب التي تصير طعاما، فالزكاة تؤخذ منها بعد ان تحصد وتصير حبا، قال: والناس مصدقون في ذلك ويقبل منهم في ذلك ما دفعواقَالَ مَالِك: وَالْحُبُوبُ الَّتِي فِيهَا الزَّكَاةُ الْحِنْطَةُ وَالشَّعِيرُ وَالسُّلْتُ وَالذُّرَةُ وَالدُّخْنُ وَالْأُرْزُ وَالْعَدَسُ وَالْجُلْبَانُ وَاللُّوبِيَا وَالْجُلْجُلَانُ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِنَ الْحُبُوبِ الَّتِي تَصِيرُ طَعَامًا، فَالزَّكَاةُ تُؤْخَذُ مِنْهَا بَعْدَ أَنْ تُحْصَدَ وَتَصِيرَ حَبًّا، قَالَ: وَالنَّاسُ مُصَدَّقُونَ فِي ذَلِكَ وَيُقْبَلُ مِنْهُمْ فِي ذَلِكَ مَا دَفَعُوا
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جن غلوں میں زکوٰۃ واجب ہے وہ یہ ہیں: گیہوں، اور جو پوست دار اور بے پوست دار، اور جوار، اور چنا، اور چاول، اور مسور، اور ماش، اور لوبیا، اور تل، اور جو مشابہ ہوں ان کے غلوں میں سے جو کھائے جاتے ہیں، تو ان سب میں سے زکوٰۃ لی جائے گی جب وہ کٹ کر تیار ہوں اور دانے صاف ہو جائیں۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ان چیزوں کی زکوٰۃ میں ان کے قول کی تصدیق ہوگی، اور جس قدر دیں گے قبول کر لیا جائے گا۔
وسئل مالك، متى يخرج من الزيتون العشر او نصفه اقبل النفقة ام بعدها؟ فقال: لا ينظر إلى النفقة، ولكن يسال عنه اهله كما يسال اهل الطعام عن الطعام، ويصدقون بما قالوا فمن رفع من زيتونه خمسة اوسق فصاعدا اخذ من زيته العشر بعد ان يعصر، ومن لم يرفع من زيتونه خمسة اوسق لم تجب عليه في زيته الزكاة وَسُئِلَ مَالِك، مَتَى يُخْرَجُ مِنَ الزَّيْتُونِ الْعُشْرُ أَوْ نِصْفُهُ أَقَبْلَ النَّفَقَةِ أَمْ بَعْدَهَا؟ فَقَالَ: لَا يُنْظَرُ إِلَى النَّفَقَةِ، وَلَكِنْ يُسْأَلُ عَنْهُ أَهْلُهُ كَمَا يُسْأَلُ أَهْلُ الطَّعَامِ عَنِ الطَّعَامِ، وَيُصَدَّقُونَ بِمَا قَالُوا فَمَنْ رُفِعَ مِنْ زَيْتُونِهِ خَمْسَةُ أَوْسُقٍ فَصَاعِدًا أُخِذَ مِنْ زَيْتِهِ الْعُشْرُ بَعْدَ أَنْ يُعْصَرَ، وَمَنْ لَمْ يُرْفَعْ مِنْ زَيْتُونِهِ خَمْسَةُ أَوْسُقٍ لَمْ تَجِبْ عَلَيْهِ فِي زَيْتِهِ الزَّكَاةُ
کہا یحییٰ نے سوال ہوا امام مالک رحمہ اللہ سے کہ زیتون کا دسواں حصہ کب نکالا جائے گا، قبل خرچ کے یا بعد خرچ کے؟ انہوں نے جواب دیا کہ خرچ اخراجات کو دیکھنا کچھ ضروری نہیں ہے بلکہ اس کے مالک سے پوچھیں گے۔ جیسے غلہ کے مالک سے پوچھتے ہیں، وہ کہیں گے ان کی تصدیق ہوگی، پس جو شخص اپنے زیتون سے پانچ وسق یا زیادہ دانے پائے گا اس سے دسواں حصہ تیل کا لیا جائے گا، اور جو اس سے کم پائے گا اس سے کچھ کم لیا جائے گا۔
قال مالك: ومن باع زرعه وقد صلح ويبس في اكمامه فعليه زكاته، وليس على الذي اشتراه زكاة، ولا يصلح بيع الزرع حتى ييبس في اكمامه، ويستغني عن الماء قَالَ مَالِك: وَمَنْ بَاعَ زَرْعَهُ وَقَدْ صَلَحَ وَيَبِسَ فِي أَكْمَامِهِ فَعَلَيْهِ زَكَاتُهُ، وَلَيْسَ عَلَى الَّذِي اشْتَرَاهُ زَكَاةٌ، وَلَا يَصْلُحُ بَيْعُ الزَّرْعِ حَتَّى يَيْبَسَ فِي أَكْمَامِهِ، وَيَسْتَغْنِيَ عَنِ الْمَاءِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جب کھیت پک کر تیار ہو جائے اور مالک اس کو بیچ ڈالے تو مالک پر زکوٰۃ ہوگی، نہ خریدار پر۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: کھیت کا بیچنا درست نہیں ہے جب تک پک کر پھل بالیوں میں سوکھ نہ جائیں اور پانی نہ دینے کی احتیاج نہ رہے۔