صحيح مسلم
كِتَاب النِّكَاحِ
نکاح کے احکام و مسائل
24. باب جَوَازِ الْغِيلَةِ وَهِيَ وَطْءُ الْمُرْضِعِ وَكَرَاهَةِ الْعَزْلِ:
باب: غیلہ کے جواز کے بیان میں اور عزل کی کراہت میں۔
حدیث نمبر: 3565
حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عمر ، قَالَا: حدثنا الْمُقْرِئُ ، حدثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ ، حَدَّثَنِي أَبُو الْأَسْوَدِ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنْ جُدَامَةَ بِنْتِ وَهْبٍ أُخْتِ عُكَّاشَةَ، قَالَت: حَضَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُنَاسٍ وَهُوَ يَقُولُ: " لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَنْهَى عَنِ الْغِيلَةِ، فَنَظَرْتُ فِي الرُّومِ، وَفَارِسَ، فَإِذَا هُمْ يُغِيلُونَ أَوْلَادَهُمْ، فَلَا يَضُرُّ أَوْلَادَهُمْ ذَلِكَ شَيْئًا "، ثُمَّ سَأَلُوهُ عَنِ الْعَزْلِ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ذَلِكَ الْوَأْدُ الْخَفِيُّ "، زَادَ عُبَيْدُ اللَّهِ فِي حَدِيثِهِ، عَنِ الْمُقْرِئِ، وَهِيَ: وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ سورة التكوير آية 8،
عبیداللہ بن سعید اور محمد بن ابی عمر نے ہمیں حدیث بیان کی، ان دونوں نے کہا: ہمیں مُقری نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سعید بن ابی ایوب نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابواسود نے عروہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انہوں نے عکاشہ رضی اللہ عنہ کی بہن جدامہ بنت وہب رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں لوگوں کی موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: "میں نے ارادہ کیا تھا کہ غیلہ (دودھ پلانے والی بیوی کے ساتھ مباشرت کرنے) سے منع کر دوں، پھر میں نے روم اور فارس (کے لوگوں کے بارے) میں دیکھا (سوچا، غور کیا) تو وہ اپنے بچوں (کی دودھ پلانے والی ماؤں) سے غیلہ کرتے ہیں اور یہ ان کے بچوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچاتا۔" پھر صحابہ نے آپ سے عزل کے بارے میں پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ مخفی (واد) زندہ درگور کرنا ہے۔" عبیداللہ نے مُقری سے روایت کردہ اپنی حدیث میں اضافہ کیا: اور یہی ہے: "زندہ درگور کی گئی سے (قیامت کے دن) پوچھا جائے گا
حضرت عکاشہ کی ہمشیرہ حضرت جدامہ بنت وہب رضی اللہ تعلیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”میں نے ارادہ کر لیا کہ میں غیلہ سے روک دوں، تو میں نے روم اور فارس کے بارے میں غور کیا، وہ اپنے دودھ پیتے بچوں کی ماں سے تعلقات قائم کرتے ہیں اور یہ کام ان کی اولاد کو کچھ ضرر نہیں پہنچاتا۔“ پھر صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں پوچھا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ پوشیدہ طور پر زندہ کو دفن کرنا ہے۔“ عبیداللہ نے اپنی روایت میں اپنے استاد مقرء سے یہ اضافہ کیا، یہ فعل اس آیت کا مصداق ہے: (جب زندہ دفن کی گئی سے سوال کیا جائے گا۔) (التکویر: 8)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3565 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3565
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
نطفہ چونکہ اولاد کا سبب اور باعث بنتا ہے،
اس لیے اس کو ضائع کرنا سعی لا حاصل کرنا،
اپنے طورپرتخم اور بیج کو ضائع کرنا ہے،
اور اس طرح یہ گویا اپنی نیت اور ارادے کے اعتبار سے پوشیدہ طور پر اولاد کو ضائع کرنا ہے۔
لیکن یہ حدیث دوسری حدیث کے منافی نہیں ہے،
جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے عزل کو مؤدہ صغریٰ قراردینے کی تکذیب کی ہے۔
کیونکہ یہودیوں کا تصور تھا کہ عزل کی صورت میں حمل کا قرار ممکن نہیں ہے،
اس سے بچہ پیدا ہی نہیں ہو سکتا اور یہ بات قطعاً غلط ہے۔
جس بچے کے پیدا ہونے کا اللہ فیصلہ کر چکا ہے وہ عزل کے باوجود پیدا ہو کر رہتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3565
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم361
´ایام رضاعت میں جماع`
«. . . عن جدامة بنت وهب الاسدية انها قالت: اخبرتني انها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”لقد هممت ان انهى عن الغيلة حتى ذكرت الروم وفارس يصنعون ذلك فلا يضر اولادهم شيئا . . .»
”. . . سیدہ جدامہ بنت وہب الاسدیہ رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میں نے ارادہ کیا تھا کہ غیلہ (حاملہ یا مرضعہ بیوی سے جماع) سے منع کر دوں لیکن مجھے یاد آیا کہ رومی اور فارسی لوگ ایسا کرتے ہیں تو ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 361]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 1442، من حديث ما لك به .]
تفقه:
➊ اگر عورت اپنے بچے بچی کو دودھ پلا رہی ہو تو ایام نفاس کے بعد خاوند اپنی بیوی سے ایام رضاعت میں جماع کر سکتا ہے۔
➋ پہلی امتوں کے واقعات بیان کرنا جائز ہے بشرطیکہ ان واقعات کی سند صحیح ہو۔
➌ زیادہ علم والا اور افضل انسان اپنے سے کم علم والے اور مفضول سے روایت بیان کر سکتا ہے کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث سیدہ جدامہ رضی اللہ عنہا سے بیان کی ہے اور بالاتفاق اہل سنت سیدہ عائشہ ان سے افضل ہیں۔ رضی اللہ عنہما
➍ حاملہ بیوی سے شوہر کا جماع کرنا جائز ہے بشرطیکہ پیٹ والے بچے کو کسی ضرر کا اندیشہ نہ ہو۔
➎ نبی ان کا ہر قول و فعل امت مسلمہ کے لئے احسان، خیر اور رحمت ہی رحمت ہے۔
➏ غیر اقوام سے مفید اور معقول چیز میں اخذ کی جا سکتی ہیں۔
➐ اجتہاد کرنا جائز ہے بشرطیکہ واضح دلیل کے خلاف نہ ہو۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 90
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3328
´دودھ پلانے والی عورت سے جماع کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ جدامہ بنت وہب نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا ارادہ ہوا کہ «غیلہ» سے روک دوں پھر مجھے خیال ہوا کہ روم و فارس کے لوگ بھی «غیلہ» کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔“ اسحاق (راوی) کی روایت میں «یصنعہ» کی جگہ «یصنعونہ» ہے۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3328]
اردو حاشہ:
بچہ ابھی دودھ پیتا ہو اور حمل ٹھہر جائے تو بعض دفعہ دودھ بچے کے لیے مضر بن جاتا ہے۔ دودھ چھڑانا پڑتا ہے ورنہ بچے کو اسہال لگ جاتے ہیں۔ اگر حمل نہ ٹھہرے تو صرف جماع سے دودھ کو نقصان نہیں پہنچتا۔ چونکہ ایسی حالت میں جماع حمل کا سبب بن سکتا ہے جس سے نقصان ہوگا‘ اس لیے اس فعل (غیلہ) سے روکا بھی جاسکتا ہے جیساکہ رسول اللہﷺ کا خیال تھا مگر چونکہ اس پابندی پر عمل کرنا خاوند کے لیے تقریباً ناممکن ہے کہ وہ تقریباً دو سال تک اپنی بیوی سے جماع نہ کرے خصوصاً جبکہ بیوی بھی ایک ہو‘ اس لیے یہ پابندی مصلحت کے خلاف ہے اور لوگوں کو خوامخواہ آزمائش اور فتنے میں ڈالنے والی بات ہے‘ لہٰذا آپ نے یہ خیال چھوڑدیا۔ چنانچہ اب مدت رضاعت میں جماع کرنا جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3328
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3882
´رضاعت کے دوران عورت سے جماع کرنا کیسا ہے؟`
جدامہ اسدیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میں نے قصد کر لیا تھا کہ «غیلہ» سے منع کر دوں پھر مجھے یاد آیا کہ روم اور فارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔“ مالک کہتے ہیں: «غیلہ» یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی سے حالت رضاعت میں جماع کرے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الطب /حدیث: 3882]
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایامِ رضاعت میں بیوی سے ہم بستری کرنا جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3882
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2011
´مدت رضاعت میں بیوی سے جماع کرنے کا بیان۔`
جدامہ بنت وہب اسدیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”میں نے ارادہ کیا کہ بچہ کو دودھ پلانے والی بیوی سے جماع کرنے کو منع کر دوں، پھر میں نے دیکھا کہ فارس اور روم کے لوگ ایسا کر رہے ہیں، اور ان کی اولاد نہیں مرتی“ اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے «عزل» کے متعلق پوچھا گیا تھا، تو میں نے آپ کو فرماتے سنا: ”وہ تو «وأدخفی» (خفیہ طور زندہ گاڑ دینا) ہے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2011]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دودھ پلانے کے ایام میں ہم بستری کرنے سے حمل ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ماں کا دودھ کم ہوجاتا ہے او ردودھ پیتا بچہ پورا دودھ نہ ملنے کی وجہ سے کمزور رہ جاتا ہے۔
غیلہ کی صورت میں یہ اندیشہ موجود تو ہے، تاہم یقینی نہیں۔
دودھ کی کمی کا تدارک بھینس، گائے اور بکری وغیرہ کے دودھ سے ممکن ہے۔
ایسے حالات میں وقت سے پہلے دودھ چھڑانا نقصان دہ نہیں ہوگا، اس لیے اس سے اجتناب کرنا جائز تو ہے ضروری نہیں۔
(2)
عزل کے بارے میں دیکھئے فوائد حدیث: 1926۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2011
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3564
حضرت جدامہ بنت وہب اسدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں دودھ پلانے والی عورت سے مباشرت کرنے سے منع کر دوں حتی کہ مجھے یاد آ یا کہ رومی اور فارسی دودھ پلانے والی عورت سے مجامعت کرتے ہیں اور اس سے ان کی اولاد کو نقصان نہیں پہنچتا۔“ امام مسلم فرماتے ہیں: میرے استاد خلف نے جُذَامَہ اَسَدِیَہ، ذال مَنقُوطَہ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3564]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
غِيلَه اور غَيلَه:
زیراورزبر کے ساتھ۔
دودھ پلانے والی عورت کے ساتھ مباشرت کرنے کو کہتے ہیں اور ابن السکیت کے نزدیک حاملہ عورت کے دودھ پلانے کو غیلہ کہتے ہیں۔
فوائد ومسائل:
حکماء کا خیال ہے حاملہ عورت کے دودھ میں بیماری پیدا ہوجاتی ہے،
اور یہ دودھ پینے والا بچہ لاغر اور کمزور ہو جاتا ہے،
اس لیے عرب اس دودھ سے احتراز کرتے تھے۔
لیکن دودھ میں بیماری اورتبدیلی کا پیدا ہونا قطعی اور یقینی نہیں ہے،
بعض دفعہ یہ نقصان کا باعث بنتا ہے خاص کر جبکہ بچہ چھوٹا ہو۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فارسیوں اور رومیوں کے بارے میں یہ معلوم کرلیا۔
انہیں غیلہ سے نقصان نہیں پہنچتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کے بارے میں بھی یہی فیصلہ کیا کہ انہیں اس کام سے منع نہ کیا جائے۔
اگر کوئی احتراز کر لے،
تو یہ بہتر ہے۔
(حجۃاللہ ج2 ص135)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3564