زہری نے سالم سے روایت کی کہ ابو بکر عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہ ابطح پڑاؤکیا کرتے تھے۔ زہر ی نے کہا مجھے عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی کہ وہ ایسا نہیں کرتی تھیں اور (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اترے تھے کیونکہ پڑاؤ کی وہ جگہ آپ کے (مکہ سے) نکلنے کے لیے زیادہ آسان تھی۔
سالم رحمۃ اللہ علہ بیان کرتے ہیں، حضرت ابوبکر، عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنھم وادی اَبطَحَ میں اترتے تھے، عروہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں بتاتے ہیں، وہ ایسا نہیں کرتی تھیں، وہ فرماتی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں محض اس لیے اترے تھے، کیونکہ وہ ایسی منزل تھی، جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (مدینہ منورہ کے لیے) نکلنا آسان تھا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا تحصب (محصب میں ٹھہرنا) کوئی چیز نہیں وہ تو پڑاؤ کی ایک جگہ ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کیا تھا۔
حضرت ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، مُحَصَّب میں اترنا کوئی دینی مسئلہ نہیں ہے، وہ تو محض ایک منزل ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا تھا۔
قتیبہ بن سعید ابو بکر بن ابی شیبہ اور زہیر بن حر ب ان سب نے ابن عیینہ سے حدیث بیان کی انھوں نے صالح بن کیسان سے اور انھوں نے سلیمان بن یسارسے روایت کی انھوں کہا ابو رافع رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آپ نے منیٰ سے نکلے مجھے یہ حکم نہیں دیا تھا کہ میں ابطح میں قیام کروں لیکن میں (خود) وہاں آیا اور آپ کا خیمہ لگا یا اس کے بعد آپ تشریف لا ئے اور قیام کیا۔ابو بکر (بن ابی شیبہ) نے صالح سے (بیان کردہ) روایت میں کہا انھوں (صالح) نے کہا میں نے سلیمان بن یسار سے سنا اور قتیبہ کی روایت میں ہے۔ (سلیمان نے) کہا ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان (کی حفاظت اور نقل و حمل) پر مامور تھے۔
حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ سے روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اَبطَحَ میں ٹھہرنے کا حکم نہیں دیا تھا، لیکن میں اپنے طور پر آیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ یہاں لگا دیا، آپ وہاں آ کر ٹھہر گئے، امام صاحب کے ایک استاد قتیبہ کی روایت میں ہے کہ ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان کی حفاظت پر مامور تھے۔
یو نس نے ابن شہاب سے خبر دی انھوں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن بن عوف سے انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: " کل ہم ان شاء اللہ خیف بنی کنانہ (وادی محصب) میں قیام کریں گے جہاں انھوں (قریش) نے باہم کفر پر (قائم رہنے کی) قسم کھا ئی تھی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کل ہم ان شاءاللہ خیف بنو کنانہ میں ٹھہریں گے، جہاں انہوں نے کفر پر باہمی قسمیں اٹھائیں تھیں۔“
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثني الاوزاعي ، حدثني الزهري ، حدثني ابو سلمة ، حدثنا ابو هريرة ، قال: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن بمنى: " نحن نازلون غدا بخيف بني كنانة، حيث تقاسموا على الكفر، وذلك إن قريشا، وبني كنانة تحالفت على بني هاشم، وبني المطلب، ان لا يناكحوهم، ولا يبايعوهم حتى يسلموا إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم "، يعني بذلك: المحصب.حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، حدثنا أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِمِنًى: " نَحْنُ نَازِلُونَ غَدًا بِخَيْفِ بَنِي كِنَانَةَ، حَيْثُ تَقَاسَمُوا عَلَى الْكُفْرِ، وَذَلِكَ إِنَّ قُرَيْشًا، وَبَنِي كِنَانَةَ تَحَالَفَتْ عَلَى بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، أَنْ لَا يُنَاكِحُوهُمْ، وَلَا يُبَايِعُوهُمْ حَتَّى يُسْلِمُوا إِلَيْهِمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، يَعْنِي بِذَلِكَ: الْمُحَصَّبَ.
اوزاعی نے حدیث بیان کی، (کہا) مجھے زہری نے حدیث سنا ئی ہے (کہا) مجھ سے ابو سلمہ نے حدیث بیان کی کہا: ہمیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہم منیٰ میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا کل ہم خیف بنو کنا نہ میں قیام کر یں گے جہا ں انھوں (قر یش) نے آپس میں مل کر کفر پر (ڈٹے رہنے کی) قسم کھا ئی تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ قریش اور بنو کنا نہ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ وہ نہ ان سے شادی بیاہ کریں گے نہ ان سے لین دین کریں گے۔ یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حوالے کردیں۔ اس (خیف بنی کنانہ) سے آپ کی مراد وادی محصب تھی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، منیٰ میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کل ہم خیف بنی کنانہ میں اتریں گے، جہاں انہوں نے آپس میں کفر پر قسمیں اٹھائی تھیں۔“ اس کی صورت یہ ہے کہ قریش اور بنو کنانہ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کے خلاف، آپس میں قسمیں اٹھائی تھیں کہ ہم ان سے اس وقت تک شادی و بیاہ اور خرید و فروخت نہیں کریں گے، جب تک یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حوالہ نہیں کرتے، خیف بنی کنانہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد وادی محصب تھی۔
اعرج نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان شاء اللہ جب اللہ نے فتح دی تو ہمارا قیام خیف (محصب) میں ہو گا۔جہاں انھوں (قریش) نے باہم مل کر کفر پر (قائم رہنے کی قسم کھا ئی تھی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہماری قیام گاہ ان شاءاللہ، جب اللہ تعالیٰ نے فتح دی ہے، خیف ہو گی، جہاں انہوں نے آپس میں کفر پر قسمیں اٹھائی تھیں۔“
60. باب: ایام تشریق کی راتیں منی میں گزارنا واجب ہیں، اور پانی پلانے والوں کو اس کو چھوڑنے کی رخصت۔
Chapter: It is obligatory to stay overnight in Mina during the nights of the days of At-Tashriq, and the concession allowing those who supply water to leave
(محمد بن عبد اللہ) بن نمیر اور ابو اسامہ دو نوں نے کہا ہمیں عبید اللہ نے حدیث بیان کی اور ابن نمیر نے۔۔۔الفا ظ انھی کے ہیں۔۔۔ اپنے والد کے واسطے سے بھی عبید اللہ سے روایت کی کہا: مجھے نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ بن المطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ وہ (زمزم پر حاجیوں کو) پا نی پلانے کے لیے منیٰ کی را تیں مکہ میں گزار لیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت مرحمت فرما دی۔
وحدثني محمد بن المنهال الضرير ، حدثنا يزيد بن زريع ، حدثنا حميد الطويل ، عن بكر بن عبد الله المزني ، قال: كنت جالسا مع ابن عباس، عند الكعبة، فاتاه اعرابي، فقال: ما لي ارى بني عمكم يسقون العسل واللبن، وانتم تسقون النبيذ؟ امن حاجة بكم، ام من بخل؟ فقال ابن عباس : " الحمد لله ما بنا من حاجة، ولا بخل قدم النبي صلى الله عليه وسلم على راحلته، وخلفه اسامة، فاستسقى فاتيناه بإناء من نبيذ، فشرب وسقى فضله اسامة وقال: احسنتم واجملتم كذا، فاصنعوا، فلا نريد تغيير ما امر به رسول الله صلى الله عليه وسلم ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ الضَّرِيرُ ، حدثنا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حدثنا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْدَ الْكَعْبَةِ، فَأَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ، فقَالَ: مَا لِي أَرَى بَنِي عَمِّكُمْ يَسْقُونَ الْعَسَلَ وَاللَّبَنَ، وَأَنْتُمْ تَسْقُونَ النَّبِيذَ؟ أَمِنْ حَاجَةٍ بِكُمْ، أَمْ مِنْ بُخْلٍ؟ فقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : " الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا بِنَا مِنْ حَاجَةٍ، وَلَا بُخْلٍ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَخَلْفَهُ أُسَامَةُ، فَاسْتَسْقَى فَأَتَيْنَاهُ بِإِنَاءٍ مِنْ نَبِيذٍ، فَشَرِبَ وَسَقَى فَضْلَهُ أُسَامَةَ وَقَالَ: أَحْسَنْتُمْ وَأَجْمَلْتُمْ كَذَا، فَاصْنَعُوا، فَلَا نُرِيدُ تَغْيِيرَ مَا أَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
بکر بن عبد اللہ مزنی نے کہا: میں کعبہ کے پاس حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہو اتھا کہ ان کے پا س ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگا: کہا وجہ ہے میں دیکھتا ہوں کہ تمھا رے چچا زاد (حاجیوں کو) دودھ اور شہد پلا تے ہیں اور تم نبیذ پلا تے ہو؟ یہ تمھیں لا حق حاجت مندی کی وجہ سے ہے یا بخیلی کی وجہ سے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا الحمد اللہ نہ ہمیں حاجت مندی لا حق ہے اور نہ بخیلی (اصل بات یہ ہے کہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر (سوار ہو کر) تشریف لا ئے اور آپ کے پیچھے اسامہ رضی اللہ عنہ سوار تھے آپ نے پانی طلب فرمایا تو ہم نے آپ کو نبیذ کا ایک برتن پیش کیا آپ نے خود پیا اور باقی ماندہ اسامہ رضی اللہ عنہ کو پلا یا اور فرمایا: " تم لوگوں نے اچھا کیا اور بہت خوب کیا اسی طرح کرتے رہنا۔لہٰذا ہم نہیں چا ہتے کہ جس کا کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہم اسے بدل دیں۔
بکر بن عبداللہ مزنی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس کعبہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، کہ ایک بدوی آپ کے پاس آ کر کہنے لگا، کیا وجہ ہے، میں دیکھ رہا ہوں، تمہارے چچا زاد، دودھ اور شہد پلاتے ہیں، اور آپ نبیذ پلاتے ہیں؟ اس کا سبب احتیاج و فقر ہے یا بخل کنجوسی؟ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جواب دیا، الحمدللہ۔ ہم نہ محتاج ہیں اور نہ بخیل، (بات یہ ہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی طلب فرمایا، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبیذ کا ایک برتن پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا، اور باقی ماندہ اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پلایا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے بہت اچھا اور خوب کام کیا، ایسے ہی کرتے رہنا۔“ اس لیے ہم نہیں چاہتے، جس چیز کا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا، اس میں تبدیلی کریں۔
61. باب فِي الصَّدَقَةِ بِلُحُومِ الْهَدْيِ وَجُلُودِهَا وَجِلاَلِهَا:
61. باب: قربانی کے گوشت، کھال اور جھول کو صدقہ کرنے کا حکم، اور قصائی کو ان میں سے کوئی چیز نہ دینے کا حکم، اور قربانی کی نگرانی کے لیے اپنا نائب مقرر کرنے کا جواز۔
Chapter: Giving the meat, skin and blankets of the Hadi in charity; the butcher should not be given any of it; It is permissible to delegate someone else to offer the sacrifice
ابو خثیمہ نے ہمیں عبد الکریم سے خبر دی انھوں نے مجاہدسے انھوں نے عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے اور انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے قربانی کے اونٹوں کی نگرا نی کروں اور یہ کہ ان گو کا گو شت کھا لیں اور جھولیں صدقہ کروں نیز ان میں سے قصاب کو بطور اجرتکچھ بھی) نہ دو ں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ہم اس کو اپنے پاس سے (اجرت) دیں گے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قربانی کے اونٹوں کی نگرانی کا حکم دیا، اور یہ کہ ان کا گوشت، چمڑے اور جھل صدقہ کر دوں، اور قصاب کی اجرت میں اس سے کچھ نہ دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم اسے اجرت اپنے پاس سے دیں گے۔“