وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي بكر بن ابي الجهم بن صخير العدوي ، قال: سمعت فاطمة بنت قيس ، تقول: إن زوجها طلقها ثلاثا، " فلم يجعل لها رسول الله صلى الله عليه وسلم سكنى، ولا نفقة، قالت: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا حللت، فآذنيني، فآذنته فخطبها معاوية، وابو جهم، واسامة بن زيد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اما معاوية، فرجل ترب لا مال له، واما ابو جهم، فرجل ضراب للنساء، ولكن اسامة بن زيد "، فقالت: بيدها هكذا اسامة اسامة، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: " طاعة الله وطاعة رسوله خير لك "، قالت: فتزوجته، فاغتبطت.وَحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا وَكِيعٌ ، حدثنا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ بْنِ صُخَيْرٍ الْعَدَوِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ ، تَقُولُ: إِنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، " فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةً، قَالَت: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا حَلَلْتِ، فَآذِنِينِي، فَآذَنْتُهُ فَخَطَبَهَا مُعَاوِيَةُ، وَأَبُو جَهْمٍ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَّا مُعَاوِيَةُ، فَرَجُلٌ تَرِبٌ لَا مَالَ لَهُ، وَأَمَّا أَبُو جَهْمٍ، فَرَجُلٌ ضَرَّابٌ لِلنِّسَاءِ، وَلَكِنْ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ "، فقَالَت: بِيَدِهَا هَكَذَا أُسَامَةُ أُسَامَةُ، فقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " طَاعَةُ اللَّهِ وَطَاعَةُ رَسُولِهِ خَيْرٌ لَكِ "، قَالَت: فَتَزَوَّجْتُهُ، فَاغْتَبَطْتُ.
وکیع نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے ابوبکر بن ابوجہم بن سخیر عدوی سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے سنا وہ کہہ رہی تھیں کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رہائش دی نہ خرچ۔ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: "جب (عدت سے) آزاد ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا" سو میں نے آپ کو اطلاع دی۔ معاویہ، ابوجہم اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم نے ان کی طرف پیغام بھیجا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "معاویہ تو فقیر ہے اس کے پاس مال نہیں ہے، اور رہا ابوجہم تو وہ عورتوں کو بہت مارنے والا ہے، البتہ اسامہ بن زید ہے۔" انہوں نے (ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے) ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا: اسامہ! اسامہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: "اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لیے بہتر ہے۔" کہا: تو میں نے ان سے شادی کر لی، اس کے بعد مجھ پر رشک کیا جانے لگا
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے خاوند نے مجھے تیسری طلاق دے دی۔ تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکنیٰ اور نفقہ نہ دلوایا، وہ بیان کرتی ہیں، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تیری عدت گزر جائے، تو مجھے اطلاع دینا۔“ میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی، اور مجھے معاویہ، ابو جہم اور اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہم نے نکاح کا پیغام بھیجا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معاویہ تو فقیر آدمی ہے اس کے پاس کچھ مال نہیں ہے، اور رہا ابو جہم تو وہ عورتوں کو بہت مارنے والا آدمی ہے، لیکن اسامہ بن زید ٹھیک ہے۔“ تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے کراہیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، اسامہ! اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ (یعنی وہ کم تر حیثیت کا مالک ہے اور میں خاندانی ہوں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت تیرے حق میں بہتر ہے۔“ وہ بیان کرتی ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر میں نے اس سے شادی کر لی اور قابل رشک بن گئی۔
عبدالرحمٰن نے ہمیں سفیان سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوبکر بن ابی جہم سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے سنا وہ کہہ رہی تھیں: میرے شوہر ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ نے عیاش بن ابی ربیعہ کو میری طلاق کا پیغام دے کر بھیجا اور اس کے ساتھ پانچ صاع کھجوریں اور پانچ صاع جَو بھی بھیجے۔ میں نے کہا: کیا میرے لیے صرف یہی خرچ ہے؟ کیا میں تم لوگوں کے گھر میں عدت نہیں گزاروں گی؟ اس نے جواب دیا: نہیں۔ انہوں نے کہا: میں نے اپنے کپڑے سمیٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے پوچھا: "وہ تمہیں کتنی طلاقیں دے چکے ہیں؟" میں نے جواب دیا: تین۔ آپ نے فرمایا: "اس نے سچ کہا، تمہارے لیے خرچ نہیں ہے۔ اپنے چچا زاد عمرو بن ام مکتوم کے گھر عدت گزارو، وہ نابینا ہیں تم ان کے ہاں اپنا اوڑھنے کا کپڑا اتار سکو گی۔ جب تمہاری عدت ختم ہو جائے تو مجھے اطلاع دینا۔" انہوں نے (آکر) کہا: مجھے کئی لوگوں نے نکاح کا پیغام بھیجا ہے، ان میں معاویہ اور ابوجہم بھی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "معاویہ تو فقیر اور مفلوک الحال ہے، اور رہے ابوجہم تو وہ عورتوں پر بہت سختی کرتے ہیں۔۔ یا وہ عورتوں کو مارتے ہیں، یا اس طرح کی کوئی اور بات کہی۔۔ البتہ تم اسامہ بن زید کو قبول کر لو
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے خاوند ابو عمرو بن حفص بن مغیرہ نے عیاش بن ابی ربیعہ کے ذریعہ مجھے طلاق بھیجی اور اس کے ہاتھ پانچ صاع کھجور اور پانچ صاع جو بھی بھیجے، میں نے پوچھا، کیا مجھے یہی خرچ ملے گا؟ اور میں تمہارے مکان میں عدت نہیں گزار سکوں گی، اس نے جواب دیا، نہیں، تو میں نے اپنے کپڑے درست کیے، اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اس نے تمہیں کتنی طلاقیں دی ہیں؟“ میں نے کہا، تین، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے ٹھیک کہا، تجھے نفقہ نہیں ملے گا۔ اپنے چچا داز ابن ام مکتوم کے ہاں اپنی عدت گزار، کیونکہ وہ نابینا ہے۔ تو وہاں اپنے پردہ کے کپڑے اتار سکے گی، اور جب تیری عدت ختم ہو جائے تو مجھے اطلاع دینا۔“ وہ بیان کرتی ہیں، مجھے پیغام نکاح بھیجنے والوں نے پیغامِ نکاح بھیجا۔ ان میں معاویہ اور ابو جہم بھی تھے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معاویہ تو فقیر اور پتلے حال والا ہے اور ابو جہم عورتوں سے سختی سے پیش آتا ہے یا عورتوں کو مار پیٹ یا اس قسم کا کام کرتا ہے۔ لیکن تو اسامہ بن زید کو قبول کر لے۔“
ابو عاصم نے ہمیں خبر دی (کہا:) ہمیں سفیان ثوری نے ابوبکر بن ابی جہم سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے ہاں حاضر ہوئے، ہم نے ان سے سوال کیا، تو انہوں نے کہا: میں ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ کی بییو تھی، وہ نجران کی لڑائی میں نکلے، آگے انہوں نے ابن مہدی کی حدیث کے ہم معنی بیان کیا اور یہ اضافہ کیا: (فاطمہ نے) کہا: تو میں نے ان (اسامہ) سے شادی کر لی، اللہ نے ابوزید (اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ) کی وجہ سے مجھے شرف بخشا، اللہ نے ابوزید کی وجہ سے مجھے عزت دی
ابوبکر بن ابی جہم بیان کرتے ہیں کہ میں ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس گئے اور ان سے سوال کیا، تو اس نے جواب دیا، میں ابو عمرو بن حفص بن مغیرہ کے نکاح میں تھی، اور وہ نجران کی لڑائی میں شرکت کے لیے چلا گیا۔ اور آگے مذکورہ بالا حدیث بیان کی اور یہ اضافہ کیا، تو میں نے اسامہ سے شادی کر لی، اللہ تعالیٰ نے مجھے ابو زید کے ذریعہ مقام شرف و مرتبہ بخشا اور اللہ نے مجھے ابو زید کے ذریعہ عزت بخشی (ابو زید حضرت اسامہ کی کنیت ہے۔)
شعبہ نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ابوبکر (بن ابی جہم) نے مجھے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں اور ابوسلمہ، ابن زبیر کے زمانہ خلافت میں، فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں حدیث بیان کی کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دیں، آگے سفیان کی حدیث کی طرح ہے
ابوبکر بیان کرتے ہیں کہ میں اور ابو سلمہ، ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس گئے۔ تو اس نے ہمیں بتایا۔ اس کے خاوند نے اسے طلاق بتہ (کاٹنے والی) دے دی۔ آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔
عبداللہ بن یسار) بہی نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے رہائش اور خرچ نہیں رکھا
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، میرے خاوند نے مجھے تینوں طلاقیں دے دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے رہائش اور نفقہ مقرر نہ کیا (کچھ بھی نہ دلوایا۔)
وحدثنا وحدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو اسامة ، عن هشام ، حدثني ابي ، قال: تزوج يحيى بن سعيد بن العاص بنت عبد الرحمن بن الحكم، فطلقها فاخرجها من عنده، فعاب ذلك عليهم عروة، فقالوا: إن فاطمة قد خرجت، قال عروة: فاتيت عائشة ، فاخبرتها بذلك، فقالت: " ما لفاطمة بنت قيس خير في ان تذكر هذا الحديث ".وحدثنا وحدثنا أَبُو كُرَيْبٍ ، حدثنا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: تَزَوَّجَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَكَمِ، فَطَلَّقَهَا فَأَخْرَجَهَا مِنْ عَنْدِهِ، فَعَابَ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ عُرْوَةُ، فقَالُوا: إِنَّ فَاطِمَةَ قَدْ خَرَجَتْ، قَالَ عُرْوَةُ: فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ ، فَأَخْبَرْتُهَا بِذَلِكَ، فقَالَت: " مَا لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ خَيْرٌ فِي أَنْ تَذْكُرَ هَذَا الْحَدِيثَ ".
عروہ بن زبیر نے کہا: یحییٰ بن سعید بن عاص نے عبدالرحمٰن بن حکم کی بیٹی سے شادی کی، بعد میں اسے طلاق دے دی اور اسے اپنے ہاں سے بھی نکال دیا۔ عروہ نے اس بات کی وجہ سے ان پر سخت اعتراض کیا، تو انہوں نے کہا: فاطمہ (بھی اپنے خاوند کے گھر سے) چلی گئی تھی۔ عروہ نے کہا: اس پر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا: فاطمہ بنت قیس کے لیے اس حدیث کو بیان کرنے میں کوئی خیر نہیں ہے
حضرت ہشام بیان کرتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید بن عاص نے عبدالرحمٰن بن حکم کی بیٹی سے شادی کی۔ اور اسے طلاق دے کر اپنے ہاں سے نکال دیا۔ حضرت عروہ نے ان پر اعتراض کیا۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اپنے خاوند کے گھر سے چلی گئی تھی۔ عروہ نے کہا، تو میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو آ کر خبر دی، تو انہوں نے کہا، فاطمہ بنت قیس کے حق میں اس واقعہ کو بیان کرنا اچھا نہیں ہے (کیونکہ حضرت عائشہ کے نزدیک یہ حضرت فاطمہ کے مخصوص حالات کی بنا پر ہوا تھا۔)
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! مجھے میرے شوہر نے تین طلاقیں دے دی ہیں، اور میں ڈرتی ہوں کہ کوئی گھس کر مجھ پر حملہ کر دے گا، کہا: اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے جگہ بدل لی
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میرے خاوند نے مجھے تینوں طلاقیں دے دی ہیں۔ اور مجھے خطرہ ہے کہ مجھ پر ہجوم کیا جائے گا (کوئی اچانک گھس آئے گا) تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مکان بدلنے کا حکم دیا۔
شعبہ نے ہمیں عبدالرحمٰن بن قاسم سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد (قاسم) سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: اس بات کو بیان کرنے میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے کوئی بھلائی نہیں ہے کہ "نہ رہائش ہے نہ خرچ
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں فاطمہ کے لیے یہ بیان کرنا کہ اس کے لیے نہ رہائش ہے اور نہ نفقہ بہتر نہیں ہے۔
سفیان نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے اور انہوں نے اپنے والد (قاسم) سے روایت کی، انہوں نے کہا: عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا آپ نے فلانہ بنت حکم کو نہیں دیکھا؟ اس کے شوہر نے اسے تین طلاقیں دیں تو وہ (اس کے گھر سے) چلی گئی۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: اس نے برا کیا۔ عروہ نے پوچھا: کیا آپ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا قول نہیں سنا؟ تو انہوں نے جواب دیا: دیکھو! اس کو بیان کرنے میں اس کے لیے کوئی بھلائی نہیں ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں، فاطمہ کے حق میں یہ بات بیان کرنا بہتر نہیں ہے۔ یعنی (مطلقہ ثلاثہ کے لیے) نہ رہائش ہے اور نہ خرچہ۔ حضرت عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا۔ کیا آپ کو حکم کی فلاں بیٹی کی حرکت کا علم ہے؟ اس کے خاوند نے اسے طلاق بتہ دے دی تو وہ اس کے گھر سے چلی گئی۔ تو انہوں نے کہا، بہت برا کام کیا، عروہ نے پوچھا۔ کیا آپ نے فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی بات نہیں سنی؟ تو انہوں نے جواب دیا۔ ہاں، اس کے حق میں یہ بیان کرنا بہتر نہیں ہے۔ (کیونکہ اگر میں اس کی وجہ بیان کروں گی، تو اسے تکلیف ہو گی۔)
7. باب: معتدہ بائی کو اور جس کا شوہر مر گیا ہو اس کو دن میں نکلنا ضرورت کے واسطے روا ہے۔
Chapter: It is permissible for a woman who is observing 'Iddah after an irrevocable divorce or the death of her husband to go out during the day if she needs to
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میری خالہ کو طلاق ہو گئی، انہوں نے (دورانِ عدت) اپنی کھجوروں کا پھل توڑنے کا ارادہ کیا، تو ایک آدمی نے انہیں (گھر سے) باہر نکلنے پر ڈانٹا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، تو آپ نے فرمایا: "کیوں نہیں، اپنی کھجوروں کا پھل توڑو، ممکن ہے کہ تم (اس سے) صدقہ کرو یا کوئی اور اچھا کام کرو
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، الفاظ ہارون بن عبداللہ کے ہیں، کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں میری خالہ کو طلاق مل گئی، تو اس نے نخلستان سے اپنی کھجوریں توڑنے کا ارادہ کیا۔ تو اسے ایک آدمی نے گھر سے نکلنے پر ڈانٹا۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں، اپنی کھجوریں توڑ، کیونکہ ہو سکتا ہے، تم صدقہ کرو یا کوئی اور نیکی کرو۔“