Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ
حج کے احکام و مسائل
7. باب اسْتِحْبَابِ الطّيبِ قُبيْلَ الْإِحْرَامِ فِي الْبَدَنِ وَاسْتِحُبَا بِهِ بِالْمِسْكِ وَأَنَّهُ لٓا بَاْسَ بِبِقَاءِ وَبِيصِهِ وَهُوَ بَريقَةٌ وَّلَمْعَانْهُ
باب: احرام سے پہلے بدن میں خوشبو لگانے اور کستوری کے استعمال کرنے اور اس بات کے بیان میں کہ خوشبو کا اثر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں۔
حدیث نمبر: 2844
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، وَسُفْيَانَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: لَأَنْ أُصْبِحَ مُطَّلِيًا بِقَطِرَانٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُصْبِحَ مُحْرِمًا أَنْضَخُ طِيبًا، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَأَخْبَرْتُهَا بِقَوْلِهِ، فَقَالَتْ: " طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَافَ فِي نِسَائِهِ، ثُمَّ أَصْبَحَ مُحْرِمًا ".
سفیان نے ابرا ہیم بن محمد بن منتشر سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی انھوں نے کہا میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہو ئے سنا انھوں نے کہا یہ بات کہ میں تار کو ل مل لوں۔مجھے اس کی نسبت زیادہ پسند ہے کہ میں احرا م باندھوں اور مجھ سے خوشبو پھوٹ رہی ہو۔ (محمد نے کہا: میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوااور آپ کو ان (ابن عمر رضی اللہ عنہ) کی بات بتا ئی۔انھوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگا ئی پھر آپ اپنی تمام بیویوں کے ہاں تشر یف لے گئے پھر آپ محرم ہو گئے (احرا م کی نیت کر لی۔) باب: 8۔جس نے حج و عمرے کا الگ الگ یا اکٹھا احرا م باندھا ہوا ہواس کے لیے کسی کھا ئے جا نے والے جا نور کا شکار جو خشک زمین پر رہتا ہو یا بنیادی طور پر خشکی سے تعلق رکھتا ہو حرا م ہے
ابراہیم بن محمد بن منتشر اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کو یہ کہتے ہوئے سنا، میں تارکول مل لوں مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں احرام باندھوں اور مجھ سے خوشبو پھوٹ رہی ہو تو میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس گیا اور انہیں ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے قول سے آگاہ کیا، اس پر انہوں نے جواب دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کے پاس گئے، پھر صبح احرام باندھ لیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2844 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2844  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ احرام باندھنے سے پہلی اور دس ذوالحجہ کو رمی جمار،
قربانی اور تحلیق وتقصیر کے بعد طواف افاضہ جس کو طواف رکن اورطواف زیارت بھی کہتے ہیں اس سے پہلے انسان خوشبولگا سکتا ہے۔
اور بقول امام نووی رحمۃ اللہ علیہ احرام باندھنے سے پہلے خوشبو لگانا مستحب ہے اگرچہ اس خوشبو کا اثر اور نشان احرام باندھنے کے بعد بھی موجود رہے اور انسان سے خوشبو پھوٹتی رہے۔
صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم کی اکثریت،
جمہور فقہاء محدثین اور ائمہ اربعہ میں سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مؤقف ہے امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ۔
امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی نظریہ ہے۔
لیکن بعض صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اورتابعین رحمۃ اللہ علیہم امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام زہری رحمۃ اللہ علیہ۔
اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کےنزدیک احرام سے پہلے خوشبو لگانا جائز نہیں ہے۔
احرام کی حالت میں بالاتفاق جائز نہیں ہے اگر محرم احرام کی حالت میں طیب (خوشبو)
استعمال کرے گا تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس پر کفارہ ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خوشبو اگر فوراً زائل کر دے تو کفارہ نہیں ہے،
اگر خوشبو برقرار رہے تو کفارہ ہو گا۔

وہ خوشبو جس کا جرم (مادہ)
احرام کے بعد بھی قائم رہے،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بدن اور کپڑوں دونوں میں ناجائز ہے۔
اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دونوں میں جائز ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بدن میں جائز ہے کپڑوں میں جائز نہیں ہے۔

محرم کے لیے پھول سونگھنا،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جائز نہیں ہے اگر پھول سونگھے گا تو اس پر فدیہ لازم ہوگا۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور اما مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پھول سونگھنا جائز نہیں ہے۔
لیکن اگر سونگھ لے گا تو فدیہ نہیں ہے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اقتداء میں اس کو جائز قرار دیتے ہیں اور محدثین کا موقف یہی ہے اور بقول علامہ عینی وہ نباتات یا پھول جن کی مہک کو پسند کیا جاتا ہے ان کی تین قسمیں ہیں۔
(ا)
۔
وہ نباتات اور پھول جن کو خوشبو حاصل کرنے کے لیے کاشت نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان سے خوشبو تیار کی جاتی ہے۔
ان کو سونگھنا جائز ہے۔
(ب)
وہ نباتات جن کو خوشبو کی خاطر بویاجاتاہے لیکن ان سے خوشبو تیار نہیں کی جاتی،
جیسے نرگس۔
گینڈا وغیرہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ابوثور کے نزدیک ان کو سونگھنا جائز نہیں ہے سونگھنے پر فدیہ ہو گا۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان کا سونگھنا مکروہ ہے لیکن اس پر فدیہ نہیں ہے۔
(ج)
وہ پھول جو خوشبو کے حصول کے لیے لگائے جاتے ہیں اور ان سے خوشبو تیار کی جاتی ہے گلاب،
چنبیلی وغیرہ ان پر فدیہ ہوگا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی باری لازم نہ تھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اختیار سے باری کی پابندی اختیار کی ہوئی تھی اس لیے سفر پر جاتے وقت اور سفر سے واپسی کے وقت یا نئے سرے سے باری شروع کرتے وقت،
آپ سب کے پاس تشریف لے جاتے تھے،
اس لیے آپﷺ حج کا احرام باندھنے سے پہلے سب کے پاس تشریف لے گئے،
اس کے باوجود بھی کہ آپﷺ نے اس سے خوشبو استعمال کی اور بعد میں غسل فرمایا خوشبو کا اثر آپﷺ کی مانگ میں موجود رہا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2844