ابو احمد زبیری نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں مکہ کے قصہ گو سعید بن حسان نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے عروہ بن عیاض بن عدی بن خیار نوفلی نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے خبر دی، انہوں نے کہا: ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ (آگے) سفیان کی حدیث کے ہم معنی (ہے
امام صاحب ایک اور استاد سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آ گے مذکورہ بالا روایت ہے۔
ہمیں ابوبکر بن ابی شیبہ اور اسحاق بن ابراہیم نے حدیث بیان کی، (انہوں نے کہا) ہمیں سفیان نے عمرو سے حدیث بیان کی، انہوں نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم عزل کرتے تھے جبکہ قرآن نازل ہو رہا ہوتا تھا۔ اسحاق نے اضافہ کیا: سفیان نے کہا: اگر یہ ایسی چیز ہوتی جس سے منع کیا جانا (ضروری) ہوتا تو قرآن ہمیں (ضرور) اس سے منع کرتا
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نزولِ قرآن کے زمانہ میں عزل کیا کرتے تھے۔ اسحاق کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ سفیان نے کہا، اگر یہ قابل نہی کام ہوتا یا اس سے روکنے کی ضرورت ہوتی تو ہمیں قرآنِ مجید کے ذریعہ اس سے روک دیا جاتا۔
معقل نے ہمیں عطاء سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عزل کیا کرتے تھے
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عزل کرتے تھے۔
ابوزبیر نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عزل کرتے تھے۔ یہ بات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے ہمیں منع نہیں فرمایا
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عزل کیا کرتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (دو ٹوک انداز میں، قطعیت کے ساتھ) منع نہیں فرمایا۔
وحدثني محمد بن المثنى ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن يزيد بن خمير ، قال: سمعت عبد الرحمن بن جبير ، يحدث عن ابيه ، عن ابي الدرداء ، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه اتى بامراة مجح على باب فسطاط، فقال: لعله يريد ان يلم بها، فقالوا: نعم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لقد هممت ان العنه لعنا يدخل معه قبره، كيف يورثه وهو لا يحل له، كيف يستخدمه وهو لا يحل له ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حدثنا شُعْبَةُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرٍ ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَتَى بِامْرَأَةٍ مُجِحٍّ عَلَى بَابِ فُسْطَاطٍ، فقَالَ: لَعَلَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُلِمَّ بِهَا، فقَالُوا: نَعَمْ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَلْعَنْهُ لَعَنْا يَدْخُلُ مَعَهُ قَبْرَهُ، كَيْفَ يُوَرِّثُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ، كَيْفَ يَسْتَخْدِمُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ ".
محمد بن جعفر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے یزید بن خُمَیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے عبدالرحمٰن بن جبیر سے سنا وہ اپنے والد (جبیر بن نفیر) سے حدیث بیان کر رہے تھے، انہوں نے ابودرداء رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیمے کے دروازے پر کھڑی ایک پورے دِنوں کی حاملہ عورت (لونڈی) کے پاس سے گزرے، آپ نے فرمایا: "شاید وہ (اس کا مالک) چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ مجامعت کرے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی: جی ہاں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے ارادہ کیا کہ اس پر ایسی لعنت بھیجوں جو اس کی قبر میں اس کے ساتھ جائے۔ ایسا کام کرنے والا کیسے اس (طرح کے بچے) کو وارث بنائے گا، جبکہ وہ (وارث بنانا) اس کے لیے حلال نہیں۔ وہ کیسے اس سے خدمت لے گا (اسے غلام بنائے گا؟) جبکہ (اس بچے کے پیٹ میں ہونے کے دوران میں اس کی ماں سے مباشرت کرنے کی بنا پر اس بچے/بچی کو غلام/کنیز بنانا) اس کے لیے حلال نہیں
حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیمہ کے دروازہ پر ایک ایسی عورت سے گزرے، جس کا زمانہ ولادت بالکل قریب تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید وہ شخص اس سے قربت کرنا چاہتا ہے؟“ صحابہ کرام نے عرض کیا، جی ہاں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا ارادہ ہے کہ میں اس شخص پر ایسی لعنت بھیجوں جو قبر میں بھی اس کے ساتھ جائے۔ وہ اس کو کیسے وارث بنائے گا جبکہ وہ اس کے لیے حلال نہیں ہے؟ وہ اس سے کیسے خدمت لے گا، جبکہ وہ اس کے لیے جائز نہیں ہے؟“
3564. خلف بن ہشام اور یحییٰ بن یحییٰ نے۔۔ الفاظ یحییٰ کے ہیں۔۔ مالک بن انس سے حدیث بیان کی، انہوں نے محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اور انہوں نے جُدامہ بنت وہب اسدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”میں نے ارادہ کیا تھا کہ غِیلہ (دودھ پلانے والی عورت کے ساتھ مباشرت کرنے) سے منع کر دوں، پھر مجھے یاد آ یا کہ روم اور فارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں اور یہ ان کے بچوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔“ جہاں تک خلف کا تعلق ہے تو انہوں نے کہا: جذامہ اسدیہ سے روایت ہے۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: صحیح وہ ہے جو یحییٰ نے کہا (کہ یہ لفظ) بغیر نقطے والی دال کے ساتھ (جُدَامَہ) ہے۔
حضرت جدامہ بنت وہب اسدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں دودھ پلانے والی عورت سے مباشرت کرنے سے منع کر دوں حتی کہ مجھے یاد آ یا کہ رومی اور فارسی دودھ پلانے والی عورت سے مجامعت کرتے ہیں اور اس سے ان کی اولاد کو نقصان نہیں پہنچتا۔“ امام مسلم فرماتے ہیں: میرے استاد خلف نے جُذَامَہ اَسَدِیَہ، ذال مَنقُوطَہ
حدثنا عبيد الله بن سعيد ، ومحمد بن ابي عمر ، قالا: حدثنا المقرئ ، حدثنا سعيد بن ابي ايوب ، حدثني ابو الاسود ، عن عروة ، عن عائشة ، عن جدامة بنت وهب اخت عكاشة، قالت: حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم في اناس وهو يقول: " لقد هممت ان انهى عن الغيلة، فنظرت في الروم، وفارس، فإذا هم يغيلون اولادهم، فلا يضر اولادهم ذلك شيئا "، ثم سالوه عن العزل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ذلك الواد الخفي "، زاد عبيد الله في حديثه، عن المقرئ، وهي: وإذا الموءودة سئلت سورة التكوير آية 8،حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عمر ، قَالَا: حدثنا الْمُقْرِئُ ، حدثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ ، حَدَّثَنِي أَبُو الْأَسْوَدِ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنْ جُدَامَةَ بِنْتِ وَهْبٍ أُخْتِ عُكَّاشَةَ، قَالَت: حَضَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُنَاسٍ وَهُوَ يَقُولُ: " لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَنْهَى عَنِ الْغِيلَةِ، فَنَظَرْتُ فِي الرُّومِ، وَفَارِسَ، فَإِذَا هُمْ يُغِيلُونَ أَوْلَادَهُمْ، فَلَا يَضُرُّ أَوْلَادَهُمْ ذَلِكَ شَيْئًا "، ثُمَّ سَأَلُوهُ عَنِ الْعَزْلِ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ذَلِكَ الْوَأْدُ الْخَفِيُّ "، زَادَ عُبَيْدُ اللَّهِ فِي حَدِيثِهِ، عَنِ الْمُقْرِئِ، وَهِيَ: وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ سورة التكوير آية 8،
عبیداللہ بن سعید اور محمد بن ابی عمر نے ہمیں حدیث بیان کی، ان دونوں نے کہا: ہمیں مُقری نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سعید بن ابی ایوب نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابواسود نے عروہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انہوں نے عکاشہ رضی اللہ عنہ کی بہن جدامہ بنت وہب رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں لوگوں کی موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: "میں نے ارادہ کیا تھا کہ غیلہ (دودھ پلانے والی بیوی کے ساتھ مباشرت کرنے) سے منع کر دوں، پھر میں نے روم اور فارس (کے لوگوں کے بارے) میں دیکھا (سوچا، غور کیا) تو وہ اپنے بچوں (کی دودھ پلانے والی ماؤں) سے غیلہ کرتے ہیں اور یہ ان کے بچوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچاتا۔" پھر صحابہ نے آپ سے عزل کے بارے میں پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ مخفی (واد) زندہ درگور کرنا ہے۔" عبیداللہ نے مُقری سے روایت کردہ اپنی حدیث میں اضافہ کیا: اور یہی ہے: "زندہ درگور کی گئی سے (قیامت کے دن) پوچھا جائے گا
حضرت عکاشہ کی ہمشیرہ حضرت جدامہ بنت وہب رضی اللہ تعلیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”میں نے ارادہ کر لیا کہ میں غیلہ سے روک دوں، تو میں نے روم اور فارس کے بارے میں غور کیا، وہ اپنے دودھ پیتے بچوں کی ماں سے تعلقات قائم کرتے ہیں اور یہ کام ان کی اولاد کو کچھ ضرر نہیں پہنچاتا۔“ پھر صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں پوچھا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ پوشیدہ طور پر زندہ کو دفن کرنا ہے۔“ عبیداللہ نے اپنی روایت میں اپنے استاد مقرء سے یہ اضافہ کیا، یہ فعل اس آیت کا مصداق ہے: (جب زندہ دفن کی گئی سے سوال کیا جائے گا۔)(التکویر: 8)
یحییٰ بن ایوب نے ہمیں محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل قرشی سے حدیث بیان کی، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انہوں نے جدامہ بنت وہب اسدیہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔۔۔ آگے عزل اور غیلہ کے بارے میں سعید بن ابوایوب کی حدیث کی طرح بیان کیا۔ لیکن انہوں نے (غیلہ کے بجائے) غِیال کہا (معنی وہی ہیں
حضرت جُدامہ بنت ویب اسدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آ گے عزل اور غیلہ کے بارے میں مذکورہ بالا سعید بن ابی ایوب کی حدیث کی طرح بیان کیا اور غیلہ کی بجائے غیال کہا۔
حدثني محمد بن عبد الله بن نمير ، وزهير بن حرب ، واللفظ لابن نمير، قالا: حدثنا عبد الله بن يزيد المقبري ، حدثنا حيوة ، حدثني عياش بن عباس ، ان ابا النضر ، حدثه، عن عامر بن سعد ، ان اسامة بن زيد ، اخبر والده سعد بن ابي وقاص، ان رجلا جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إني اعزل عن امراتي، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لم تفعل ذلك؟ "، فقال الرجل: اشفق على ولدها او على اولادها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو كان ذلك ضارا، ضر فارس، والروم "، وقال زهير في روايته: إن كان لذلك فلا ما ضار ذلك فارس، ولا الروم.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ نُمَيْرٍ، قَالَا: حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمَقْبُرِيُّ ، حدثنا حَيْوَةُ ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ ، أَنَّ أَبَا النَّضْرِ ، حَدَّثَهُ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ ، أَخْبَرَ وَالِدَهُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: إِنِّي أَعْزِلُ عَنِ امْرَأَتِي، فقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِمَ تَفْعَلُ ذَلِكَ؟ "، فقَالَ الرَّجُلُ: أُشْفِقُ عَلَى وَلَدِهَا أَوْ عَلَى أَوْلَادِهَا، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ كَانَ ذَلِكَ ضَارًّا، ضَرَّ فَارِسَ، وَالرُّومَ "، وقَالَ زُهَيْرٌ فِي رِوَايَتِهِ: إِنْ كَانَ لِذَلِكَ فَلَا مَا ضَارَ ذَلِكَ فَارِسَ، وَلَا الرُّومَ.
محمد بن عبداللہ بن نمیر اور زہیر بن حرب نے۔۔ الفاظ ابن نمیر کے ہیں۔۔ حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں عبداللہ بن یزید مقبری نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حیوہ نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے عیاش بن عباس نے حدیث سنائی، انہیں ابونضر نے عامر بن سعد سے حدیث بیان کی کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے ان کے والد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو خبر دی کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: می اپنی بیوی سے عزل کرتا ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "تم ایسا کیوں کرتے ہو؟" اس نے جواب دیا: میں اس کے بچے یا اس کے بچوں پر (جنہیں وہ دودھ پلا رہی ہوتی ہے) شفقت کرتا ہوں (کہ انہیں کوئی نقصان نہ ہو۔) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر یہ نقصان دہ ہوتا تو فارس اور روم (کے بچوں) کو نقصان دیتا۔" زہیر نے اپنی روایت میں کہا: "اگر یہ (عزل) اس وجہ سے ہے تو (اس کی ضرورت) نہیں، اس (عمل) نے فارس اور روم (کے بچوں) کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتایا کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، میں اپنی عورت سے عزل کرتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”یہ حرکت تم کیوں کرتے ہو؟“ تو اس آدمی نے جواب دیا، میں اس کے بچے یا اولاد کے بارے میں ڈرتا ہوں (کہ حمل قرار پکڑنے سے دودھ پینے والے بچے کو نقصان پہنچے گا۔“ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ نقصان دہ ہوتا تو فارسیوں اور رومیوں کو نقصان پہنچاتا۔“ نمیر نے اپنی روایت میں بیان کیا: ”اگر یہ بات ہے تو عزل نہ کر، کیونکہ اس فعل سے فارس اور روم والوں کو نقصان نہیں پہنچتا۔“