حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرا م باندھنے سے پہلے اور قربانی کے دن بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے ایسی خوشبو لگاتی جس میں کستوری ملی ہو تی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام باندھنے سے پہلے اور قربانی کے دن، بیت اللہ کے طواف سے پہلے ایسی خوشبو لگاتی تھی، جس میں کستوری کی آمیزش ہوتی۔
حدثنا سعيد بن منصور ، وابو كامل جميعا، عن ابي عوانة، قال سعيد: حدثنا ابو عوانة ، عن إبراهيم بن محمد بن المنتشر ، عن ابيه ، قال: سالت عبد الله بن عمر رضي الله عنهما عن الرجل يتطيب، ثم يصبح محرما، فقال: ما احب ان اصبح محرما انضخ طيبا، لان اطلي بقطران احب إلي من ان افعل ذلك، فدخلت على عائشة رضي الله عنها، فاخبرتها ان ابن عمر، قال: ما احب ان اصبح محرما انضخ طيبا لان اطلي بقطران، احب إلي من ان افعل ذلك، فقالت عائشة : " انا طيبت رسول الله صلى الله عليه وسلم عند إحرامه، ثم طاف في نسائه، ثم اصبح محرما ".حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَأَبُو كَامِلٍ جَمِيعًا، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، قَالَ سَعِيدٌ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ الرَّجُلِ يَتَطَيَّبُ، ثُمَّ يُصْبِحُ مُحْرِمًا، فَقَالَ: مَا أُحِبُّ أَنْ أُصْبِحَ مُحْرِمًا أَنْضَخُ طِيبًا، لَأَنْ أَطَّلِيَ بِقَطِرَانٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَفْعَلَ ذَلِكَ، فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَأَخْبَرْتُهَا أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: مَا أُحِبُّ أَنْ أُصْبِحَ مُحْرِمًا أَنْضَخُ طِيبًا لَأَنْ أَطَّلِيَ بِقَطِرَانٍ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَفْعَلَ ذَلِكَ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ : " أَنَا طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ إِحْرَامِهِ، ثُمَّ طَافَ فِي نِسَائِهِ، ثُمَّ أَصْبَحَ مُحْرِمًا ".
ابو عوانہ نے ابرا ہیم بن محمد بن منتشر سے انھوں نے اپنے والدسے روایت کی کہا میں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اس شکس کے بارے میں سوال کیا جو خوشبو لگا تا ہے پھر احرا م بندھ لیتا ہے انھوں نے جواب دیا مجھے یہ پسند نہیں کہ میں احرا م بندھوں (اور) مجھسے خوشبو پھوٹ رہی ہو یہ بات مجھے ایسا کرنے سے زیادہ پسند ہے کہ میں اپنے اوپر تار کو ل مل لوں۔پھر میں حجرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ھاضر ہوا اور انھیں بتا یا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے تو کہا ہے مجھے یہ پسند نہیں کہ میں محرم ہوں اور مجھ (میرے جسم) سے خوشبو پھوٹ رہی ہو ایسا کرنے سے زیادہ مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میں اپنے اوپر تار کو ل مل لوں۔پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور انھیں بتا یا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے تو کہا ہے مجھے یہ پسند نہیں کہ میں محرم ہوں اور مجھ (میرے جسم) سے خوشبو پھوٹ رہی ہو ایسا کرنے سے زیادہ مجھے یہ پسند ہے کہ میں اپنے جسم پر تار کو ل مل لوں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرا م باند ھتے وقت خوشبو لگا ئی تھی پھر آپ نے اپنی تمام بیویوں کے ہاں چکر لگا یا پھر آپ نے احرا م کی نیت کر لی (احرا م کا آغاز کر لیا یعنی خوشبو لگا نے سے تھوڑی دیر بعد احرا م باند ھ لیا)
ابراہیم بن محمد بن منتشر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو خوشبو لگا کر احرام باندھتا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا، میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ میں احرام باندھوں اور مجھ سے خوشبو پھوٹ رہی ہو، یہ کام کرنے سے زیادہ مجھے یہ پسند ہے کہ میں تارکول مل لوں، پھر میں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں آگاہ کیا کہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا کہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ میں احرام باندھوں اور مجھ سے خوشبو پھوٹ رہی ہو، میں تارکول مل لوں تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں یہ کام کروں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جواب دیا، خود میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام باندھتے وقت خوشبو لگائی تھی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے پاس گئے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے صبح احرام باندھا۔
شعبہ نے ابرا ہیم بن محمد بن منتشر سے روایت کی، انھوں نے کہا میں نے اپنے والد کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کرتے سنا انھوں نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگا تی پھر آپ اپنی تمام بیویوں کے ہاں تشریف لے جا تے بعد ازیں آپ احرا م باندھ لیتے (اور) آپ سے خوشبو پھوٹ رہی ہو تی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگاتی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے پاس جاتے اور صبح احرام باندھتے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوشبو پھوٹ رہی ہوتی۔
سفیان نے ابرا ہیم بن محمد بن منتشر سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی انھوں نے کہا میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہو ئے سنا انھوں نے کہا یہ بات کہ میں تار کو ل مل لوں۔مجھے اس کی نسبت زیادہ پسند ہے کہ میں احرا م باندھوں اور مجھ سے خوشبو پھوٹ رہی ہو۔ (محمد نے کہا: میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوااور آپ کو ان (ابن عمر رضی اللہ عنہ) کی بات بتا ئی۔انھوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگا ئی پھر آپ اپنی تمام بیویوں کے ہاں تشر یف لے گئے پھر آپ محرم ہو گئے (احرا م کی نیت کر لی۔) باب: 8۔جس نے حج و عمرے کا الگ الگ یا اکٹھا احرا م باندھا ہوا ہواس کے لیے کسی کھا ئے جا نے والے جا نور کا شکار جو خشک زمین پر رہتا ہو یا بنیادی طور پر خشکی سے تعلق رکھتا ہو حرا م ہے
ابراہیم بن محمد بن منتشر اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کو یہ کہتے ہوئے سنا، میں تارکول مل لوں مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں احرام باندھوں اور مجھ سے خوشبو پھوٹ رہی ہو تو میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس گیا اور انہیں ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے قول سے آگاہ کیا، اس پر انہوں نے جواب دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کے پاس گئے، پھر صبح احرام باندھ لیا۔
مالک نے ابن شہاب سے انھوں نے عبید اللہ بن عبد اللہ سے انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے انھوں نے صعب بن جثامہ لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے آپ کو ایک زیبراہدیتاً پیش کیا آپ ابو اء یاودان مقام پر تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا (انھوں نے) کہا: جب رسول اللہ نے میرے چہرے کی کیفیت دیکھی تو فرمایا: بلا شبہ ہم نے تمھا را ہدیہ رد نہیں کیا لیکن ہم حالت احرا م میں ہیں (اس لیے اسے نہیں کھا سکتے۔)
حضرت صعب بن جثامہ لیثی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگلی گدھا پیش کیا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابواء یا ودان میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے کی کیفیت (ملال) کو دیکھا تو فرمایا: ”ہم نے صرف اس بنا پر اسے تجھے واپس کیا ہے کہ ہم محرم ہیں۔“
لیث بن سعد معمر اور ابو صالح ان سب نے زہری سے اسی سند کے ساتھ روایت کی (کہ حضرت صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے کہا) میں نےآپ کو ایک زیبرا ہدایتاً پیش کیا جس طرح مالک کے الفاظ ہیں اور لیث اور صالح کی روایت میں (یوں) ہے کہ صعب بن جثامہ نے انھیں (ابن عباس رضی اللہ عنہ کو) خبر دی۔
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ سے حضرت صعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپٗ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگلی گدھا پیش کیا، آگے مذکورہ بالا واقعہ ہے۔
اعمش نے حبیب بن ابی ثابت سے انھوں نے سعید بن جبیر سے انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیتاً زبیراپیش کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرا م میں تھے سو آپ نے اسے لو ٹا دیا اور فرمایا: اگر ہم احرا م کی حالت میں نہ ہو تے تو ہم اسے تمھا ری طرف سے (ضرور) قبول کرتے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت صعب بن جثامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگلی گدھا بطور تحفہ پیش کیا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم محرم تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا اور فرمایا: ”اگر ہم محرم نہ ہوتے تو اسے قبول کر لیتے۔“
منصور نے حکم سے اسی طرح شعبہ نے حکم کے واسطے سے اور واسطے کے بغیر (براہ راست) بھی حبیب سے انھوں نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔حکم سے منصور کی روایت کے الفاظ ہیں کہ صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زیبے کی ران ہدیتاً پیش کی۔ حکم سے شعبہ کی روایت کے الفاظ ہیں زیبرے کا پچھلا دھڑپیش کیا جس سے خون ٹپک رہا تھا۔ اور حبیب سے شعبہ کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زیبرے کا (ایک جانب کا) آدھا حصہ ہدیہ کیا گیا تو آپ نے اسے واپس کر دیا۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت اپنے مختلف اساتذہ سے پیش کرتے ہیں، حکم سے منصور بیان کرتے ہیں کہ صعب بن جثامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگلی گدھے کی ٹانگ تحفتا پیش کی اور شعبہ کہتے ہیں، جنگلی گدھے کا عَجُز (پچھلا دھڑ) پیش کیا، جس سے خون بہہ رہا تھا اور شعبہ دوسرے استاد حبیب سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگلی گدھے کا آدھا یا ایک پہلو پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رد کر دیا۔
وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن جريج ، قال: اخبرني الحسن بن مسلم ، عن طاوس ، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قدم زيد بن ارقم، فقال له عبد الله بن عباس يستذكره: كيف اخبرتني عن لحم صيد اهدي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو حرام؟، قال: قال: اهدي له عضو من لحم صيد فرده، فقال: " إنا لا ناكله إنا حرم ".وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَدِمَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ يَسْتَذْكِرُهُ: كَيْفَ أَخْبَرْتَنِي عَنْ لَحْمِ صَيْدٍ أُهْدِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ حَرَامٌ؟، قَالَ: قَالَ: أُهْدِيَ لَهُ عُضْوٌ مِنْ لَحْمِ صَيْدٍ فَرَدَّهُ، فَقَالَ: " إِنَّا لَا نَأْكُلُهُ إِنَّا حُرُمٌ ".
طاوس نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: (ایک بار) زید بن ارقم رضی اللہ عنہ تشریف لا ئے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں یاد کراتے ہو ئے کہا: آپ نے مجھے اس شکار کے گو شت کے متعلق کس طرح بتا یا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرا م کی حالت میں ہدیتاً پیش کیا گیا تھا؟ (طاوس نے) کہا (زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے) بتا یا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شکار کے گو شت کا ایک ٹکڑا پیش کیا گیا تو آپ نے اسے واپس کر دیا اور فرمایا: ہم اسے نہیں کھا سکتے (کیونکہ) ہم احرا م میں ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے یاد داشت کے لیے پوچھا، آپ نے مجھے شکار کے اس گوشت کے بارے میں کیا بتایا تھا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محرم ہونے کی حالت میں ہدیۃ پیش کیا گیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گوشت کا ایک ٹکڑا یا ایک عضو ہدیۃ پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رد کر دیا اور فرمایا: ”ہم اسے کھا نہیں سکتے کیونکہ ہم محرم ہیں۔“